تصحیح حدیث اور تضعیف حدیث
محمد فہیم الدین بجنوری
23 ذی الحجہ 1445ھ 30 جون 2024ء
ان ظاہر پرستوں کو اصل مسئلہ فقہ، فقہاء اور ائمۂ اربعہ سے ہے۔ عہدِ قدیم میں انہوں نے فقہ سے فرار کے لیے اتباعِ صحیح حدیث کا شعار اختیار کیا تھا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے فارمولا تبدیل کیا اور فقہ سے فرار کے لیے احادیث کو کالعدم قرار دے دیا۔ تصحیح حدیث کا شغل بھی فقہ دشمنی پر مبنی تھا اور تضعیف حدیث کا رجحان بھی فقہ سے جان بچانے کے لیے ہے۔ حدیث پسندی مجرد نعرہ ہے۔
انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کو نظر انداز کیا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ حفظِ حدیث اور نقلِ امانت پر توجہ مرکوز رکھو۔ فہمِ حدیث کی جواب دہی فقہاء کی ہے۔ مسئلہ مفتیان بتائیں گے۔ آپ دہری ذمے داری سے خود کو نڈھال و نزار نہ کرو؛ لیکن انھوں نے دائرۂ کار کا احترام نہیں کیا اور بیگانے میدان میں جست لگاکر گل کھلائے۔
فقیہ، متعارض نصوص میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے حسن کو نکھارتا ہے، بہ ظاہر متضاد ارشادات کے درست معانی اجاگر کرتا ہے، مختلف ہدایات جاری کرنے کے الزام کی نسبت مطلعِ نبوت کا غبار دور کرتا ہے، وہ صحیح احادیث کو بوسہ دیتا ہے، نسبتًا ضعیف احادیث کو لغو اور فضول قرار نہیں دیتا، وہ دوم درجے کی روایات سے روشنی اخذ کرتا ہے اور اسے صحیح احادیث کے حسن کو دو آتشہ کرنے میں استعمال کرتا ہے۔
یہ متعارض روایات کے بھید تک رسائی سے قاصر تھے، فقہاء محرم اسرار تھے، ان کی ظاہر پرستی استفادے سے مانع ہوئی، سطح آب پر قانع ذہن کو، ڈوبنے کا شعور وسلیقہ گراں گذرا، اجداد نے ’’صحیح‘‘ کا کارڈ کھیل کر فقہ سے معذرت کی اور احفاد نے ان احادیث ہی کو سوخت کردیا جو تطبیق، تفہیم اور تشریح میں معاون تھیں اور جو شریعت کی تدوین وترتیب کے لیے ناگزیر تھیں۔ انہوں نے تو صحیح و ضعیف کھیل کر لسانِ نبوت کو بازیچہ بنا ہی دینا تھا، وہ تو فقہاء کے سینوں نے راز کے پردے اٹھا کر، بارگاہِ نبوت کو افسانہ بننے سے بچایا۔
باغ نبوت کے باغبانوں، مالیوں، پاسبانوں، بلبلوں، قمریوں اور عندلیبوں یعنی فقہائے امت اور ائمۂ اربعہ کو کروڑوں سلام! (ختم شد)
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!