اللہ تعالیٰ کا نیا ایڈریس غزہ ہے
محمد فہیم الدین بجنوری
11 محرم الحرام 1446ھ 18 جولائی 2024ء
اللہ تعالیٰ نے بابِ قربت میں عشق ومحبت کا رنگ ملحوظ رکھا ہے۔ وہ عام الطاف میں جس درجہ فیاض ہے، خاص نوازشوں میں اسی درجہ انتخاب پسند ہے۔ قرآن کریم میں برگزیدہ ہستیوں کے لیے ’’اصطفى‘‘ کی تعبیر اسی راز کا رمز ہے۔
ایک جانب وہ یہ کہتا ہے کہ میں بالشت کا جواب، گز سے اور چال کا جواب دوڑ سے دیتا ہوں: ( بخاری: 7536)؛ لیکن اگر کوئی صاحبِ جنوں تخلیہ طلب ہو جائے تو امتحان لیتا ہے۔ در اصل اس نے اشارۃ النص میں یہ بات کہہ رکھی ہے؛ چناں چہ جہاں اس نے پردۂ نور اٹھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، وہاں ریاضت ومجاہدے کی شرط موجود ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿عنکبوت: 69﴾
اسی عطاء کو لے کر حضرت حنظلہ کو غلط فہمی ہو گئی تھی، وہ گھر کے ماحول کا مجلسِ نبوی کی بارانِ رحمت سے موازنہ کر رہے تھے اور فرق کی وجہ سے نفاق کے بارے میں متفکر ہو گئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھایا کہ یہ سرشاری گاہے گاہے نصیب ہوتی ہے، حضور و یادداشت کی کیفیت یکساں نہیں رہتی۔ (مسلم: 2750).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی تناظر میں بہ طور تحدیث نعمت فرمایا کہ جب مجھے شرفِ باریابی بخشا جاتا ہے تو میری پرواز بالکل نئے مدارج طے کرتی ہے، پھر نبی مرسل ہو یا مَلَک مقرب؛ سب نارسا نظر آتے ہیں۔ روایت میں نکرہ لفظ وارد ہے، جس کا پیغام یہ ہے کہ وہ مخصوص رفعت وقفے وقفے سے عطاء ہوتی ہے، اس کی ارزانی سیدِ بشر کے لیے بھی نہیں ہے۔
صوفیہ نے وصل اور رسائی کی تسہیل کے لیے گوناگوں تدبیریں وضع کی ہیں؛ لیکن تیر بہ ہدف کام کرنے والی صورتیں سخت اور محنت طلب ہیں، بہت وقت تک تو وہ لفٹ ہی نہیں دیتے، سگنل ہی نہیں ملتا، خیال نہیں بندھتا، لو نہیں لگتی؛ ہاں کوئی سہارا، سفارش، سورس اور ان کے حرم کا محرم مل جائے تو دروازے کھلتے جاتے ہیں، رابطے بنتے جاتے ہیں اور انتظار ہال میں بیٹھنے کی زحمت اٹھا لی جاتی ہے۔
آج کل انھوں نے غزہ نسبت کو سب سے بڑا وسیلہ قرار دیا ہوا ہے، غزہ کے لیے دستِ دعاء بلند کرو سگنل فوری طور پر فعال ہو جاتے ہیں، ملأ اعلی متوجہ ہو جاتا ہے، کنکشن مربوط ہو جاتا ہے، اسی وقت لبیک کی ندا موصول ہوتی ہے، غزہ کے بارے میں سوچو تو وہ اپنے ایوانوں کے پردے اٹھا دیتے ہیں، غزہ مدد کی فکر کرو تو وہ تمھارے مسائل کی گرہیں کھولنے میں لگ جاتے ہیں، غزہ اللہ کے ساتھ وقت کا سب سے عزیز سودا بن گیا ہے۔
روزِ قیامت اللہ تعالی جفا شعاروں اور حق مارنے والوں کی فہمائش کرے گا، وہ کہے گا کہ میں بیمار ہوا اور تو نے مزاج پرسی تک نہ کی، میں خالی پیٹ رہا اور تو نے تواضع نہ کی، میں پیاسا تھا اور تو نے مجھے پانی تک نہ دیا: ( مسلم: 2569)۔
مجرموں کے استعجاب پر وہ جواب دے گا کہ فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے نظر انداز کیا، اگر تو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے وہیں پاتا، ایک شخص فاقہ زدہ تھا، اگر تو اسے کھلاتا تو مجھے محسوس کرتا، تشنہ لبوں کے لیے سبیل بناتا تو میری ملاقات سے سرفراز ہوتا!!!
وہی رب دوہزار تیئیس اور دوہزار چوبیس کے مسلمانانِ عالم کو سرِ محشر جواب دہ بنائے گا، وہ گوشمالی کرتے ہوئے فرمائے گا کہ میں غزہ میں مبتلائے فاقہ ہوا، تم نے خبر نہ لی! میں پیاس کا شکار ہوا تم پانی لے کر نہ پہنچے! میں زخمی ہوا تم علاج کے لیے آگے نہیں آئے! غزہ ذبح ہوگیا اور تم تماشا دیکھتے رہے! اس وقت میں وہاں تھا، اگر تم غزہ آتے تو مجھے وہیں پاتے، میں غزہ کے بچوں میں تھا، خواتین میں تھا، بیماروں میں تھا، ضعیفوں میں تھا، جوانوں میں تھا، جاں بازوں میں تھا، کھنڈروں میں تھا، پناہ گاہوں میں تھا، خیموں میں تھا، غزہ کے ذرے ذرے میں تھا!!!!!
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!