امریکہ برطانیہ وغیرہ ممالک میں مسلمانوں کی صورت حال
(صاحب تحریر نے کینیڈا سے آرٹیفیشیل انٹلیجنس میں پی ایچ ڈی اور پھر پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔)
ا۔ جو شخص یہاں کسی دینی نظم سے نہیں جڑتا، وہ اپنے ایمان کے معاملے میں تنہا رہ جاتا ہے۔
۲۔ رمضان، عید الفطر، اور عید الاضحی پر ویسا ماحول نہیں ملتا۔ عام لوگ تراویح، جمعہ کی نماز سے رہ جاتے ہیں۔
۳۔ عام لوگ روزانہ کی نماز سے رہ جاتے ہیں۔ تین طبقے دیکھنے کو ملے، ایک وہ جو گھر سے باہر ہوں تو نماز قضاء کرتے ہیں، دوسرے کپڑے بدلنے کی جگہ پر چھپ کر نماز پڑھتے ہیں، اور تیسرے کھلے عام Tim Hortons میں نماز پڑھتے ہیں۔ البتہ مسجد اور جماعت کا ملنا جبکہ آپ گھر یا آفس سے دور ہوں، بازار میں ہوں یا گھومنے پھرنے نکلے ہوں، نایاب ہے۔
۴۔ آپ کے بچوں کا کفریہ عقائد و اصطلاحات سے بچپن ہی سے پالا پڑ جاتا ہے۔ مثلا پاکستان میں رہنے والا بچہ گرل فرینڈ، گے رائٹس، اور ایسی خباثتوں سے نا آشنا ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں دینی گھرانوں میں ۲ سال کے بچے بھی ان اصطلاحات سے واقف ہیں۔ کیونکہ چلتے پھرتے یہ ابحاث عام ہیں۔
۵۔ ایک بے نمازی پڑوسی کی نحوست تو ہوتی ہے، تو سوچیں آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں بے دین لوگ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منھ پر انکار کرتے ہوں، ان کی کتنی نحوست ہوگی؟
۶۔ اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی جس سے کمزور ساتھیوں کو کوئی یاد دہانی نہیں ہوتی کہ اب کونسی نماز کا وقت ہے یا کسی کام کے لیے بلوایا جا رہا ہے۔
۷۔ عید کی نماز کیلکولیشن کے حساب سے ہوتی ہے، جبکہ چاند دیکھ کر عید پڑھنے والی مسجدیں بہت کم، لہذا مجھے ذاتی طور پر اس بار ۴۰۰ کلومیٹر سفر کرکے عید کی نماز ملی، کیا ہر شخص اتنا سفر کر سکتا ہے؟
۸۔ عید الاضحی پر بچے سنت ابرا ہیمی سے بالکل غافل رہتے ہیں، نہ جانور لایا جا سکتا ہے، نہ کوئی دکھاتا ہے، ذبح کروانا ہو تو stun کر کے ذبح ہوتا ہے، وہ بھی گنے چنے لوگ کرتے ہیں۔
۹۔ یہاں نجات فقط علماء سے انتہائی قریبی تعلق رکھنے میں ہے، جبکہ عام طور پر لوگ ایسا نہیں کر پاتے کیونکہ پہلے سے تربیت نہیں ہوئی ہوتی تو یہاں آکر علماء سے حجاب رہتا ہے۔
۱۰۔ پبلک اسکول میں تو دینی اقدار اور روحانیت کی بالکل تباہی ہے؛ لیکن یہاں ہوم اسکول والے بچوں کو چلتے پھرتے ہی دُم لگائے، سر پر کان لگائے، آدمی عورت کے کپڑوں میں ملبوس لوگ نظر آتے رہتے ہیں۔
۱۱۔ اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو آپ کو تبلیغی بھائی پکڑ لیں گے یا آپ کو مسجد کے قریب گھر مل جائے گا، ورنہ عام طور پر لوگ دینی لحاظ سے بالکل تنہا رہ جاتے ہیں۔
۱۲ ۔ لوگ مسجد جانا، نماز پڑھنا، عید ملن پارٹی کرنا، بہت سارے مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھے کرنے کو پورے دین کی تکمیل سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ وہ پاکستان میں یہ تک نہیں کرتے تھے ۔ لیکن جو پاکستان میں دین کا کام کر رہے تھے، ان کے دل کا خلاء یہاں پر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ لوازمات میسر نہیں۔
۱۳- صحبت صالح دور دور تک میسر نہیں ہوتی، اور اگر صحبت اٹھانا بھی چاہیں تو اکثر شیخ ہی کے پاس دینے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے شیخ کو خود ہی بازار سے اپنا سامان خرید نے جانا پڑتا ہے، اور بچوں کو اسکول سے اٹھانا چھوڑنا وغیرہ وغیرہ۔
۱۴۔ مادہ پرستی کا یہ عالم ہے کہ کسی شخص پر دین کا کام کرکے آپ اسے زیادہ سے زیادہ نماز پر لاسکتے ہیں، پھر جیسے ہی وہ یونیورسٹی سے فارغ ہوتا ہے تو مادہ پرستی کے اس جنگل میں گم ہو جاتا ہے۔
۱۵۔ جوں جوں وقت یہاں گزرتا جاتا ہے نیک صحبت، مدارس، اور ماحول کی کمی مزید محسوس نہیں ہوتی۔ جیسے دل پر تالہ لگتا جا رہا ہو۔
۱۶۔ عام طور پر یہ مشاہدہ رہا ہے کہ لوگ شروع میں مسجد کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں، پھر جیسے ہی نوکری لگتی ہے تو سود پر گھر لیکر مسجد سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔
۱۷۔ برائی برے ماحول میں بری نہیں لگتی۔ نیز جو جو کام دار الایمان میں چھپ کر کرنا پڑتے ہیں وہ یہاں کھلے عام اعلانیہ کیے جاتے ہیں۔
۱۸۔ بچے گھر پر قاری یا مسجد کے ماحول میں قرآن پڑھنے کی بجائے آنلائن قرآن سیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے تلفظ تجوید کی غلطیاں پوری زندگی ساتھ چلتی ہیں۔
۱۹۔ انسانی دماغ ایک پیچیدہ مشین ہے۔ جب بجلی پانی گیس کے مسئلے ختم ہوتے ہیں تو وہ اپنے لیے آئی فون خریدنا، پرسنل کشتی خریدنا، کیمپنگ کرنا، مہنگے کپڑے وغیرہ کو بھی essential need میں شامل کر لیتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو یہاں حضرات سے اکثر سننے کو ملے گا کہ پیسے نہیں بچتے اور پیسے درخت پر نہیں لگتے۔
۲۰۔ یہاں کتوں کی بھر مار ہے۔ یعنی ہر جگہ کتوں کے بال موجود ہوں گے۔ واشنگ مشین میں، اسٹور میں، فلیٹ کے hallway میں۔ اب یہ بال لیکر جو گھر میں داخل ہو گا تو اس کے نقصانات سے آپ واقف ہیں۔
ڈاکٹر عبد العلی بنگش، مقیم کینیڈا، ۲۳ جون ۲۰۲۲
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!
https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l