دینی مدارس پر مضمون و مشورہ
از قلم: مفتی اطہر شمسی مظاہری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دینی مدارس: جدید کاری یا قرآن کاری
حکومت اتر پردیش کے ذریعہ مدارس کے سروے کا فیصلہ میرے نزدیک اصولی طور پر غلط ہے۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں مذہبی اداروں کی خود مختاری متاثر ہوگی۔ تاہم حکومت کا یہ فیصلہ ہمارے لیے خود احتسابی کا ایک زریں موقع بھی ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ کیا واقعی ہم اپنے مدارس کے نصاب اور نظام کی شکل میں ملک کے سامنے ایک آئیڈیل نصاب اور نظام پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں جسے دیکھ کر ملک کا ہر شہری یا کم از کم ہر مسلمان اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرانے کے لیے مجبور ہو جائے؟ کیا ہم مدارس اسلامیہ کے ذریعہ اپنے طلبہ میں وہ شخصیت پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو ملک کے نوجوانوں کو صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ ترقی کے لیے لازمی دوسرے میدانوں میں بھی قیادت فراہم کرنے کی اہل ہو؟ بالآخر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم محض ایک مذہبی قائد ہی نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو صرف مذہبی معنوں میں ہی نہیں بلکہ خالص دنیاوی معنوں میں بھی دنیا کی غالب ترین قوم بنادیا تھا۔ کیا ملک میں موجود توہم پرستی کے خاتمہ میں مدارس اسلامیہ کامیاب رہے ہیں؟ کیا واقعی ہمارے مدارس جدید ہندوستانی فکر کو اسلامی رخ پر ڈھال چکے ہیں؟ کیا ہمارے مدارس ملک کے شہریوں کے اخلاق اور کردار کی اعلٰی تربیت کرنے میں کامیاب رہے؟ اگر ہم ایسا نہیں کر سکے تو کیا یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟
میرے نزدیک ان تمام سوالوں میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مدارس اسلامیہ اپنے طلبہ میں قرآنی شخصیت پیدا کر سکے ہیں؟ قرآنی شخصیت کا ایک فریضہ قرآن میں ’’فَکُّ رَقَبَة‘‘ (سورۃ البلد، آیت 13) اور ’’طَعَامُ مِسْکِیْن‘‘ (سورۃ الماعون، آیت 2) بتایا گیا ہے۔ یعنی مصیبتوں میں گھرے انسانوں کو ان کے مسائل سے نکالنا اور ان کی لازمی ضروریات پوری کرنا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے طلبہ میں ملک کے پسماندہ اور غریب طبقات کی مصیبت میں پھنسی گردنوں کو آزاد کرانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا مزاج موجود ہوتا ہے؟ کیا وہ اس مقصد کے لیے کوئی ملک گیر تحریک کھڑی کرسکے ہیں؟ قرآن ایسے لوگوں کو سخت ناپسند کرتا ہے جو اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے۔ قرآن ایسے لوگوں کو بہرا اور گونگا قرار دیتا ہے۔ (سورۃ الانفال، آیت 23) اس آیت کے پیش نظر ہمیں خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے مدارس واقعی ایسا پراڈکٹ تیار کر رہے ہیں جو وحی کی روشنی میں اپنی عقلوں کا استمال کرنا جانتے ہوں یا پھر ان کے فارغین اندھی تقلید اور مسلکی تعصبات کے مزاج کے حامل ہیں؟ قرآن میں بنی اسرائیل کی مذمت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ وہ حقائق پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ غور و فکر کے تمام دروازے بند کر کے سچائی کو رد کرنے پر تلے رہتے تھے۔ ( سورۃ البقرۃ، آیت 88) قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوا کہ قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو حقائق پر کھلے ذہن کے ساتھ خالص دلائل کی روشنی میں غور و فکر کرے اور انھیں بلا کسی تعصب اور تحفظ کے تسلیم کر لے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مدارس اسلامیہ کا نصاب اپنے طلبہ میں اس قدر پختگی پیدا کر پا رہا ہے کہ وہ دنیا میں ان کے سامنے آنے والے والے افکار، خیالات اور نظریات پر کھلے ذہن کے ساتھ غور و فکر کر سکیں اور دلائل کی میزان میں اُنھیں تول کر اپنے لیے صالح افکار کا انتخاب کر سکیں؟ قرآن اپنے قاری کے ذہن میں جگہ جگہ سوال اٹھاتا اور اسے سوچنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ کیا واقعی ہمارے مدارس اپنے طلبہ میں سوال اٹھانے اور سوالوں کا سامنا کرنے کا مزاج پیدا کر پا رہے ہیں؟ قرآن فرقہ بندی کو شرک قرار دیتا ہے۔ (الروم، آیت 32) اور جو لوگ فرقہ بندی کا شکار ہوں ان کے بارے میں اعلان کرتا ہے کہ ان کا رشتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ختم ہو چکا۔ (الانعام، آیت 159) سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مدارس کا نصابِ تعلیم فرقہ بندی کے خاتمہ میں اپنا کنٹری بیوشن دے رہا ہے۔ کیا ہمارے مدارس کے فارغین فرقہ بندی کے خاتمہ کے لیے پر عزم ہیں؟
اکثر کہا جاتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کو ماڈرنایز کرنے کی ضرورت ہے؛ لیکن میرے نزدیک مدارس کو ماڈرنایز کرنےکی نہیں بلکہ قرآنائز کرنےکی ضرورت ہے۔ مدارس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کا محور تعلیم مروجہ فقہ ہے نہ کہ قرآن۔ ہمارے مدارس میں حدیث کی تعلیم بھی کسی ایک خاص فقہ کے تابع ہو کر دی جاتی ہے۔ اصطلاحی فقہ اپنی موجودہ شکل میں ان مسائل کا نام ہے جو آج سے سینکڑوں برس قبل ہمارے نہایت درجہ لائق قدر علماء و ائمہ نے ادلۂ تفصیلیہ سے اخذ کرکے اپنی کتابوں میں جمع کیے تھے۔ میں ان تمام علماء اور ائمہ کی قیمتی کاوشوں کو نہایت درجہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں بلکہ اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ ان علماء کی فقہی کاوشوں کا ایک ادنٰی سا طالب علم میں خود بھی ہوں۔ لیکن فقہ کا جو تصور قرآن سے سامنے آتا ہے، وہ ہمارے مدارس میں رائج فقہ کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ مکمل قرآن میں لفظ فقہ بیسیوں بار استعمال ہوا ہے لیکن قرآن میں یہ لفظ ایک بار بھی جزئی مسئلے مسائل جاننے کے معنوں میں استمعال نہیں ہوا جو ہمارے مدارس کے نصاب کا سب سے بڑا جزو ہیں۔ قرآن میں لفظ فقہ اللہ کی آیات اور کائنات میں غور و فکر، حیات انسانی اور معاشرہ میں جاری و ساری اللہ کے ضابطوں اور قوانین پر تدبر، جہاد کی اہمیت کو سمجھنے، اسلام کی حمایت و نصرت کے لیے جان و مال کی قربانی اور امت مسلمہ کے مفادات کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سولہ آنے کا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مدارس اسلامیہ اپنے طلبہ میں قرآن میں مذکور فقہ کے مطلوب یہ تمام اوصاف پیدا کر پا رہے ہیں؟ یا دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو کیا ہمارے مدارس میں فقہ کے ان مضامین کی تعلیم دی جا رہی ہے جو قرآن میں مذکور ہیں؟ قرآن کریم کی متعلقہ آیات پر غور کرنے سے فقہ کا جو تصور سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دین کا طالب علم زمانہ کے واقعات و رجحانات پر غور و فکر کرکے اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان واقعات پر قرآن کے کون سے اُصولوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ کیا دین کی یہ فہم زمانہ کی گہری سمجھ کے بغیر حاصل ہونا ممکن ہے؟ کیا ہمارے انتہائی درجہ لائق قدر مدارس اسلامیہ کا نصاب اپنے طلبہ میں قرآن کی یہ سمجھ اور زمانہ کا یہ شعور منتقل کرنے میں کامیاب ہے؟
میں مدارس اسلامیہ کی عظیم خدمات کا دل کی گہرائی سے معترف ہوں۔میں خود مدارس کا ہی ایک پراڈکٹ ہوں اور آج تک مدارس سے مسلسل وابستہ بھی۔ میرے بچے ایک مدرسہ میں تعلیم پاتے ہیں۔ میں ہرگز مدارس پر اُنگلیاں اٹھانے کاشوقین نہیں۔ یہ محض مدارس کے ساتھ میرے نہایت درجہ گہرے تعلق کے نتیجہ میں اٹھنے والے کُچھ دردمندانہ سوال ہیں جو مجھے ان صفحات پر لکھنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ مدارس کا موجودہ نصاب مروجہ فقہی محور کے اردگرد گردش کرتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کے نصاب کا محور قرآن کو بنا دیا جائے۔ قرآن اور مروجہ فقہ کا ایک بڑا فرق یہ ہے کہ مروجہ فقہ اِنسانی اجتہادات و استنباطات کا ایک وقتی مجموعہ ہے جوکہ آج سے سیکنڑوں برس قبل کیے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ صدیوں قبل کیے گئے اجتہاد ابدی طور پر زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس کے برعکس قرآن ایک ابدی کتاب ہے جس کے اصول لازوال ہیں۔ اس میں پیش کیے گئے زندگی کے ضابطے کبھی فرسوده نہیں ہوتے۔ وہ بدلتے زمانہ کا ساتھ دینے کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر مدارس اسلامیہ کے نصاب کا محور اگر قرآن کے افکار، نظریات، مضامین اور اصول حیات قرار پا جائیں تو مدارس کے نصاب کی جدید کاری کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ قرآنی افکار اور مضامین ہر زمانہ میں جدید رہتے ہیں۔ اس لیے اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب کی قرآن کاری کر دی جائے۔ ان کی جدید کاری کا مطالبہ خود ہی دم توڑ دے گا۔ حکومت اترپردیش کے ذریعہ مدارس کے مجوزہ سروے کے اس موقع پر اگر ہم یہ جرأتمندانہ فیصلہ کرسکیں تو مدارس کی طرف اٹھنے والی معاندانہ نگاہیں خود بخود دم توڑ دیں گی اور اس کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ ملک کے سامنے ایک ایسا آئیڈیل نصاب تعلیم پیش کر سکیں جو ملک کے ہر شہری کی اپنی ضرورت بھی ہو اور ملک بھر کے تمام باشندگان کی اخلاقی و فکری تربیت کا فریضہ بھی انجام دے سکے جس کے فقدان میں ملک ہر طرح کے بحران کا شکار ہے۔
(مضمون نگار القرآن اکیڈمی، کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں)