(۹/مارچ ۲۰۱۷ ء کو دارالعلوم نور الاسلام جلپاپور نیپال کے ۶۷ سالہ عالمی جشن تعلیمی کے موقع پر یہ مقالہ پڑھا گیا)
دور حاضر میں مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت اور تجدید نصاب کی ضرورت
مقالہ نگار: شاہد حسین ندوی، ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں و مقالات
اس مقالہ کے سات ذیلی عناوین ہیں:
دینی تعلیم کا مفہوم
تعلیم کا لغوی معنی کسی کو کچھ بتانا، پڑھانا اور سکھانا ہے، اس کے مفہوم میں تدریس کے ساتھ ساتھ تدریب، تادیب اور تربیت بھی شامل ہے، بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ ’’انبیاء کی تعلیم سے جب اس (تعلیم و تعلم) کا استعمال ہوگا تو اس میں طبعاً خدا کی توحید، ذات و صفات، دین و شریعت کے احکام اور اخلاقی تعلیمات مراد ہوں گی۔‘‘
(سیرت النبی ﷺ ج ۴، ص ۱۶۶)
دینی تعلیم کے مقاصد
دینی تعلیم کے مقاصد کی جامعیت کو سمجھنے کے لیے اس کا اور عصری تعلیم کے مقاصد کا تقابلی جائزہ ضروری ہے۔ عصری تعلیم کے مقاصد کے تعین میں ماہرین تعلیم کے نظریات مختلف رہے ہیں۔ افلاطون نے تعلیم کا مقصد ’’اخلاق کی تربیت‘‘ بتا یا ہے۔ ارسطو کی نظر میں تعلیم کا مقصد ’’پر خلوص نیکی کے ذریعہ شادمانی کا حصول ہے‘‘ تعلیم کے مقصد سے متعلق روسو کا نعرہ تھا ’’نیچر کی طرف لوٹو‘‘، ہربرٹ اسپینسر نے کہا تھا کہ ’’تعلیم کا مقصد مکمل زندگی کے لیے تیاری ہے‘‘، کارل مارکس کا نظر یہ تھا کہ ’’تعلیم کا حصول اس لیے ہو تاکہ اقتصادی اور سیاسی نظام وجود میں آسکے‘‘، گاندھی جی کی نظر میں تعلیم کا اہم مقصد یہ تھا کہ ’’اس کے ذریعہ ایک غیر طبقاتی معاشرہ وجود میں آئے‘‘ رابندر ناتھ ٹیگور کے نزدیک تعلیم کا مقصد ’’بچہ کے ذہن کو قدرتی ماحول سے روشناس کرانا تھا‘‘ (اصول تعلیم ص ۵۴ تا ص ۸۸)
جبکہ اسلامی نقطۂ نظر سے خالص رضائے الٰہی کی طلب، مقصد تخلیق کے منشاء کو پورا کرنا، خود اچھے اخلاق سے آراستہ ہونا اور دوسروں کو آراستہ کرنا، علم کی روشنی سے جہل کی تاریکی کو دور کرنا، نہ جاننے والوں کو سکھانا، بھٹکے کو راہ دکھانا، حق کو پھیلانا اور باطل کو مٹانا دینی تعلیم و تعلم کا مقصد ہے۔
علماء دین کی فضیلت کے شرائط
قاضی ابن جامعہؒ نے تذکرة السامع میں لکھا ہے کہ ’’اسلام میں علم اور اہل علم کا یہ مقام و مرتبہ اس وقت ہے جب تین شرطیں ملحوظ ہوں:
۱۔ علم اور علماء کی یہ فضیلتیں صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو علم کے ساتھ عمل کے زیور سے بھی آراستہ ہوں، اور ان کے علم حاصل کرنے کا حقیقی مقصد اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنا ہو۔
۲۔ علم کی طلب میں دنیا کے اغراض، جاہ، منزلت، دولت، ثروت، ناموری اور پیشوا بننے کی ہوس شامل نہ ہو۔
۳۔ علم کی تحصیل کسی بری نیت سے نہ ہو۔
دینی تعلیم کی اہمیت
اسلام میں دینی تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، بغیر دینی تعلیم کے اسلام کا کوئی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے نزول کی سب سے پہلی آیت ’’اقرأ باسم ربک الذي خلق‘‘ میں پڑھنے ہی کی تاکید کی گئی ہے، دوسرے احکامات بعد میں آئے ہیں۔ سورۂ مجادله میں ارشاد خداوندی ہے: ’’يرفع الله الذین اٰمنوا منكم و الذين أوتوا العلم درجات‘‘ تم میں سے جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا ہے، اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے گا۔ (سورهٔ مجادله: آیت ۲۶)
حدیث کی متعدد کتابوں میں ہے: ’’طلب العلم فريضة علٰى كل مسلم‘‘ اور بروایت ’’علٰی کلِّ مسلمة‘‘ یعنی علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ دینی تعلیم کی افادیت کو اس طرح سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک طرف اللہ نے خوف خدا کی بنیاد اس کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’إنَّما يخشى اللهَ من عباده العلماءُ‘‘ تو دوسری طرف رسول اللہ ﷺ نے دینی تعلیم کا راستہ اختیار کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری ان الفاظ میں دی ہے: ’’من سلك مسلكاً في طلب العلم، سهل الله له طريقاً في الجنة‘‘ اسی علم کی بدولت سب سے پہلے نبی حضرت آدمؑ کو سجدہ کے قابل بنایا گیا اور سب سے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کا مقصد تعلیم دینا بتا یا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’إنما بُعِثْتُ معلماً‘‘ بیشک میں ایک معلم کی حیثیت سے بھیجا گیا ہوں۔
حضرت معاذ بن جبلؓ تحصیل علم دین کی تلقین ان الفاظ میں فرماتے تھے: ’’علم سکھاؤ اس لیے کہ علم کا سکھانا نیکی ہے، اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اس کا مذاکرہ تسبیح ہے، اس پر بحث کرنا جہاد ہے، اور اس پر خرچ کرنا تقرب الٰہی کا ذریعہ اور نہ جاننے والوں کو بتانا صدقۂ جاریہ ہے۔‘‘ (ابوداود: ج ۲ ص ۷۷)
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنے دور حکومت میں صوبہ کے والیوں اور شہروں کے عاملوں کے نام فرمان جاری کیا تھا کہ ’’اہل علم کو حکم دو کہ وہ اپنی مسجدوں میں علم کی اشاعت کریں، کیوں کہ حدیثیں فنا ہورہی ہیں۔‘‘ حضرت مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھیؒ نے اپنی ایک نظم میں اسی پیغام کو اس طرح عام کیا ہے کہ:
پڑھ کر حدیث پاک جہاں کو سنائیے
یعنی رسول پاک کی محفل سجائیے
جام طہور پیجیے اور سب کو پلائیے
پیارے نبی کے دین پر سب کو چلائیے
گمراہ ہورہے ہیں جو تاریک رات میں
مشعل جلاکر راہ ہدایت دکھائیے
دینی تعلیم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ان اقوال سے بھی لگایا جا سکتا ہے:
بقول حضرت ابوبکر صدیقؓ ’’علم پیغمبروں کی میراث ہے‘‘، بقول حضرت عمر فاروقؓ ’’طالب دنیا کو علم سکھانا ڈاکؤوں کے ہاتھ تلوار بیچنا ہے‘‘، بقول حضرت عثمان غنیؓ ’’برباد ہے وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے‘‘، بقول حضرت علی مرتضیؓ ’’شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال و نسب سے‘‘، بقول حضرت معاذؓ ’’علم کا سیکھنا نیکی اور اس کو سکھانا عبادت ہے‘‘، بقول حضرت امام محمدؒ ’’ہمارا علمی مشغلہ بچپن سے موت تک ہونا چاہیے‘‘، بقول حضرت امام شافعیؒ ’’علم کا حاصل کرنا نفل پڑھنے سے بہتر ہے‘‘، بقول حضرت امام غزالیؒ ’’بھلائی کی تعلیم میں والدین، اساتذہ اور مربی سب کو اجر ہے‘‘، بقول حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ’’حکم بدلتا ہے علم نہیں، حکم منسوخ ہوتا ہے علم نہیں‘‘، بقول حضرت امام زہریؒ ’’علم کا قیام ہے تو دین و دنیا قائم ہے‘‘، بقول حضرت عطاؒ ’’علم کی ایک مجلس گناہوں کی ستر مجلسوں کا کفارہ بنتی ہے‘‘، بقول حضرت زرنوجیؒ ’’علم ہی کی بدولت حضرت آدم کو فرشتوں پر فضیات ملی‘‘، بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ ’’تعلیم کا اہم مقصد معاشرہ میں اسلامی رسموں کا رواج دینا ہے‘‘، بقول حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ’’امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا‘‘ بقول حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ ’’مقصد تعلیم معاشی مسائل حل کرنا نہیں، انسان کی تعمیر نو اصل ہے‘‘۔ (فن تعلیم و تربیت: ص ۴۴۲ تا ۴۴۴)
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے دینی تعلیم کی اہمیت کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے ’’اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں (مدرسوں) کے اثر سے محروم ہوگئے تو اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود چند شہروں اور کھنڈروں کے علاوہ اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔‘‘ (اوراق گم شده: ص ۳۷۴)
بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اس (مدرسہ) کا ایک سرا نبوت محمدی سے ملا ہوا ہے، دوسرا سرا زندگی سے، وہ نبوت محمدی کے چشم حیواں سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے ان کشت زاروں میں ڈالتا ہے، وہ اپنا کام چھوڑ دے تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے۔ (پاجا سراغ زندگی: ص ۹۱-۹۰)
عصر حاضر کے تناظر میں دینی مدارس کی معنویت
آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں انسان ترقی کے منازل طے کرتے کرتے چاند پر پہنچ گیا ہے، ستاروں کی گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے وہ ثریا تک جا پہنچا ہے، طرح طرح کی ایجادات اور نت نئے انکشافات ہورہے ہیں؛ لیکن ساتھ ہی اس مشینی اور سائنٹفک دور نے انسان کو اپنے مقصد حیات سے ہٹادیا ہے، تہذیب و تمدن کی دلفریبیوں میں مگن ہوکر وہ خالق حقیقی کو بھلا بیٹھا ہے، مادیت کے طوفان نے اس سے فکر آخرت کا تصور ہی ختم کردیا ہے، وہ خود ترقی یافتہ کہلانے کی کوشش میں الٰہی نظام اور نبوی سسٹم سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
اس دور میں ہر شخص ہے سرگشتہ و حیران
تشکیک کی زد میں ہے مسلمان کا ایمان
اسلام میں الحاد کے پیوند کی ترغیب
تعمیر کے پردے میں ہے تخریب کا سامان
ایسے تاریک دور میں اہل مدارس اسلام کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔
ہوا ہے گوتند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
مختصر یہ کہ عقائد کی درستی، عبادات سے وابستگی، معاملات کی بہتری اور اخلاق کی بلندی کے لیے مدارس دین کے قلعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مدارس کے نصاب تعلیم میں نظر ثانی کی ضرورت
مدارس کی افادیت کو عام کرنے کے لیے وقت کا نباض بن کر اور ہواؤں کے رخ کو پہچان کر اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ اس تعلق سے ہماری ایک اہم ذمہ داری حالات کے تقاضوں کے پیش نظر نصاب تعلیم کی اصلاح کرنا ہے۔ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے نصاب تعلیم میں تبدیلی جہاں تحریک ندوۃ العلماء کی نمایاں پہچان رہی ہے وہیں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بھی اسی طرح کی تاریخ رہی ہے۔ دارالعلوم دیو بند میں ۱۲۸۳ھ میں پہلا نصاب تعلیم جاری ہوا اور ۱۲۸۳ھ سے ۱۳۰۲ھ کے درمیان ۱۹/ سال کے مختصر عرصہ میں دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں تین مرتبہ تبدیلی ہوئی۔ ۱۳۰۲ھ سے ۱۳۱۹ء کے درمیان وقفہ وقفہ سے نصاب تعلیم میں تبدیلی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد پھر نئے سرے سے نصاب کا جائزہ لے کر اس میں غیر معمولی ترمیم ہوئی اور سائنس، معاشیات، تاریخ اور جغرافیہ وغیرہ دارالعلوم دیو بند کے نصاب کا حصہ بنا۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے دار العلوم ندوۃ العلماء کے سابق استاد حضرت مولانا ابوالعرفان ندویؒ فرماتے تھے کہ زمانے کے تقاضوں کی رعایت کرکے نصاب کا تصور ڈاکٹر کے اس نسخہ جیسا ہے جس میں ڈاکٹر مریض کے مرض، اس کے مزاج اور موسم کی رعایت کرکے دواؤں میں تبدیلی کرتا رہتا ہے، کبھی وہ دوا کے نسخہ سے کسی دوا کو بالکل کاٹ دیتا ہے اور کبھی نسخہ میں دوسری دوا لکھ دیتا ہے اور کبھی کسی دوا کی مقدار گھٹا اور بڑھا دیتا ہے۔ اگر کوئی ناسمجھ مریض اصرار کرے کہ فلاں ماہر ڈاکٹر نے فلاں وقت میری بیماری دور کرنے کیلئے فلاں دوا لکھی تھی اب ہم کسی صورت میں اس نسخہ میں تبدیلی برداشت نہیں کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس پرانی دوا سے یا تو مرض بڑھے گا یا علاج بے مقصد ہوکر رہ جائے گا۔ ٹھیک اسی طرح حالات اور تقاضے کے لحاظ سے تعلیم کے نصاب میں تبدیلی ہے، جس کو قبول کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عصر حاضر کے تقاضے سے چشم پوشی کرکے اس کو نہ ماننا غیر مناسب بات ہے۔
تبدیلی نصاب کے تعلق سے مفکر اسلامؒ کا موقف تھا کہ ’’جو نصاب تعلیم ہندوستان میں برابر بدلتا رہا اور تغیر و ترقی کے مدارج طے کرتا رہا اس کا ایسے عہد میں جو سب سے زیادہ پر از انقلابات ہے نہ بدلنا ایک غیر معقول اور غیر طبعی فعل ہے، علمی تاریخ کا یہ عجیب واقعہ ہے کہ اس نصاب کی زندگی میں وقوف و جمود کا سب سے طویل عہد وہ ہے جو سب سے زیادہ تغیر و انقلابات کا طالب ہے۔‘‘
تبدیلی نصاب کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو پتہ چلے گا کہ ۱۹۴۲ء میں جمعیت علماء ہند کے اجلاس لاہور میں یہ تجویز منظور ہوئی تھی کہ یہ اجلاس مدارس عربیہ دینیہ کے مروجہ نصاب میں دور حاضر کی ضرورتوں کے موافق اصلاح و تبدیلی کی ضرورت شدت سے محسوس کرتا ہے اور مدارس عربیہ کے ذمہ دار حضرات اور تعلیمی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ہا بمی مشورے اور تعاون سے ماہرین تعلیم کی ایک کمیٹی اس پر غور کرنے کے لیے مقرر کریں اور ایک ایسا نصاب مرتب کرائیں جو دینی علوم کی تکمیل کے ساتھ ضروریات عصریہ میں بھی مہارت پیدا کرنے کا کفیل ہو۔‘‘
شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ نے رہنمائی فرمائی تھی کہ ’’ہم کسی طرح اس امر کو قابل عمل قرار نہیں دے سکتے کہ پرانی کتابیں صرف اس وجہ سے ہی ضروری ہیں کہ اسلاف کی تصنیف کردہ یا اسلاف کی زیر تدریس رہی ہیں اور جدید تصنیف کردہ کتب اس وجہ سے قابل ترک قرار دی جائیں کہ وہ زمانہ حال یا قریب کی تصنیف کی ہوئی ہیں یا اسلاف نے ان سے نفع نہیں اٹھایا۔‘‘
حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ نے اصولی طور پر کہا تھا کہ مجھے اس اصول سے انکار نہیں اور نہ کسی کو ہوسکتا ہے کہ جن تعلیمات کا وحی الہی سے تعلق ہے اس کی تبدیلی پر نہ ہم قادر ہیں، نہ ہمیں حق ہے۔ باقی جو فنون یا کتابیں قرآن کے خادم کی حیثیت سے زیر تعلیم آتی ہیں وہ زمانہ اور احوال کے لحاظ سے بدل سکتی ہیں۔‘‘
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کا کہنا تھا کہ ’’مختلف مسلم ممالک میں اس طرح کی تجویزیں کی جارہی ہیں کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں بنیادی تغیرات کیے جائیں اور ایک ایسے جدید طرز پر اسلامی تعلیم کے ادارے قائم کیے جائیں جو مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نصب العین کے مطابق دنیا کی رہنمائی کے لیے تیار کر سکیں۔‘‘
مفکر اسلامؒ کے حقیقی جانشین، میر کارواں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفظہ اللہ نے اس عنوان سے حضرت مولانا کی ترجمانی اس طرح کی کہ ’’نصاب تعلیم صرف چند متعین کتابوں کا نام نہیں ہے اور نہ صرف چند ایسے متعین مضامین کا جن کو بڑوں اور اسلاف نے طے کر دیا تھا اور ان میں اب کمی اور اضافہ کی ضرورت نہیں رہی، نصاب تعلیم در اصل ملت کے حالات اور ضرورتوں کے لیے ایک تدبیر و انتظام ہے جس میں حالات اور ضرورتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ (دینی مدارس کا نصاب تعلیم خوب سے خوب تر کی تلاش: ص ۲ تا ۲۲۰)
طلبہ مدارس کے موجودہ حالات ایک لمحہ فکریہ
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مدرسۂ نبوی سے انتساب رکھنے والے طلبۂ مدارس اور وارثین انبیاء نے ماضی میں اسلام کے چراغ کو فروزاں رکھا، اور اپنے اندر حق کی آواز بلند کرنے اور باطل سے پنجہ آزمائی کی ہمت پیدا کی، جن کی راتیں شب بیداری، اور دن شہسواری میں گزرتے تھے۔ علم و عمل اور جہد مسلسل جن کا شعار تھا، لیکن موجودہ دور میں طلبۂ مدارس روباہی، احساس کمتری، پژمردگی، مایوسی، منفی نفسیاتی کشمکش، بیرونی مضر اثرات، نفس امارہ کے وساوس اور اخلاقی گراوٹ کے شکار ہیں۔ موبائل، انٹرنیٹ، واٹس ایپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ضیاع وقت اور کیریر کو خراب کردینے کے مترادف ہے۔
بقول مولانا محمد الحسنیؒ ’’مدارس عربیہ ملت کے لیے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن یہ ایسا قلعہ ہے، جس کے اندر رہنے والے اپنے خول سے باہر نکلنے کے لیے بیتاب ہیں اور باہر والے اس کو توڑ دینے کے درپے ہیں۔‘‘
موجودہ دور میں احساس کمتری کا شکار ہوکر طلبۂ مدارس عصری اداروں کا رخ کرنے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں، جہاں وہ اپنا چولہ بدل کر مغرب زدہ ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں، ان عصری اداروں کے بارے میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم امام الہند محی الدین احمد مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ترجمان القرآن کے پیش لفظ میں تحصیل علم کے مقصد اعلٰی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے خصائل و اعمال کو پہنچائے ہیں ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد اعلٰی ہماری نظروں سے محجوب ہو گیا، علم خدا کی ایک پاک امانت ہے، اس کو صرف اس لیے ڈھونڈنا چاہیے کہ وہ علم ہے؛ لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کو ایک دوسری راہ بتائی ہے، وہ علم کا اس لیے شوق دلاتی ہیں کہ بلا اس کے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی، پس اب ہندوستان میں علم کو علم کے لیے نہیں بلکہ معیشت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں جو انگریزی تعلیم کی نو آبادیاں ہیں، کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں؟ مشتاقان علم اور شیفتگان حقیقت سے نہیں، ایک مٹھی گیہوں ایک پیالہ چاول کے پرستاروں سے جن کو یقین دلا یا گیا ہے کہ بلا حصول تعلیم کے وہ اپنی غذا حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘ (مولانا ابوالکلام آزادؒ حیات و خدمات: ص ۱۲)
استاد محترم حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی حفظہ اللہ نے عصر حاضر کے طلبہ مدارس کی صورت حال کا تجزیہ ان الفاظ میں کیا ہے:
۱۔ مدارس میں عملی انحطاط روز افزوں ہے، علمی تحقیق و جستجو اور فن میں کمال پیدا کرنے کا بیقرار جذبہ سرد پڑ چکا ہے، عام طور پر مطالعہ سطحی چیزوں کا ہوتا ہے۔ ٹھوس اور علمی مضامین سے گریز ایک عادت سی بنتی جارہی ہے، اخبار بینی، پرچے رسالے، یا گھٹیا ادبی کتابوں کا رواج بھی اچھا خاصا ہے۔
۲۔ طلبہ مدارس میں عام طور پر ڈسیپلن اور نظام کی کمی، صفائی ستھرائی کا فقدان اور طرز بود و مان میں یکسانیت کا فقدان ہوتا ہے۔
۳۔ مدارس میں طلبہ عام طور پر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں، ان کی ہمتیں پست ہوتی ہیں، ان کو اپنا میدان بہت محدود نظر آتا ہے، وہ لوگوں کی نگاہوں کو اپنے بارے میں حقارت آمیز محسوس کرتے ہیں، اور یہ احساس کمتری ان کو معاشرے کی ناہمواریوں کی تقلید پر مجبور کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی شخصیت میں بھی تحلیل نہیں ہو پاتے، نتیجتاً وہ ایک نفسیاتی کشمکش کا شکار ہوکر رفتار و گفتار، لباس اور وضع قطع میں احساس کمتری کا ایک کھلا نمونہ بن جاتے ہیں۔
۴۔ وہ پختگی کے ساتھ دنیا اور اس کی تحریکات سے واقف ہونا نہیں چاہتے، سطحی مطالعہ کی وجہ سے جلدی تأثر لیتے ہیں (متأثر ہوتے ہیں مؤثر نہیں) اپنے بڑوں سے بدگمانی میں تیزی کرتے ہیں اور اپنا وقت جزئیاتی اور غیر اہم بحثوں میں زیادہ گزارتے ہیں۔
۵۔ وہ عام طور پر اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید نہیں ہوتے، ان کے سامنے آئندہ کام کا کوئی خاکہ نہیں ہوتا، وہ اپنا کوئی واضح اور متعین مقصد طے نہیں کر پاتے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھا پاتے اور اپنے لیے خود اپنے کو مفید نہیں بنا پاتے اور پست ہمتی میں چند کلیوں پر قناعت کر بیٹھتے ہیں۔
۶۔ مدارس سے فراغت کے بعد فکر معاش اکثر و بیشتر ان کو علم سے دور کر دیتی ہے، اور کئی سالہ محنت پر پانی پھیر دیتی ہے یا علم سے مشغولیت محض ایک ذریعہ معاش کی حیثیت سے ہوتی ہے جو دینی اور اخلاقی بنیادوں کو کمزور کر دیتی ہے۔
یہ سب حقائق ہیں جن کا مشاہدہ ہر شخص کو ہوسکتا ہے، یقیناً ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام مدارس اور مدارس کے تمام طلبہ اسی حال میں ہیں۔ ہاں اکثر و بیشتر ایسا ہی ہورہا ہے، جو توجہ طلب ہے لیکن ان سب کے باوجود مدارس ہی تنہا انسانیت و شرافت، علم و ہنر اور دین و امانت کے قلعہ ہیں اور انہی سے نکلنے والے طلبہ حالات کا رخ موڑتے ہیں، اور کار تجدید انجام دیتے ہیں۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند و جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ ’’علم قلب کی عبادت اور باطن کی نماز ہے اور باطن کا قرب الی اللہ ہے، جس طرح نماز جو ظاہری اعضاء کا عمل ہے، اعضاء کو گندگی اور ناپاکی سے پاک کیے بغیر نہیں ہوتی، اسی طرح باطن کی عبادت اور قلب کی تعمیر علم کے ذریعہ گندے اور صاف اور برے اخلاق سے پاکی حاصل کیے بغیر نہیں ہوتی۔‘‘ (احیاء علوم الدین: ج ۱ ص ۴۸)
تجاویز اور پیش قدمی
دور حاضر میں مدارس اسلامیہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ:
ا۔ قدیم صالح اور جدید نافع کے تصور سے عصر حاضر کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے نصاب تعلیم میں مناسب تبدیلی کی جائے۔
۲- نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ تین حصوں میں نصاب تعلیم کو تقسیم کرکے اس کو ہر حال میں اپنے وقت میں پورا کیا جائے اور مقدار خواندگی والی فائل (Report Constant Quantity File) میں پڑھائے گئے نصاب کو درج کیا جائے۔
۳۔ طلبہ و طالبات میں مسابقاتی ذوق پیدا کرنے کے لیے ترغیبی ذرائع کو اپنایا جائے اور ہر امتحان میں ترغیب و ترہیب کو ملحوظ رکھا جائے اور بلا وجہ تسامح اور رعایت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔
۴۔ تعلیمی سال کے شروع میں اور ششماہی کے بعد تدریب المعلمین کا ہفتہ منعقد کیا جائے اور دینی و عصری ماہرین کے ذریعہ نظام تعلیم اور طریقۂ تدریس کے تعلق سے ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے۔
۵۔ فن کلام میں دہریت، اشتراکیت، بہائیت، اور قادیانیت وغیرہ سے متعلق کتابوں کو داخل نصاب کرکے ان کے باطل نظریات سے متعلمین کو واقف کرایا جائے۔
۶۔ مذہب اسلام میں صفائی کو آدھا ایمان بتایا گیا ہے، الطہور شطر الایمان کے پیش نظر صفائی اور ستھرائی کا ہر زاویہ سے خوب اہتمام کیا جائے۔
۷۔ مدارس کے بجٹ کی ایک مقدار کو قیام مکاتب کے لیے مختص کیا جائے تاکہ ہر مسجد نئی نسل کے ایمان و اعمال کی حفاظت کا گہوارہ بن سکے۔
۸۔ مدارس کے مدرسین کو مخصوص موقع کی مناسبت سے عناوین دے کر قرب و جوار کی مساجد میں خطاب جمعہ کے لیے بھیجا جائے۔
و ما توفیقی إلا باللّٰه
مفید لنکس: