نظام تعلیم و تربیت پر مضمون، قدیم و جدید کے بجائے ضروریات کو بنیاد بنانا چاہیے

نظام تعلیم و تربیت پر مضمون

از قلم: محمد عادل خان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نظام تعلیم و تربیت کی بحث میں قدیم و جدید کے بجائے ’’ضروریات‘‘ کو بنیاد بنانا چاہیے!

تحریک ندوہ ہو یا کوئی دوسری تحریک، جب جب اصلاح نصاب و نظام تعلیم کی بات اٹھائی گئی ہے، تب تب یہ بحث ماضی و حال، قدیم و جدید اور مدارس و اسکول کے ارد گرد گھومتی رہی ہے، حالانکہ نظام تعلیم کا مسئلہ قدیم و جدید اور اسکول و مدارس کے تنازع کا مسئلہ ہے ہی نہیں، اور اسے اس زاویہ نگاہ سے دیکھا ہی نہیں جانا چاہیے، ماضی میں قوم کی کیا ضرورتیں تھیں، یا قدیم نظام تعلیم کیسا تھا؟ یہ مسئلہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے، اور اس کو بنیاد بناکر ہم جدید دور کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے، اور ان مسائل و ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری نہ تو صرف مدارس کی ہے اور نہ ہی اسکول و کالج کی، بلکہ یہ امت کا اجتماعی مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے اجتماعی و مشترکہ جدوجہد اور قربانی کی ضرورت ہے۔

نظام تعلیم کی بنیاد جن چیزوں پر رکھی جانی چاہیے وہ یہ ہیں:

(الف) قومی اعتبار سے ہماری ضرورتیں کیا ہیں؟ مثلاً:

(۱) بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت پوری قوم کو ہے یا صرف ایک مخصوص طبقے کو؟

(۲) قوم کو کتنے اور کس سطح کے علماء کی ضرورت ہے؟ مسجد کی امامت کے لیے کتنی صلاحیت کے علماء کی ضرورت ہے؟ مدرسے میں استاد بننے کے لیے کتنی صلاحیت کے حامل علماء کی ضرورت ہے؟ قوم کی سیاسی و سماجی رہبری کے لیے کس فکر و صلاحیت کے علماء کی ضرورت ہے؟ الحاد اور باطل فلسفوں کے رد کے لیے کتنی صلاحیت کے علماء کی ضرورت ہے؟ وغیرہ

(۳) کیسے اور کس کس طبی شعبے میں کتنے دیندار ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، جو قوم کے طبی اور علاج و معالجے کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں؟

(۴) قوم کو کتنے اور کن کن شعبوں کے لئے انجینئروں کی ضرورت ہے، جو قومی سطح پر اس شعبے کی ضروریات کو پوری کرسکیں؟

(۵) قوم کو کتنے دیندار وکیلوں کی ضرورت ہے، جو قومی سطح پر ہماری تمام ضرورتیں پوری کرسکیں؟

اسی طرح ہر شعبے میں قوم کو کیا کیا ضروریات ہیں اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے کتنے ماہرین فن کی ضرورت ہے؟ وغیرہ

جب ہم اپنی ضروریات کو بنیاد بناکر ان کی تکمیل کے لئے منصوبہ بندی کریں گے تو ہمارا نصاب بالکل الگ اور نئی قسم کا تیار ہوگا، جس میں ہمیں یہ خیال رکھنا پڑے گا کہ ابتدائی مرحلے میں وہ تمام مضامین شامل کئے جائیں جو دینی تعلیم فراہم کرنے ساتھ ساتھ ان علوم کی جانب بھی راستے کھولنے والے ہوں، پھر ابتدائی کے بعد کے مرحلے میں جب علوم میں تخصص کا وقت آئے تو اس میں صلاحیت پیدا کرنے کے لئے ہمیں الگ قسم کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

(ب) ضرویات کے مطابق نصاب کی تیاری کے بعد غور و فکر کا دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لئے ہم کیا کیا اور کون کون سے جائز ذرائع استعمال کرسکتے ہیں؟ مثلاً:

(۱) اس نصاب کو کہاں نافذ کیا جاسکتا ہے؟

(۲) ہمارے پاس اس کے لئے کیا ذرائع ہیں؟ کتنے اسکول ہیں، کتنے کالج ہیں، کتنی یونیورسٹیاں ہیں، کتنے مدارس ہیں، اور کتنے دارالعلوم ہیں؟ وغیرہ۔

(۳) کیا ہم اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس نئے نصاب کو نافذ کرسکتے ہیں؟

(۴) کیا مدارس و دارالعلوم اس کے لئے تیار ہوں گے؟ یا نئے انفراسٹرکچر کی ضرورت پڑے گی؟

(۵) کیا حکومت اس نئے نظام کے لئے فنڈ فراہم کرے گی؟ یا قومی سطح پر ہمیں ہی فنڈ کا انتظام کرنا ہوگا؟

(۶) طلبہ و طالبات کا تعلیمی نظام متحد ہوگا یا الگ الگ؟ کن کن میدانوں میں عورتوں کی ضرورت ہے؟ اور ان ضروریات کی تکمیل کے لئے ان کا نظام کیسا بنے گا؟

(۷) اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ہمارا نصاب تعلیم، اور اس کے لئے بنایا گیا نیا نظام تعلیم اور اس کی ڈگری حکومت کی نظر میں قابل قبول ہوں گی؟ کیا ہم اپنی ضروریات کی تکمیل ان ڈگریوں سے کرسکیں گے؟ وغیرہ

محمد عادل خان

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے