Maulalna Abul Kalam Azad | مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ان کی سیاسی خدمات

مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ان کی سیاسی خدمات

ہندوستان کی عظیم ترین شخصیتوں میں سے ایک، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور ان کی سیاسی خدمات

مولانا ابوالکلام آزاد گیارہ نومبر 1888ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تاریخی نام فیروز بخت، اصل نام محی الدین احمد، کنیت ابوالکلام اور تلخص آزاد تھا۔

انہوں نے تعلیم بھی روایتی اور مذہبی پائی تھی۔ درس نظامی کے اختتام پر تھے کہ خداداد صلاحیت اور ذہانت کے جوہر کھلنے لگے۔ ان کی مسحور کن خطابت، بے مثال انشاء پردازی، اس کے ساتھ ہی دانشوری اور سیاسی بصیرت کو اب مسلمات کا درجہ حاصل ہے۔ مولانا کی قوت حافظہ، وسعت مطالعہ اور جامعیت بھی عجیب و غریب تھی۔ وہ اکثر علوم و فنون سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان علوم کی جزئیات بھی ان کے ذہن میں مستحضر رہتی تھیں۔ اردو، فارسی، عربی تینوں زبانوں پر انہیں کامل عبور حاصل تھا۔ انگریزی کتابوں کے مطالعہ میں بھی انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ مولانا کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب مولانا کی ملاقات 1904ء کے آخر یا 1905ء کے شروع میں علامہ شبلی سے ممبئی میں ہوئی، اس وقت مولانا کی عمر صرف 15 یا 16 سال کی تھی۔ اس ملاقات کے درمیان مولانا نے فن مناظرہ سے متعلق ایک صاحب کی کج بحثی کا جواب دیتے ہوئے جب ایک مدلل تقریر کی تو اسے سن کر علامہ نے فرمایا تمہارا ذہن عجائب روزگار میں سے ہے۔ تمہیں تو علمی نمائش گاہ میں بطور ایک عجوبہ کے پیش کرنا چاہیے۔

یاد رہے کہ مولانا کی علامہ سے ملاقات کا سبب مولانا کا اشتیاق مطالعہ اور کثرت مطالعہ بنا۔

مولانا آزاد علمی میدان میں جتنے لائق و فائق اور گہرائی و گیرائی رکھتے تھے، سیاسی میدان میں بھی مولانا کی دور اندیشی تاریخ کے سنہرے الفاظ میں لکھی گئی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد محض ایک سیاستداں ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک دانشور سیاستداں تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مذہب اور سیاست کو شیر و شکر کردیا تھا۔ وہ بیک وقت پورے پورے مسلمان بھی رہے اور ایک منجھے ہوئے سیاستداں بھی۔ مولانا کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے انگریز مجسٹریٹ کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے جو بیان دیا ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں دے سکتا تھا۔ مولانا کے الفاظ ہیں: مجھ پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ کیا بغاوت اس آزادی کی جد و جہد کو کہتے ہیں جو ابھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اگر ایساہے تو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں باغی ہوں۔ لیکن اس کے باوجود تقسیم ہند کے موقع پر ہندوستان کی آزادی کا جشن مسلمانوں کے خون سے جس طرح منایا گیا، جس کی بناء پر مسلمان پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور پھر مسلمانوں کو مولانا کی ہجرت سے باز آنے پر آمادہ کرنا اپنے آپ میں مولانا کی حب الوطنی کی مثال پیش کرتی ہے۔ اور ان سب باتوں سے اہم یہ کہ تحریک آزادی میں مولانا کے کردار نے انگریزوں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔

آزادی ہند کے بعد مولانا 11 برس تک ہندوستان کے وزیر تعلیم کے اعلٰی عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے مولانا نے ہندوستان کی عوام کو متحد کرنے کے لئے 1912ء میں ہفت روزہ اخبار ’’الہلال’’ نکالی اور مولانا اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ حکومت کو مجبور ہوکر مولانا کو نظر بند کرنا پڑا اور الہلال شائع ہونا بند ہوگئی۔ اور جیل سے آزاد ہونے کے بعد پھر اسی مقصد سے ’’البلاغ‘‘ نکالی۔ لیکن حکومت نے اسے بھی بند کروادیا۔ اور کئی شعبوں میں داخل ہونے پر پابندی لگادی۔ تب مولانا ہندوستان کی آزادی کے لئے مہاتما گاندھی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ اور ان کا ساتھ دیا۔ اور ان کی طرفداری کی۔ اسی دوران 1940ء میں جب برطانیہ نے کانگریسی تجویز کو مسترد کردیا تب لاہور اجلاس میں مسلم لیگ نے علٰیحدہ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی جب کہ مولا نے ان کی پرزور مذمت کی۔

اسی سال رام گڑھ اجلاس میں مولانا آزاد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے مضطرب ہوکر محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کی سخت مخالفت کی۔ مذہبی تفریق کو مضر قرار دیا اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ متحد ہوکر ہندوستان کا وقار برقرار رکھیں۔ حالانکہ مسلم لیگ کے سیاستدانوں نے مولانا پر اس بات کا الزام لگا یا تھا کہ مولانا نے ہندو اکثریت و اقتدار والے ملک میں ثقافتی و سیاسی طور پر مسلمانوں کو ان کے تحت رہنے کے لئے مجبور کیا، تاہم مولانا آزاد نے تادم حیات ہندو مسلم یکجہتی جاری رہنے کے عقیدہ کو قائم رکھا۔

وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ میں ناقابل تقسیم اکائی کا حصہ ہوں اور وہ ہے ہندوسانی شہریت۔

اس کی شاندار عمارت سے میں وابستہ ہوں اور میرے بغیر یہ ڈھانچہ نامکمل ہے۔ میں ایک لازمی حصہ ہوں جو ہندوسان کی تعمیر کیلئے نکلا ہے اور میں اس دعوے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔

مولانا آزاد ہمارے ملک کی جنگ آزادی کے اہم ترین ستون ہیں۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ مولانا آزاد تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں بھی قومی یکجہتی کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ حالانکہ وہ اگر چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ کانگریس پارٹی میں شامل ہوجائے۔ جیساکہ آج فرقہ پرست پارٹی کے فرقہ پرست لیڈر بھی انتہائی بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ مسلمانوں کو طرح طرح کے حربے آزماکر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور انہیں فرقہ پرستوں کو ووٹ دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن مولانا آزاد نے مسلمانوں کو آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی، کیوں کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ بظاہر سیکولر ہونے کا ناٹک کرنے والی کچھ پارٹی بھی فرقہ پرستوں سے خالی نہیں رہ گئی ہے اور ان کا قومی یکجہتی کا آئینہ گرد آلود ہورہا ہے۔ قومی یکجہتی کا نظریہ مولانا آزاد کا اس قدر مضبوط تھا کہ جس کا اندازہ خود مولانا کے قول سے ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: کہ اگر آسمان کے بادلوں سے ایک فرشتہ اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہوکر اعلان کردے کہ سَوراج 24 گھنٹے میں مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں خود سَوراج سے دستبردار ہوجاؤں گا۔ کیوں کہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ صرف ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔ (بحوالہ جہان ابوالکلام آزاد،ص: 102)

مولانا آزاد کی شخصیت اتنے پہلو کے حامل ہے کہ ایک مضمون میں ان سب کا احاطہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ ان کی دیدہ وری و دانشوری کے پھول ہر باغیچہ میں کھلے ہوئے ہیں۔ وہ باغیچہ چاہے علمی ہو یا سائنسی، تکنیکی ہو یا تعلیمی۔

مولانا آزاد کی دانشوری ان کے عہد تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کے مذہبی شعور و آگہی کے رہین منت تھی۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم ان کے دانشورانہ افکار و خیالات سے کس حد تک استفادہ کر سکتے ہیں۔

اس عظیم ہستی کی وفات 22 فروری 1958 کو دلی میں ہوئی۔ اس وقت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مزار دلی کی جامع مسجد کے قریب واقع ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے