تحریک فہم قرآن کے داعی حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامی رحمۃ اللہ علیہ

تحریک فہم قرآن کے داعی حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامی کا نام آتے ہی ایک ایسی شخصیت کا تصور آتا ہے جو علم و عمل کے پہاڑ تھے، جہد مسلسل اور سعی پیہم کے مرقع تھے جنہیں اللہ جل شانہٗ نے علوم اسلامیہ میں مہارت و گیرائی کے ساتھ جدید دنیا کے حالات و ضروریات سے پوری طرح واقف کیا تھا، اور دین کے درد اور فکر سے ان کے دل و دماغ کو معمور کیا تھا۔

مولانا محفوظ الرحمٰن نامی ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع بلیا کی تحصیل رسڑا میں دسمبر ۱۹۱۲؁ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد شاہ مولانا نور محمد صاحب بڑے اللہ والے اور بزرگ تھے۔ شیخ الدلائل علامہ محمد عبد الحق مہاجر مکیؒ مصنف ’’الإكليل على مدارک التنزیل‘‘ کے خلیفہ تھے۔ وہ اپنی آخری عمر میں شہر بہرائچ میں قیام پذیر تھے اور لوگوں کی اصلاح و تربیت میں مشغول تھے۔

تعلیم

مولا نا محفوظ الرحمٰن نامی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت مولانا نور محمد صاحب سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے مئوناتھ بھنجن گئے اور وہاں کے مشہور مدرسہ دارالعلوم مئو میں عربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مئو کے ان کے اساتذہ میں حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی، حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب نعمانی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ مئو کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے مولانا نامی نے ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کا رُخ کیا، اور ۱۳۴۸؁ھ میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔

دارالعلوم دیوبند کے آپ کے اساتذۂ کرام میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب اور علامہ ابراہیم بلیاوی رحمہم اللہ کا نام خاص طور سے نمایاں ہے۔

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا نامی نے الٰہ آباد بورڈ سے مولوی عالم فاضل کے امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔

بعد التعلیم مشغلہ

مارچ ۱۹۳۱ء میں آپ کے والد بزرگوار پر فالج کا حملہ ہوا اور مختصر علالت کے بعد انتقال ہو گیا، شہر بہرائچ کے عمائدین کی خواہش پر مولانا نامی کے والد کی یادگار کے طور پر شہر کی جامع مسجد میں مدرسہ نورا العلوم کا آغاز کیا گیا، صرف دو طلبہ سے اس مدرسہ میں تعلیم و تعلم کی بنیاد پڑی، حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن صاحب نامی مدرسہ نور العلوم کی ہمہ جہت ترقی میں مشغول ہو گئے اور بہت جلد مدرسہ نور العلوم بہرائچ مشرقی یوپی کا مقبول ترین ادارہ بن گیا، یوپی کے مشرقی اضلاع کے علوم دینیہ کے طلبہ جوق در جوق نور العلوم بہرائچ آنے لگے اور بہترین تعلیم اور عمدہ تربیت سے آراستہ ہوکر اپنا دامن بھرنے لگے۔ حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامی مخصوص تعلیمی نظریات کے حامل تھے، ان کے تعلیمی نظریات پر مستقل طور سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی زندگی

۱۹۲۹ء میں جب وہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے ملک آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھا، تحریک آزادی زوروں پر تھی، جمعیت علماء ہند اور تحریک خلافت آزادی وطن کی جد و جہد میں پیش پیش تھی، مولانا محفوظ الرحمٰن نامی صاحب بھی اس قافلہ کے ایک جانباز سپاہی تھے، اور جمعیت علماء ہند کی سرگرمیوں میں ان کی بھرپور شرکت تھی، ملک کی سیاست نئی کروٹیں لے رہی تھیں، لیگ اور کانگریس کی کشمکش زوروں پرتھی، ملک کی آزادی سے پہلے ۱۹۴۶ء میں مولانا محفوظ الرحمٰن نامی جمعیت علماء ہند کے اشتراک و تعاون سے کانگریس کے ٹکٹ پر بہرائچ سے الیکشن لڑے اور مسلم لیگ کے امیدوار مسٹرظہیر احمد کے مقابلہ میں الیکشن میں کامیاب ہوئے، انہیں یوپی اسمبلی میں پارلیمنٹ میں سکریٹری کا عہدہ دیا گیا، بڑی ذمہ داری اور لگن کے ساتھ وہ اس عہدہ کی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے لیکن پھر کچھ کانگریسیوں اور دوسرے سیاسی مخالفین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے وزیر اعلٰی ڈاک سمپورنانند نے ان سے یہ عہدہ واپس لے لیا، اسمبلی کی ممبری کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ وہ الیکشن میں کھڑے نہیں ہوئے، اور اپنے کو تعلیم و تربیت اور تحریک فہم قرآن کے لیے وقف کر دیا۔

سیاست سے کنارہ کشی کے بعد

آزادی کے بعد ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں ایوان حکومت میں رہ کر انہیں حکومت کی جن تعلیمی پالیسیوں کا علم ہوا ان سے مولانا نامی فکر مند اور بے چین ہو گئے اور انھوں نے شدت سے یہ بات محسوس کی کہ سیکولر کہی جانے والی کانگریس جو تعلیمی پالیسی نافذ کرنا چاہتی ہے اور ملک کو جس رخ پر لے جانا چاہتی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے، اگر اس کا بروقت مداوا نہ کیا گیا اور مسلمان خواب غفلت میں سوتے رہے تو ان کی آئندہ نسلیں دولت ایمان سے محروم ہو جائیں گی۔

تقسیم ملک کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی سنگینی نے ان کی نیند اڑا دی، او انھوں نے نسل نو کے ایمان کے تحفظ کے لیے ایک ایسا طریقۂ کار طے فرمایا جس کو پھیلانے کا اگر انہیں موقع ملا ہوتا تو ہندوستان کے دینی حالات آج سے بالکل مختلف ہوتے۔

تحریک فہم قرآن

ان کی فکر اور دعوت تھی کہ ہر مسلمان کو قرآن کریم سے جوڑا جائے، صحیح طریقے پر قرآن پڑھنے کے ساتھ ہر مسلمان کو اس لائق بنایا جائے کہ وہ براہ راست قرآن کریم سمجھ سکے، اور اس کے پیغام سے آشنا ہو۔ قرآن کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ عربی زبان سے اچھی واقفیت پیدا ہو جائے، اور براہ راست قرآن کریم کے بیشتر مضامین سمجھے جاسکیں، اور قرآن ہی کے ذریعہ دین کی بنیادی تعلیمات بچوں کے دل و دماغ میں پلادی جائیں۔

حضرت مولا نا نامی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے غور و خوض کے بعد اپنے تعلیمی تجربات کی روشنی میں فہم قرآن کا مکمل کورس تیار کیا، یہ کورس رحمانی قاعدہ عربی اردو سے شروع ہوکر مفتاح القرآن حصہ پنجم پر مکمل ہوتا ہے، قرآن کے ذریعہ عربی سکھانے کا یہ بہت کامیاب کورس ہے، جو مختلف مقامات پر آزمایا گیا، اور کامیاب رہا، اب بھی مفتاح القرآن کے مختلف حصے دنیا کے مختلف ملکوں میں مدارس اور اسکولوں میں شامل نصاب ہیں۔

مولانا موصوف نے اس نصاب کو پڑھانے والے اساتذہ کے لیے، ایک مستقل کتاب معلم القرآن کے نام سے لکھی ہے، اگر اس کتاب میں درج ہدایات کی روشنی میں مولانا مرحوم کا تیار کردہ نصاب پڑھایا جائے تو پڑھنے والوں کو عربی زبان اور قرآن کریم دونوں سے اچھی مناسبت پیدا ہو جائے گی، اس نصاب کی ضرورت و اہمیت پر حضرت مولانا نامی رحمۃ اللہ علیہ نے کئی رسالے شائع کیے، جن میں اپنا درد دل بکھیرکر رکھ دیا ہے، اور بڑی دلسوزی اور فکر مندی کے ساتھ مسلمانوں کو فہم قرآن کی طرف متوجہ کیا ہے، بلکہ جنھوڑا ہے۔

مولانا مرحوم نے نصاب تیار کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنی دعوت کو ایک عظیم تحریک کی شکل دی، مولانا خود مختلف صوبوں اور اضلاع میں جاکر کیمپ لگاتے، اور طلبا کو فہم قرآن کا یہ نصاب بڑی مستعدی کے ساتھ پڑھاتے، علماء کو تربیت دیتے کہ نصاب کس طرح پڑھایا جائے مسلسل دوروں اور اسفار نے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔

وفات

۱۹۵۷ء میں وہ اسی مقصد کے لیے صوبہ بہار گئے ضلع کشنگنج کے ایک جلسہ میں بہت پرجوش تقریر فرمائی، تقریر کے فوراً بعد آپ پر فالج کا اٹیک ہوا، وہاں سے بہرائچ لائے گئے۔ علاج سے طبیعت رو بصحت ہونے لگی، لیکن پھر دوبارہ اٹیک ہوا، جس کے نتیجہ میں آپ سات سال تک مفلوج اور صاحب فراش رہے، بالآخر ۱۷ نومبر ۱۹۷۳ء میں پچاس سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ شہر کے مشہور قبرستان مولوی باغ بہرائچ میں انہیں دفن کیا گیا۔

مفتاح القرآن کورس

مختلف ملکوں میں یہ مانگ بڑھ رہی ہے کہ قرآن فہمی اور قرآنی تعلیم کو عام کرنے کے لیے مختصر مدنی کورس تیار کیا جائے، اور مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے، تا کہ یہ کتاب ہدایت ہر مسلمان کے لیے رہنما اور سرمایۂ بصیرت بنے۔ احقر نے حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ ادارہ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ میں فارسی، عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کی تھی، اور مفتاح القرآن کے بعض اجزاء کو اس میں پڑھے تھے، اس لیے دل میں یوں داعیہ پیدا ہوا کہ حضرت مولانا نامی رحمۃ اللہ علیہ کے قرآن فہمی کے اس کورس کو کیوں نہ شائع کیا جائے، اور اسے متعارف کرایا جائے، اس نصاب کو رواج دینا اور چلانا موجودہ حالات میں بہت مفید اور ضروری ہے، مولا نا نامی مرحوم نے اس نصاب کے تعارفی لٹریچر میں اپنے دور کے جن سنگین حالات و خطرات کا ذکر کیا ہے آج ہندوستان کے حالات بلکہ عالمی حالات اس سے بھی زیادہ سنگین اور ہولناک ہیں۔

مسلمانوں سے اپیل

مسلمانوں کی نئی نسل کو دین و ایمان سے دور کرنے کے لیے مسلسل سازشیں کی جارہی ہیں، اور نئی نئی تعلیمی پالیسیاں لاگو ہورہی ہیں، سرمایۂ ایمان سے محروم کرنے کے لیے ترغیب و ترہیب دونوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامی کی تحریک فہم قرآن کو عام کرنا اور پھیلانا ایک اہم دینی فریضہ ہے، جو لوگ اس کام میں جتنا حصہ لیں گے، اللہ کے دربار میں اتنا ہی سرخرو ہوں گے۔

ہماری خواہش و تمنا ہے کہ مولانا مرحوم کا تیار کردہ یہ کورس بڑے پیمانے پر پھیلایا اور چلایا جائے، دینی مدارس نیز اسکولوں اور کالجوں میں اسے شامل نصاب کیا جائے، مساجد میں اور دوسرے مقامات پر فہم قرآن کے حلقے قائم کرکے عربی زبان اور قرآنی تعلیمات کو عام کیا جائے، ان شاء اللہ اس نصاب سے وہ اثرات اور ثمرات ظاہر ہوں گے، جن کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی، اس نصاب کو دوسری علاقائی و ملکی اور عالمی زبانوں میں منتقل کرنے کی بہت ضرورت ہے، تاکہ ان زبانوں کو بولنے اور پڑھنے والے بھی اس بہترین کورس سے مستفید ہو سکے اور فہم قرآن کی تحریک پوری دنیا میں پھیل سکے۔

عتیق احمد بستوی
استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو


نوٹ: جو حضرات قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے مذکورہ بالا نصاب آن لائن شروع کیا جارہا ہے۔ خواہشمند حضرات درج ذیل لنک پر کلک کرکے تفصیلات دیکھ لیں۔

قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھنا سیکھیں!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے