باسمہٖ تعالیٰ
مختصر سوانح سعید الملت حضرت مولانا سعید صاحب ٹونکی دامت برکاتہ
از قلم: مفتی محمد عادل خان ندوی
سرزمین ٹونک کی عالمی شہرت یافتہ شخصیت، بقیۃ السلف، سعید الملت حضرت مولانا محمد سعید صاحب ٹونکی کی ولادت ٹونک ہی میں ایک دینی گھرانے میں ۱۵/ اپریل ۱۹۳۱ء کو ہوئی۔ والد محترم کا اسم گرامی حافظ محمد یوسف خاں، دادا کا نام عظمت اللہ تھا۔ والدہ محترمہ کا نام سکینہ بی اور اہلیہ کا نام حلیمہ بی تھا۔ آپ کے بہن بھائیوں کے نام یہ ہیں: مریم، عبد السلام، فاطمہ، عبد الرحمن، صدیقہ، عبد الخالق، عبد الرزاق۔
بہت غربت میں زندگی بسر کی۔ ابتدائی فارسی و اردو کی تعلیم مدرسہ ناصریہ میں مولوی محمد امین صاحب سے حاصل کرنے کے بعد حفظ ، تجوید و قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ عالیہ فرقانیہ سے منسلک ہوئے۔ روایت حفص عن عاصم الکوفی کے مطابق اپنے استاذ حافظ محمد حسین صاحب کے پاس مکمل کیا۔ اور شافیہ و کافیہ وغیرہ مولانا فضل الرحمن پنجابی سے مدرسہ ناصریہ میں ۱۹۴۸ میں پڑھی۔ اسی سال آپ کی شادی حلیمہ بی سے ہوئی۔
آپ نے بچپن ہی سے کارپینٹری کا کام کیا، تعلیم کا سلسلہ بھی قائم رکھا اور بود و باش کے لیے کام بھی کرتے۔ آپ کام میں بہت فعال تھے کہ بچوں کی بھیڑ لگی رہتی ،وہیں دوسری طرف اساتذہ کے نور نظر۔ایک مرتبہ استاذ محترم جناب قاضی عرفان صاحب ناظم عدالت شرع شریف تانگا لے کر آپ کے دوکان پہنچ گئے اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی، تو آپ نے عذر بتایا تو فرمایا کہ طالب علم کے لیے موت کے علاوہ کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے۔
آپ کے دو اساتذہ بہت اہمیت کے حامل ہیں جن کی شفقتوں کے سائے میں رہ کر آپ نے ترقی کے منازل طے فرمائے۔ ایک قاضی محمد عرفان خان صاحب اور دوسرے مولوی محمد علی صاحب عرف ننے مولوی صاحب، جن دونوں اساتذہ کے پاس سولہ سولہ سال تک تعلیم حاصل کی اور تفسیر، حدیث، فقہ و فتاویٰ اور طب یونانی کی کتابیں پڑھیںاور سند فراغت حاصل کی۔ آپ بار بار یہ فرماتے ہیں کہ آج بھی اگر میرے استاذ بقید حیات ہوتے تو میں ابھی تک زانوئے تلمذ تہہ کرتا رہتا، باوجودیہ کہ میں نوے سال سے زاید کا ہوچکا ہوں۔
آپ کی سند پر آپ کے دونوں ہی اساتذہ قاضی صاحب اور مولوی محمد علی صاحب عرف ننے صاحب کے دستخط ہیں۔ اصل سند ابھی موجود ہے۔ سند پر قاضی عرفان خان صاحب کی تحریر کردہ عبارت ’’أدعو اللّٰہ تعالیٰ أن یجعلک علیٰ مسلک الحنفیۃ‘‘ بھی مرقوم ہے۔ آپ متصلب حنفی عالم دین، فقیہ بے مثال، قاری و مقری ،یکتائے روزگار شاعر، مفسر قرآن کریم ہیں۔ أطال اللہ عمرہ
آپ ساٹھ سال سے زاید عرصہ سے مختلف تفاسیر قرآنیہ کو بنیاد بناکر (خصوصاً جلالین و روح المعانی کو) جامع مسجد قافلہ ٹونک میں تفسیر بیان فرما رہے ہیں۔
آپ نہایت متواضع، منکسر المزاج، خوش صورت و خوش سیرت ہیں۔ سہل الاستفادہ، سادہ لوح، غریب طبیعت کے حامل ، سنت و شریعت کا نور چہرے پر آراستہ و پیراستہ۔
آپ تقریباً ساٹھ سال سے زاید عرصہ سے مدرسہ عالیہ فرقانیہ کے صدر المدرسین کے منصب پر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ آپ اپنے شاگردوں سے بار بار یہ فرماتے ہیں ’’یک در بگیر محکم بگیر‘‘۔ فرماتے ہیں ہمارے اساتذہ نے ہمیں جہاں بٹھادیا ہم آج تک وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ۱۹۸۶ء سے مستقل فتویٰ نویسی کی خدمت آپ ہی انجام دے رہے ہیں۔ ملک و بیرون ملک سے آج بھی استفتاءات کے لیے لوگ دار القضاء ٹونک سے رجوع کرتے ہیں۔ آپ نے مولوی، عالم، فاضل و طب کورس الٰہ آباد بورڈ سے کیا جن میں آپ نے ممتاز نمبرات حاصل کیے۔
آپ کی سند حدیث
محمد سعید بن حافظ محمد یوسف عن القاضي محمد عرفان خان و عن الشیخ محمد علي خان المعروف مولوی ننے صاحب و ھما عن الحکیم برکات أحمد عن محمد أیوب فلتي و ھو عن شیخہ الشیخ محمد عبد القیوم و ھو عن الشاہ محمد إسحاق الدھلوي و ھو عن شیخہ الشاہ عبد العزیز الدھلوي و ھو عن شیخہ و والدہ الشاہ ولي اللّٰہ الدھلوي و ماعدا الحدیث قرأ سائر العلوم من الإمام الھمام عبد الحق خیرآبادي۔
مجھے صاحبزادہ اختر صاحب نے ایک مرتبہ مسجد قافلہ میں روکا اور کہا: میاں استاد آبرو کا ایک چار بیت کا رباعی لیتے جاؤ۔ میں نے کہا جی فرمائیں تو انہوں نے غزل کا یہ شعر سنایا
آئیں جو گلزار میں حسن کی متوالیاں
جھک گئیں تسلیم کو پھولوں کی سب ڈالیاں
ماند ہے کیا کہکشاں دھنتی ہیں سر بجلیاں
مانگ تیری دیکھ کر اور تیری بالیاں
یہ شعر مجھے پسند آیا میں نے لکھ لیا اور فوراً یاد کرلیا۔ دوسرے دن میں یہ شعر مدرسہ فرقانیہ میں جاکر مولوی صاحب کو سناکر اندازہ لگانا چاہا کہ مولوی صاحب بھی پسند فرماتے ہیں یا نہیں تو میں نے مولوی صاحب کو یہ شعر سنایا اور بہت پسند فرمایا اور کئی بار سنا اور طبیعت چونکہ مولوی صاحب کی بچپن ہی سے موزوں رہی ہے۔ آپ پندرہ سال کی عمر سے اشعار کہتے رہے ہیں۔ آپ نے بتایا استاد آبرو کچہری میں رہتے تھے۔ بہت بڑے آدمی تھے، قابل ترین شخص تھے ماہر پنجہ کش تھے، چھ زبانوں پر مکمل عبور تھا وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ رباعی بدست خود نوشت فرمایا اور یاد کرلیابعد میں پھر آپ نے کئی مجلسوں میں سنایا۔
میں نیا نیا فارغ ہوکر آیا فراغت اور تکمیل جب کہ ایک بڑے ادارے سے ہو ایک جنون ہوتا ہے کچھ کر گزرنے کا ، اسی جنون میںخوب کوتاہیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ایک غلطی پر مجھے نصیحت فرمائی اور یہ شعر پڑھا
تری ہستی نہ جب تک منفرد اک ذات ہوجائے
ہجوم کار گاہِ دہر میں شامل نہ ہوجانا
اپنے استاد قاضی عرفان صاحب کا یہ شعر باربار دہراتے
یہ تو قسمت میں کہاں تھا کہ کریں کسب کمال
افسوس بے کمالی میں بھی ہم کامل نہ ہوئے
علامہ اقبال کے اشعار بہت پسند فرماتے۔ لیکن بعض جگہ علامہ کے اشعار پر تنقید فرماتے ہیں جیسے کہ علامہ کا شعر ہے
قوم کیا ہے قوموں کی امامت کیا ہے
یہ کیا جانے دو رکعت کے امام
چونکہ آپ ساٹھ سال سے مسجد قافلہ میں امامت فرما رہے ہیں اور منصب امامت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں اس دوسرے مصرعہ میں آکسفورڈ کا رنگ نظر آرہا ہے۔
علماء معاصرین میں مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی ؒ سے اجازت حدیث حاصل ہے۔ حضرت مولانا نے آپ کو اور مولانا عامر خانصاحب ندوی(میرے والدمحترم) کو لکھنو کے سفر پر علامہ حیدر حسن خانصاحب کے سلسلۂ حدیث کی سند عطا فرمائی اور فرمایا: أمانتکم ردت إلیکم
کیف صاحب بھوپالی ایک مرتبہ ٹونک تشریف لائے اور عام طور پر آپ کا قیام جناب حبیب الدین صاحب ایڈووکیٹ کے یہاں رہتا۔ آپ قافلہ کی مسجد میں نماز جمعہ حضرت مولوی سعید صاحب کی امامت میں ادا کرنے حاضر ہوئے۔ تقریر سنی، نماز جمعہ ادا کی، اس سے قبل خطبہ سنا، سن کر فی البدیہہ یہ اشعار نذر کیے:
بہت دنوں میں سنی میں نے آج ایک تقریر
وہ دل میں چبھ گئی بن کر کسی نگاہ کا تیر
دیار ٹونک خدا کی سلامتی تجھ پر
نثار میرا یہ فن اور شاعری تجھ پر
خدا کا شکر کریں مولوی سعید یہاں
ہے دستیاب ابھی روح کی کشید یہاں
مولوی سعید صاحب کے اشعار:
وہ ہرگز بھی انسان انساں نہیں ہے
جسے فکر شام غریباں نہیں ہے
سحر تک تو جل اور اے شمع تربت
شب غم ہے شام عروساں نہیں ہے
بفیض عنایات شیخ المشائخ♦
نظر جانب جیب و داماں نہیں ہے
سلامت رہے مرا ذوق صحرا نوردی
مجھے خواہش قصر و ایواں نہیں ہے
♦شیخ المشائخ سے مراد ان کے اساتذہ قاضی عرفان صاحب اور ننے مولوی صاحب ہیں۔
آپ کا ایک شعر قارئین کی نظر کر رہا ہوں:
مرا مقام نہ پائے گی وہ نظر
فریب خوردۂ مغرب کہا گیا ہو جسے
اور ایک نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
کسے مجال بنے کوئی اس کا مثل و نظیر
مقام سدرہ سے آگے بلا لیا ہو جسے
اے ضیاء مطلع مہ و مہر احترام
ہے سطح ارض نور رسالت لیے ہوئے