فضیلت علم
ماخوذ از: اطیب الکلام
الحمد للہ الذي خلق اللوح و القلم، و علم الإنسان ما لم یعلم و الصلوة و السلام على رسوله محمد أرسله إلى العرب و العجم يعلمهم الكتاب و الحكمة و على اٰله و أصحابه أجمعین أمابعد: فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بسم الرحمٰن الرحيم، قل هل يستوي الذين يعلمون و الذين لا يعلمون، إنما يتذكر أولو الألباب، و قال النبي صلى الله عليه وسلم: فضل العالم علی العابد كفضلي على أدناكم، أو كما قال علیہ الصلوة و السلام.
علم کی دولت ہے ایسی لا زوال
جس کے آگے گنج قاروں پائمال
علم سے انسان پاتا ہے تمیز
علم سے آدمی ہے ہر دل عزیز
مجھ سے واقف ہے زمانہ علم میرا نام ہے
بخش دینا تاج و کشور میرا ادنی کام ہے
میرے غیور نوجوانو!
علم کا دو عظیم مقام ہے، جس کی بدولت انسان میں انسانیت آتی ہے، علم ہی کی روشنی سے انسان حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے، یہاں تک کہ علم ہی کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور اپنے خالق و مالک کو پہچانتا ہے۔
علم اور جہالت میں فرق!
علم اور جہالت میں کیا فرق ہے؟ اللہ رب العزت اس کو بیان فرماتا ہے: قل هل يستوي الذين يعلمون و الذين لا يعلمون۔ ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ فرمادیجیے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ ہرگز برابر نہیں ہو سکتے بلکہ جاہل اور عالم کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے جس کو قرآن پاک کے اندر کئی انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: قل لا یستوي الخبیث و الطيب کہ پاکیزہ چیز اور ناپاک چیز برابر نہیں۔
تیسری جگہ ارشاد فرمایا: لا يستوي أصحاب النار و أصحاب الجنة جنت والے اور آگ والے برابر نہیں ہو سکتے۔ چوتھی جگہ ارشاد فرمایا: و ما یستوي الأحياء و لا الأموات زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔
امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ان تمام آیات میں علم، طیب، جنت، اور حیات، یہ سارے کے سارے الفاظ اللہ نے علم ہی کے لیے استعمال فرمائے ہیں اور جو ان کے مقابلے میں ہے وہ جہالت کے لیے ہیں۔
یہ دنیا دار الاسباب ہے!
سامعین کرام! یہ دنیا دار الاسباب ہے جہاں پر ہمیشہ عزت ملنے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی اللہ نے بلند کرنے کے لیے کچھ امتیازی علوم عطا فرمائے جو بظاہر ان کی بلندی کا سبب بنے۔
مسجود ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام
اگر اللہ نے حضرت آدم کو یہ بلندی عطافرمائی کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کے تخت کو اٹھاکر سارے جہاں میں پھریں تاکہ آدم علیہ السلام کا بزرگ ہونا سب کو معلوم ہو جائے اور اسی پر بس نہیں بلکہ فرشتوں کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں تو اس کا کچھ سبب بھی ہوگا۔ ہاں اس کا سبب قرآن کریم بیان کرتا ہے: و علم آدم الأسماء كلها۔ ترجمہ: اللہ نے آدم کو تمام اشیاء کے ناموں کا علم عطا کیا۔ یہاں کسی عارف باللہ نے عجیب نکتہ بیان کیا کہ حضرت آدم کو اشیاء کے ناموں کا علم دیا گیا تو ان کو اتنی عزتیں ملیں کہ نورانی مخلوق ان کے آگے جھکنے پر مجبور ہوگئی۔ اے مومنو! اگر تمہیں اللہ رب العزت کے اسماء کی معرفت حاصل ہو جائے تو تمہیں کتنی عزتیں نصیب ہو جائیں۔
حضرت موسی علیہ السلام کی تابعداری کا واقعہ
دیکھیے حضرت موسی اللہ کے پیارے نبی ہیں، کلیم اللہ ہیں، اللہ نے ان کو بڑی بڑی نعمتوں سے نواز رکھا تھا؛لیکن ایک چیز کا علم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت خضر علیہ السلام جن کے نبی ہونے میں بھی اختلاف ہے ان کے پیچھے پیچھے پھرنا پڑا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی قید خانہ سے رہائی
حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حسن نے ان کو قید خانہ میں ڈلوادیا اور ان کے علم نے ان کو شاہی تخت پر بٹھادیا اور مصر کے خزانوں کا مالک بنادیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو دیکھ لیجیے! اللہ نے ان کو دنیا کی بھی بادشاہت دی اور دین کی بھی۔ شہنشاہِ ذی وقار صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ان جیسی دنیاکی بادشاہت نہ پہلے کسی کو ملی اور نہ بعد میں کسی کو ملے گی۔ انسانوں کے حاکم، جناتوں کے حاکم، پرندوں کے حاکم، درندوں کے حاکم، ہواؤں کے حاکم، دنیا کی سب چیزوں پر یکساں حکومت کرنے والے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ ہدہد ایک چھوٹا سا پرندہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کی بات ماننی پڑی، باوجود یہ کہ آپ سخت غصہ کی حالت میں تھے؛ کیوں ماننی پڑی پرندے کی بات؟ اس لئے ماننی پڑی کہ ہدہد کو اس بات کا علم ہو گیا تھا جس کا علم حضرت سلیمان علیہ السلام کو نہیں تھا۔
دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا
آسمان آنکھ کے تل میں ہے دیکھائی دیتا
میرے مسلمان بھائیو!
دراصل خدا کی خلافت جو انسان کو ملی وہ علم ہی کی بنا پر ملی۔ یہی وہ شئ ہے جو پورے جہان پر حکومت کرادیتی ہے اگر دنیا میں خدا کا جلوہ ہے تو وہ علم ہے۔
اگر جنت میں خدا کا دیدار ملے گا تو علم سے ملے گا۔
علم والا دین و دنیا کو سنھبال سکتا ہے۔
بے علم انسان اپنے بدن کے لباس کو بھی نہیں سنبھال سکتا ہے اسے تو اپنے آپ کی بھی خبر نہیں۔
علم حاصل کرنے کے لیے عالم کے پاس جانے کی فضیلت
نبی کریم نے فرمایا جب طالب علم، علم حاصل کرنے کے لئے کسی عالم کے پاس جا تا ہے تو اس کو ہر ہر قدم پر ایک سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے اور ہر ہر قدم پر جنت میں ایک درجہ بلند کیا جا تا ہے، اور زمین برابر اس کے لئے دعاء خیر کرتی رہتی ہے ، فرشتے اس کی نیکیوں کے گواہ بنتے ہیں ہر وقت اس کے لئے مغفرت اور بخشش تیار ہے ایک جگہ آپ کا فرمان ہے: و آتاه الله أجر اثنين و سبعين شهيدا۔ ترجمه: نبی کا فرمان ہے اللہ تعالی اس شخص کو (جو کہ علم کی تلاش میں نکلا) بہتر شہیدوں کا ثواب عطافرمائیں گے۔
زمانہ طالب علمی میں انتقال ہوجانا
امام مالک بیان کر تے ہیں کہ ایک طالب علم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک روز اس کو خواب میں دیکھا چہرا اس کار وشن تھا، چمکدار لباس میں ملبوس اس سے پوچھا کیا گزری کہنے لگا خدا نے یوں فرمایا تھا اے میرے علم سے محبت رکھنے والے تیرے لئے ایک ایک مسئلہ کے بدلہ جنت میں ایک ایک محل تیار کردیا گیا ہے اور فرمایا یہ مرتبہ سوائے اہل علم کے کسی کو نہیں ملے گا۔
پھر اللہ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ اس کے مرتبہ کو اور بھی زیادہ کردو یہ میرے انبیاء کے وارث ہیں۔
میدان حشر میں علماء کا مرتبہ
عزیزو! جب قیامت قائم ہوگی اللہ فرمائیں گے اے علماء کی جماعت یہ جنت موجود ہے تمہیں اجازت ہے جاؤ پھر اچانک فرمائیں گے امكثوا ایهاالعلماء: اے علماء کی جماعت ٹہر جاؤ اکیلے مت جاؤ بلکہ گنہگاروں کی سفارش کرو میں تمہاری سفارش قبول کروں گا اے علماء جسے تم کہو گے اس کو میں بخش دونگا تا کہ وہ لوگ جو دنیا میں تمہیں حقارت سے دیکھا کرتے تھے آج ان کو معلوم ہو جائے کہ میدان حشر میں تمہاری کیا عزت و توقیر ہے یہ مقام کیوں ملا نبی اکرم شفیع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: طلب العلم أفضل عند الله من الصلوات و الحج والجهاد۔ ترجمہ: علم کا حاصل کرنا نفلی نماز حج اور جہاد سے افضل ہے۔ عابد کی مثال ایک تیراک کی ہے جو خود تیرکر پار ہوسکتا ہے اور عالم کی مثال ایک بڑے جہاز کی ہے جو ہزاروں کو پار کرتا ہے۔
علماء کی جنت میں ضرورت!
مسلمانو!
غور سے سنو حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں لوگ عالموں کے محتاج ہیں، جنت میں بھی اسی طرح لوگ علم والوں کے محتاج ہوں گے اللہ رب العزت ہر روز اہل جنت سے فرمائے گا مانگو کیا مانگتے ہو وہ عرض کریں گے اے اللہ سب نعمتیں تو یہاں موجود ہیں پھر کیا مانگیں۔
اللہ تعالی فرمائے گا جاؤ اپنے علماء سے معلوم کرو وہ علماء کے پاس آئیں گے اور معلوم کریں گے علماء بتلائیں گے اے لوگو جلدی جاؤ اللہ کا دیدار مانگو دوستو اہل علم کا مرتبہ وہاں بھی کم نہ ہوگا علم تو ایسی چیز ہے جو ہر موقع پر انسان کی رہنمائی کرتی ہے انسان کو اس سے دلی سرور حاصل ہوتا ہے۔
علم دل کا سرور ہے
چشم بینا کا نور ہوتا ہے
علم سے رنج و غم دور ہوتا ہے
دل کو حاصل سرور ہوتا ہے
اہل علم کا مرتبہ آخرت میں
امام غزالی نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ عالموں کا مرتبہ آخرت میں تمام جہاں کے مسلمانوں سے سات سو گناہ زیادہ ہوگا اور ایک مرتبہ اتنا بڑا ہوگا کہ اگر عابد پانچ سوسال تک عبادت کرے تب کہیں جاکر ایک مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے یہی تو مطلب ہے خدا کے فرمان: ’’قل هل يستوى الذين يعلمون و الذين لا يعلمون‘‘ کا۔ فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: وُزِنَ یوم القیامۃ مِدَادُ العلماء بدمِ الشهيد فرجح مداد العلماء۔ قیامت کے دن علماء کی روشنائی اور مجاہد فی سبیل اللہ کے خون کو تولا جائیگا تو علماء کی لکھنے کی سیاہی اس کے خون سے بھاری ہوگی جو جہاد کرتا ہوا شہید ہوگیا۔
اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شہید اپنے خون سے زمین کو سیاہ کرکے چلاگیا اور عالِم نے اپنی سیاہی سے ایک عالَم کو روشن کردیا، اس کی سیاہی سے ہدایت کے چاند سورج طلوع ہوئے، شہید نے اپنی جان دی دوسرے کی جان لی، خود جنت میں گیا دوسرے کو جہنم رسید کرگیا عالم نےاپنی بھی حیات جاودانی کی دوسرے کو بھی حیات ابدی عطا فرمائی اور دوسرے ہزاروں لوگوں کو جنت میں لے گیا۔
حضرت داودعلیہ السلام کی دعاء!
ایک مرتبہ حضرت داود علیہ السلام نے دعا کی اے مولا میں چاہتا ہوں کہ خلوت اختیار کروں یہاں تک کہ مرجاؤں اللہ نے فرمایا اے داؤد یہ تمہاری خواہش ہے اب ہماری خواہش سنو فرمایا اے داود ہم چاہتے ہیں کہ تم خود بھی جنت میں جاؤ اور ہزاروں کو ساتھ میں لے جاؤ لوگو! اندازہ کرو علم کا کیا مرتبہ ہوگا کیسا یہ جوہر ہوگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان
دوستو! آج علماء موجود ہیں غنیمت سمجھو تمہارے دین کی حفاظت ہورہی ہے ورنہ تو اندلس جیسے ملک کے حالات پڑھئے جس ملک میں ہزاروں سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی آج وہاں اللہ کا نام لینے والا کوئی نظر نہیں آتا اسلام کے نام سے لوگ ڈرتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عالمِ شریعت کا مرجانا زیادہ حزن و ملال کا مقام رکھتا ہے ایسے ایک ہزار عابدوں کے مرجانے سے جو رات و دن عبادت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ہزاروں عابد مرے جو اکیلے خالی گھروں میں روشن تھے وہ روشنی گل ہوئی اور اگر ایک عالم مرگیا تو گویا کہ سورج چھپ گیا جس کی وجہ سے ہزاروں گھروں میں اندھیرا ہوگیا۔ بزرگوں کا مقولہ ہے موت العالِم موت العالَم۔ ترجمہ: عالم کی موت گویا کہ پورے عالم کی موت ہے۔
ایک مسئلہ معلوم کرنے سے چار آدمیوں کی بخشش!
لوگو! مسئلہ پوچھتے رہا کرو ایک مسئلہ معلوم کرنے سے چار آدمیوں کی بخشش ہوتی ہے۔ ایک تو مسئلہ پوچھنے والے کی، دوسرے مسئلہ بتلانے والے کی، تیسرے پاس بیٹھ کر سننے والے کی، چوتھے اہل علم کے فریق سے محبت رکھنے والے کی۔ (بحوالہ کنز العمال)
صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان!
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت کا عطر عالم لوگ ہیں اور فرمایا جس بات سے عام لوگوں کا ایک گناہ معاف ہوگا اس بات سے عالم کے چالیس گناہ معاف ہوں گے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ عالم اور عابد قیامت کے دن پل صراط پر پہنچیں گے اور علماء سے کہا جائیگا کہ آپ یہاں ٹہریں گنہگار لوگ یہاں سے گزریں گے تم ان کی سفارش کرنا اے علماء کی جماعت جس کی تم سفارش کروگے میں اس کو بخش دوں گا۔( بحوالہ کنز العمال)
لیکن بھائیواور دوستو!
یہ سب مراتب کب حاصل ہوں گے یہ سب مراتب اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم خود علم حاصل کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس لائن پر لگائیں اور جد و جہد کریں نبی کا فرمان ہے أطلب العلم ولو كان بالصين كہ علم حاصل کرو اگرچہ تم کو دور دراز کا سفرکرنا پڑے۔
بزرگوں کا مقولہ ہے: العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطی کلک۔ علم اس وقت تک اپنا تھوڑا سا حصہ دینے کیلئے تیار نہیں جب تک کہ آپ اپنا سب کچھ علم کیلئے وقف نہ کردیں ایک عربی کا شعر ہے۔
من طلب العلی سحر اللیالی
بقدر القد تکتب المعالی
حضرت عبد اللہ ابن مبارک کا شوق علم!
حضرت عبد اللہ ابن مبارک سے معلوم کیاگیا کہ اگر تمہیں معلوم ہوجائے تمہارا آخری وقت ہے تو تم کیا کروگے وہ کہنے لگے ارے بھائی علم حاصل کرونگا سبحان اللہ کیسا شوق ہوگا ان کا اور انہوں نے اپنے دعوے کو سچ کر دکھایا آخری وقت تک علم کی پیاس نہ بجھ سکی اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے دار بقا کی طرف روانہ ہوگئے افسوس کہ آج ہمارے اندر سے یہ جذبہ اور فکر نکل گیا بخدا یہ منصب اہل اسلام کا تھا جو انہوں نے ترک کردیا اور غیر قوموں نے اس کو اپنالیا۔
ایک انگریزلڑ کے کا واقعہ!
مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ دریائی جہاز سے جارہا تھا اچانک اس کی زنجیر ٹوٹ گئی یہ بہت بڑا حادثہ تھا لوگوں کو جہاز کے پہاڑ سے ٹکرانے کا گمان ہوگیا ہر شخص کو موت کا یقین ہو گیا چہرے زرد پڑگئے اس گھبراہٹ کی حالت میں ایک انگریز لڑکے کو دیکھا کہ وہ بدستور کتاب کا مطالعہ کررہا تھا لوگوں نے اس سے کہا اے بھائی کیا تم کو معلوم نہیں کہ جہاز کتنے خطرے میں ہے کہنے لگا ہاں مجھکومعلوم ہے کہ جہاز موت کے منہ میں جارہا ہے لیکن میں اپنی زندگی کے لمحات کیو ں برباد کروں اگر موت آنی ہے تو وہ تو آئیگی اگر کوئی طریقہ نجات کا نکل سکتا ہے تو وہ بھی مطالعہ سے نکل سکتا ہے آج غیرقوموں کا علم حاصل کرنے کے بارے میں یہ خیال، اور مسلمان سوتا رہے ، وہ دنیا کی خواہشات کو پوری کرتا رہے اذان ہوتی رہے اور مسلمان آرام کرتا رہے۔ (بحوالہ سفر نامہ روم )
دوستو! غور کرو اور تعلیم کی طرف دھیان دو دینی تعلیم بھی حاصل کرو اور دنیاوی تعلیم بھی حاصل کرو لیکن دینی تعلیم کو مقدم رکھو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھو ورنہ تمہارا نام تک باقی نہ رہے گا اور کوئی تمہارا نام لیوا نہ ہوگا، اللہ ہم سب کو علم کا سچا طلبگار بنائے۔ آمین، اللہ رکاوٹوں کو ختم فرمائے، (آمین)
عزت اسے ملی جو گھر سے نکل گیا
وہ پھول ہی سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
تو بھلاکر علم دین خود کو سمجھتا شیر ہے
اس لئے آج مسلم تیری حالت زیر ہے
سبحان ربک رب العزت عما يصفون و سلام على المرسلين و الحمد لله رب العلمين۔