نماز کی فضیلت و اہمیت| نماز کے موضوع پر تقریر| ایمان افروز تقاریر

نماز کے موضوع پر تقریر

ماخوذ از: ایمان افروز تقاریر (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)

نماز کی فضیلت و اہمیت

وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

نماز کے موضوع پر تقریر

الحمدلله الذي بيده تصريف الاحوال والصلاۃ والسلام علیٰ سیدہ المرسلین و النبیین و علیٰ اٰلہ و أصحابہ رضوان اللہ علیھم أجمعین۔ أما بعد: فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ في کتابہ المبین فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

إنَّ الصَّلَاۃَ تَنْھیٰ عَنِ الفَحْشَآءِ وَ المُنْکَر۔ و قال رسولُ اللّٰہِ ﷺ: بَیْنَ العَبْدِ و بَیْنَ الکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃ۔ صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلانا العظیم و صدق رسولُہُ النَّبِيُّ الکَرِیْم۔

وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

پیروان نجوم ہدایت و جاں نثاران ماہ رسالت!

 اللہ تبارک و تعالی کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اس متبرک و منور مجلس میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ بہت دنوں سے قلب میں آرزو و تمنا تھی کہ آپ حضرات کے روبرو نماز کو موضوعِ گفتگو بناؤں۔ اس مقصد کو سامنے رکھ کر لب کشائی کی جسارت کر رہا ہوں۔ اور میں اپنے آپ کو بہت ہی خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالی ہمیں سننے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

 خالق السموات والارض نے امت مسلمہ اور اپنے حبیب محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بے بہا نعمتوں سے نوازا۔ اور ہمیشہ تحفوں سے سرفراز فرماتا رہا۔ ان نعمتوں میں سے ایک اعلیٰ و ارفع تحفہ نماز کا تحفہ ہے۔ اس متبرک تحفہ کی فضیلت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

اللہ تعالی نے حج کو فرش پر نازل فرمایا۔

روزہ کو فرش پر نازل فرمایا۔

زکوٰۃ کو بھی فرش پر نازل فرمایا۔

ایمان کو بھی فرش پر نازل فرمایا۔

تمام احکام کو فرش پر نازل فرمایا۔

لیکن جب نماز کی باری آئی تو ربِ کائنات نے اپنے محبوب، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ہم آپ کو ایک قیمتی تحفہ دینے والے ہیں۔ یہ تحفہ بہت اعلیٰ ہے۔ یہ تحفہ بہت ارفع ہے۔ اور اعلیٰ و ارفع شے کو اعلیٰ ہی جگہ عطا کیا جاتا ہے۔ لہٰذا نماز کو عرش الٰہی پر بلا کر عطا کیا گیا۔

 برادران اسلام!

 توحید اور ایمان کے بعد انبیاء علیہم السلام نے نماز ہی کو اہمیت دی ہے۔ نماز کی تلقین کی ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ’’أقيموا الصلاة، أقيموا الصلاة‘‘ ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں پر یہ الفاظ ذکر کیے گئے ہیں: یآ أیُّھَاالّذِیْنَ اٰمَنُوْ اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاۃ۔ ترجمہ: اے مومنو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد طلب کرو۔

جب صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے تحفے کا ذکر فرمایا اور نماز کی بشارت دی تو تمام صحابۂ کرام جھوم اٹھے۔

 سبحان اللہ! اب تو نمازوں کے ذریعہ ہم ہر مشکل آسان کر دیں گے۔

اب تو ہمیں خدا سے مانگنے کا واسطہ اور وسیلہ مل گیا۔

پانچ وقت کی نماز ادا کریں اور پانچ سو نماز کا ثواب ملے۔

نماز جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

نماز رضائے الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔

نماز رسول کی محبت حاصل کرنے کا واسطہ ہے۔

ع

دل میں ہر ایک انسان کے حسرت ہے جہاں کی
وہ باغ جہاں سر کو جھکانے میں ملے گا

عزیزان گرامی!

کوئی متقی نماز کے بغیر متقی نہیں ہو سکتا۔
کوئی ولی نماز کے بغیر ولی نہیں ہوسکتا۔
کوئی قطب نما ز کے بغیر قطب نہیں ہو سکتا۔
حضورؐ نے بھی نماز ادا کی۔
صحابۂ کرام نے بھی نماز کی پابندی کی۔
تابعین نے بھی نماز پر دوامت کی۔
تبع تابعین نے بھی ترک نماز نہیں کی۔
ائمۂ مجتہدین نے بھی نماز کو پکڑے رکھا۔
اولیاء کرام نے بھی نماز کو اختیار کیا۔
کوئی بتا دو! کہ کسی نبی نے نماز ترک کی ہو اور نبی بن گیا۔
کوئی ولی نماز کے بغیر ولی ہو گیا ہو۔
کوئی قطب نماز کے بغیر قطب بن گیا ہو۔
کوئی ابدال نماز کے بغیر ابدال بن گیا ہو۔
کوئی امام نماز کے بغیر امام بن گیا ہو۔
آپ بتا ہی نہیں سکتے! اس لئے کہ یہ عمل محبوب عمل ہے۔

نماز سے قلوب کو نورانیت ملتی ہے۔
نماز سے ایمان و عقائد کو قوت ملتی ہے۔
نماز زندگی کو آفتاب سے زیادہ روشن کر دیتی ہے۔
نماز اس وقت چراغ کا کام کرتی ہے جہاں چاروں سمت اندھیرا ہی اندھیرا ہو۔ یعنی قبر میں۔
نماز مصائب و پریشانی کو ٹال دیتی ہے۔
نماز سے انسان افضل و ارفع ہوتا ہے۔
کیوں نہ ہو! نماز ہے ہی ایسا تحفہ جس سے شیطان کا منہ کالا ہو جاتا ہے۔

 برادران ملت!

 نماز ہی سے فیصلہ ہوتا ہے کون متقی، کون انسان، کون شیطان، کو ن مسلم کون غیر مسلم۔ یہ امتیاز نماز سے ہی ظاہر ہوتا ہے۔

 میں بغیر حوالے کے بات نہیں کہتا۔ مشکوٰۃ شریف اٹھاؤ، صفحہ ۵۸ پر دیکھو۔ حضرت جابرؓ روایت فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بَیْنَ العَبْدِ وَ بَيْنَ الكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاة.ترجمہ: بندے اور کفر کے درمیان صرف نماز کا ترک کرنا ہے۔

 مشکوٰۃ شریف کے اسی صفحہ پر دیکھیں! اور ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: العَہْدُ بَیْنَنَا وَ بَیْنَہُمْ الصَّلَاۃ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَر.

ترجمہ: ہمارے اور منافقین کے مابین عہد ہے وہ نماز ہے۔ پس جس نے اس کو ترک کیا گویا اس نے کفر کیا۔

 حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ:

مَنْ تَرَكَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّداً فَقَدْ كَفَر.

ترجمہ: جس نے جان بوجھ کر نماز کو ترک کیا گویا اس نے کفر کیا۔

 ان تمام احادیث کی روشنی میں نماز کی اہمیت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے۔ اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتایا ہے، الفاظ یوں ہیں: قُرَّۃُ عَیْنِي فِي الصَّلَاة.

 جب بندہ رب کائنات کے دربار میں اپنا سر خم کرتا ہے تو محسن کائنات کی آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور تارک الصلاۃ سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی ہے۔ جس نے بھی محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی گویا اس کی دنیا و آخرت برباد ہے۔

 جب بندہ نماز کو ادا کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اپنے تمام انوار و برکات کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں اور بندہ رحمت خداوندی کا محور بن جاتا ہے۔

کسی شاعر نے کہا: ع

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

 شیدائیان اسلام!

 قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال ہوگا۔اس دن کسی کا کوئی نہ ہوگا۔ انسان خود کے پسینے میں ڈوبتے ہوں گے۔ ہر شے نفسی نفسی پکارے گی۔ اس وقت سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا۔

 ماہِ رسالت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

أوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ الصَّلَاة، فَإن صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِهٖ و۔ إنْ فَسَدَتْ فَسَدَتْ. (طبراني)

ترجمہ: یوم قیامت میں سب سے پہلے ( حقوق اللہ میں) نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست نکل آئی تو تمام اعمال درست اور اگر نماز ہی خراب نکلی تو سارے اعمال بے کار ہیں۔

کسی شاعر نے کہا: ع

روز محشر کہ جاں گداز بود
اولیں پرسشِ نماز بود

جب نماز درست ہے تو اعمال قبول ہوں گے۔
حج بھی قبول ہوگا۔
زکوٰۃ بھی قبول ہوگی۔
روزہ بھی قبول ہوگا۔
اور دیگر اعملِ صالحہ بھی قبول ہوں گے۔

اور اگر نماز ہی درست نہ ہو تو سختی کے ساتھ امتحان ہوگا۔ اللہ ہم سب کا امتحان آسان فرمائے۔

 جاں نثاران ماہ رسالت!

 آج کے دور میں بہت خوبصورت اور عالیشان مسجدیں تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس میں اللہ کو یاد کرنے والے بہت کم نظر آتے ہیں، اس کو آباد کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض جگہ تو عالیشان مسجدیں ویران اور قبرستان نظر آتی ہیں۔ ع

پہلے مسجدیں تھیں کچی تو پکے تھے نمازی
آج مسجدیں ہیں پکی تو کچے ہیں نمازی

 نماز کی اہمیت ہرمسلمان کے قلب میں ایسی ہونی چاہیے جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قلب میں تھی۔ حضرت عمر فاروق خلیفۂ دوم امامت فرمارہے ہیں۔ آپ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ آپ زخمی ہوگئے۔ فوراً عمر فاروقؓ نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لئے آگے بڑھادیا۔ اور امت مسلمہ کو یہ سبق دیا کہ میری فکر مت کرنا۔ نماز کی فکر کرنا۔ اس لیے کہ ع

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔ جس کی بنا پر غشی طاری ہوجاتی۔ غشی کے ازالے کے بعد کسی نے عمر فاروقؓ سے کہا کہ نماز کا وقت آگیا ہے۔

عمرؓ فرماتے ہیں: نَعَمْ! لا حَظَّ فِي الإسْلَام لِمَن لا صَلَاةَ لَہٗ۔

ترجمہ: نماز ضرور پڑھنی ہے۔ جس نے نماز نہیں پڑھی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔

 برادران اسلام!

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الصلاۃُ عِمادُ الدِین فَمَنْ أقامَھا أقامَ الدِین وَ مَنْ ھَدَمَھَا ھَدَمَ الدِیْن۔

ترجمہ: نماز دین کا ستون ہے۔ جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا۔ اور جس نے نماز کو منہدم کیا اس نے دین کو منہدم کیا۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسی حالت میں نماز ادا کی اور فرمایا کہ جب میں نماز پڑھنے سے عاجز ہوگیا ہوں تو زندہ رہنے میں کوئی لطف نہیں۔

 ایسی زندگی میں کیا مزہ جس سے احکام الٰہی میں کوتاہی آجائے۔

کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ:

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 صحابۂ کرام کے اندر شوق نماز بہت زیادہ تھا، جس کی بنا پر ان کو رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سرٹیفکیٹ ملا۔

 بے نمازی کو تو زمین بھی پسند نہیں کرتی کہ یہ میرے اندر دفن ہوجائے۔ اس پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت ہے۔ ایک بڑھیا کا تیل زمین پر گر جاتا ہے، تو وہ دربار امیر المؤمنین میں حاضر ہوتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ زمین نے میرا تیل چوس لیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک پرزا لیتے ہیں، اس پر کچھ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پرزے کو اس جگہ رکھنا جہاں تمہارا تیل گرگیا۔ وہ بڑھیا ایسا ہی کرتی ہے۔ فوراً زمین پورا تیل اگل دیتی ہے۔ تمام لوگ حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ یہ کیسا ماجرا ہے۔

 اس پرزے کو کھول کر دیکھتے ہیں تو اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اے زمین! اس بڑھیا کا تیل فوراً واپس کردے ورنہ میں تجھ میں ایسے شخص کو دفن کروں گا جو تارک الصلاۃ ہوگا۔

 حضرات سامعین کرام!

 ہمیں اس عبرت ناک واقعہ سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے کہ زمین تارک الصلاۃ کو پسند نہیں کرتی۔ اگر ہم نماز چھوڑیں گے تو قبر میں جانے کے بعد ہمارے ساتھ زمین کیا معاملہ کرے گی۔

 اللہ تعالیٰ ہم سب کو قبر کے عذاب سے محفوظ فرمائے اور نماز کا ہمیں پابند بنائے۔

میں اس شعر کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرتا ہوں:

پڑھ نماز پنجگانہ، نہ کر کوئی بہانہ
اس میں ہے تیری جنت ورنہ دوزخ ہے تیرا ٹھکانہ

و ما علينا إلا البلاغ


  • اطلاع پانے کے لئے ہمارے ٹیلیگرام چینل کو سبسکرائب کریں، اور دوستوں کے ساتھ اشتراک بھی کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے