سیرت النبیؐ کے موضوع پر تقریر|سیرت محسن انسانیت ﷺ | ایمان افروز تقاریر

سیرت النبیؐ کے موضوع پر تقریر

ماخوذ از: ایمان افروز تقاریر (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)

سیرت محسن انسانیت ﷺ

وہ دانائے سُبُل، ختمُ الرُسُل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا، فروغ وادیٔ سینا

الحمد للہ رب العالمین، و الصلاۃ و السلام علیٰ سید المرسلین، سیدنا و مولانا محمد ﷺ، و علیٰ اٰلہ و أصحابہ أجمعین۔ أما بعد!

فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ في القراٰن المجید و الفرقان الحمید، أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، ’’و مآ أَرْسَلناکَ إلا مُبشِّراً و نَذیراً۔‘‘ (پارہ۱۵، رکوع۱۲)

میرا منھ اور سرکار مدینہ کی ثناء خوانی
مجھے معلوم ہے اپنے سخن کی تنگ دامانی

برادرانِ اسلام اور قابل قدر شخصیات!

  میں اس متبرک اور پرامن بزم میں شمعِ رسالت کی ضیاءِ حیات کو روشن کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ میری یہ بساط نہیں کہ ماہِ رسالت ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر لب کشائی کرسکوں۔ لیکن پھر بھی آپ جیسے عظیم المرتبت شخصیات کے روبرو سیرت النبی ﷺ کو موضوع گفتگو بناتا ہوں، تاکہ خود کی اصلاح ہوجائے۔ ورنہ کسی کی کیا مجال کہ سیرت النبیؐ کا احاطہ کرسکے۔ جیسا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا شعر ہے جو انہوں نے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے فرمایا تھا:

ما إن مَدَحْتُ مُحَمداً بِمَقالتي
و لٰکِنْ مَدَحْتُ مقالتي بِمُحَمّد

ترجمہ: میری بساط نہیں کہ اپنے اشعار سے مدحت رسول کا حق ادا کرسکوں۔ ہاں! میں نے ذکر رسول ﷺ سے اپنے اشعار کی ضرور مدح سرائی کی ہے۔

  کسی اردو شاعر نے کہا ہے:

قلم میرا قاصر، زباں میری عاجز، محمد کی عظمت بتاؤں میں کیسے
ہیں محبوب رب، امام الرسل، وہ فضائل مکمل سناؤں میں کیسے

ملت اسلامیہ کے دھڑکتے دلو!

  بعثت نبوی ﷺ سے قبل پورے جزیرۃ العرب پر کوئی حکمراں حکمرانی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اور نہ نظام مکمل تھا۔ عدالت و انسانیت، امانت و دیانت، عصمت و عفت، صلاح و تقویٰ، زہد و ورع کا جنازہ نکل چکا تھا۔ شرافت و عزت کی کلیاں مرجھا چکی تھیں۔ شرک و ضلالت کی تاریکی ہر سمت سے آرہی تھی۔ نفرت، ظلمت، شقاوت اور عداوت کا دور دورہ تھا۔

  کسی اردو شاعر نے کیا ہی خوب منظر کشی کی ہے!

بدی کا زور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
فساد و ظلم کی چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
ذراسی بات پر تلوار چل جاتی تھی آپس میں
تو پھر جنگ آتی ہی نہ تھی دو چار کے بس میں
اگر لڑکی کی پیدائش کا گھر میں ذکر سن لیتے
تو اس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کردیتے
غرَض جو بھی برائی تھی سب ان میں پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں میں، گھر گھر بے حیائی تھی
مگر اللہ نے جب ان پر اپنا رحم فرمایا
تو عبد اللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا

  قدرتِ خداوندی نے اس پرفتن دور میں شیدائیانِ لات و عُزّیٰ کو رشد و ہدایت کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے، وحشت و بربریت کو ختم کرنے کے لئے فاران کی چوٹیوں سے آفتابِ رسالت ﷺ کو طلوع فرمایا۔

  مکہ میں طلوع آفتاب کے وقت آفتابِ رسالت، آمنہ کے لال، عبد اللہ کے لختِ جگر، عبد المطلب کے نورِ نظر دوشنبہ کو اپنے تمام انوار و برکات کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ آپ ایسے وقت میں پیدا ہوئے جس سے لیل و نہار دونوں نے فیض حاصل کیا۔

سبحان اللہ، سبحان اللہ

ایک عجیب ماحول ہے۔ نور ہی نور نظر آرہا ہے۔

پورے مکہ میں انوار الٰہی کا نزول ہورہا ہے۔

ظلمت کدۂ و کفر کدہ میں ایک تہلکہ مچ گیا ہے۔

لات و منات اور عزیٰ منھ کے بل گر پڑے۔

گلزار ہستی میں ایک عجیب رونق پیدا ہوگئی۔

چاروں سمت سے بس ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی۔

ایک والا آگیا۔ ایک والا آگیا۔

ع

وہ آگئے تو آگیا دنیا میں انقلاب
اجڑا ہوا چمن تھا گلستاں کرگئے

میرے قلب و جگر کے ساتھیو!

  حضرت آمنہ خود فرماتی ہیں کہ میرا نورِ نظر، لختِ جگر اس وقت کلام تو نہیں کر سکتا تھا لیکن انگشتِ شہادت سے کچھ اشارہ کر رہا تھا۔ وہ اشارہ کیا تھا؟ وہ اشارہ ’’أشھد أن لا إلٰه إلا اللّٰه‘‘ کا اشارہ تھا۔ قلبِ آمنہ میں خوشی و مسرت کی حد نہ رہی جب محمدؐ کی اداؤں کو دیکھا۔ لیکن کچھ غم کے اثرات بھی تھے۔ فرماتی ہیں کہ کاش آج عبداللہ ہوتے تو اپنے لخت جگر کو جو چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، دیکھ کر کتنے خوش ہوتے اور کھلونے وغیرہ لاتے۔

 غیب سے آواز آتی ہے کہ اے آمنہ! فکر مت کرو! میں اس کا رب ہوں، مربی بھی، استاذ بھی، سب کچھ میں ہوں اس کا۔

اگر یہ بچہ کھلونا مانگے تو چاند کو کھلونا بنا دوں گا۔

اگر سیر و تفریح کو دل چاہے تو معراج پہ بلا لوں گا۔

اگر کوئی شہادت طلب کرے تو پتھروں سے بھی کلمہ پڑھا دوں گا۔

اس کے بعد عبدالمطلب آتے ہیں، سوال کرتے ہیں۔

اے آمنہ! کوئی نام سوچا ہے؟ آمنہ کہتی ہیں کہ جب سے یہ بچہ پیدا ہوا ہے نہ زبان پر قابو ہے نہ قلب پر۔ ذہن میں کئی نام آتے ہیں، لیکن قلب میں یہ دستک ہوتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

 عبدالمطلب نے کہا: سبحان اللہ، سبحان اللہ! اے آمنہ! اس نام کو اور اس نام کا بچہ میں نے پورے جزیرۃ العرب میں نہ دیکھا اور نہ سنا۔ آمنہ کہتی ہیں کہ آپ نے تو نام نہیں سنا ہوگا۔ اس جیسا بچہ بھی پورے جزیرۃ العرب ہی کیا پوری دنیا میں موجود نہ ہوگا۔ یہ وہ بچہ ہے جس کی تعریف خود رب کائنات کرتا ہے ’’وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘

ملت اسلامیہ کے پاسبانو!

 آپ کا نام محمد ہی نہیں تھا، بلکہ عنوان بن گیا تھا۔ آپ کو تمام محاسن کا ایک خوبصورت گلدستہ بنا دیا تھا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر

حضرت آدم علیہ السلام کی صورت تھی
حضرت شیث علیہ السلام کی معرفت تھی
حضرت نوح علیہ السلام کی شجاعت تھی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاق تھے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان تھی
اسحاق والی رضا، صالح والی فصاحت تھی
لوط والی حکمت، یعقوب والی بشارت تھی
موسیٰ والا جلال، ایوب والا صبر تھا
یونس والی اطاعت یوشع والا جہاد تھا
داؤد والی خوشحالی دانیال والی محبت تھی
الیاس والا وقار یحییٰ والی عصمت تھی اور عیسیٰ والا زہد تھا۔

میرا نبی سارے انبیاء علیہم السلام کا ایک خوبصورت گلدستہ تھا۔ اس کے بعد، ع

تقدیر حلیمہ کی جاگی رحمت کے بادل چھاتے ہیں
گھر جگمگ جگمگ ہوتا ہے تشریف محمد لاتے ہیں

 حضرت حلیمہ پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر دبلی پتلی سواری پر سوار ہوتی ہیں۔ اس کمزور سواری کو محمد بن عبداللہ کی برکت سے قوت عطا ہوتی ہے، اور قافلہ والوں کی سواریوں سے آگے نکل جاتی ہے۔ سبھی حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ حلیمہ کی اتنی کمزور سواری کو اتنی قوت و طاقت کہاں سے مل گئی کہ اتنی تیز چل رہی ہے۔

حلیمہ جب گھر پہنچتی ہیں تو تمام گھر انوار و برکات سے پُر تھا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ حلیمہ کی شان

کسی شاعر نے کہا ہے، ع

محمد کی کہلائی مادر حلیمہ
تیری شان اللہ اکبر حلیمہ
تیری بکریوں کو وہ پانی پلائے
جو ہے ساقیٔ آبِ کوثر حلیمہ

برادران اسلام!

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شباب کا دور بھی عجیب ہے۔ محسنِ انسانیت ﷺ اپنے چچا کے ہمراہ تجارت کی غرض سے شام کا سفر فرمارہے تھے۔ راستے میں ایک راہب نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، اور تورات کی تمام علامات پر غور کیا۔ تو ابو طالب سے کہا کہ اس بچے کو آگے مت لے جاؤ۔ یہیں سے واپس ہو جاؤ۔ جو علامات میں نے تورات میں پڑھی تھیں وہ تمام اس کے اندر پائی جاتی ہیں۔ شاید کہ یہ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو آخری نبی ہیں۔ ابو طالب وہیں سے واپس روانہ ہو گئے اس سفر میں ابو طالب کو بہت نفع ہوا۔

حضور ﷺ کا حسن و جمال

 محسن انسانیت ﷺ جس طرح اخلاقاً و کرداراً خوبصورت تھے، اسی طرح حسن و جمال کے اعتبار سے بھی خوبصورت تھے۔

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر ان مصر کی عورتوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں۔ اگر وہ محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتیں تو اپنے دل ہی کاٹ لیتیں۔ اگر میں حسنِ صفاتی اور جمال و کمالِ ذاتی بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر یاد آتا ہے: ع

بَلَغَ العُلیٰ بِکَمَالِهٖ
کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمَالِهٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِهٖ
صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ اٰلِهٖ

 اس کے بعد کوئی سیرت نگار، کوئی ادیب کیسے جرأت کر سکتا ہے کہ اس عنوان پر بحث کرے۔

 جب شمس و قمر نے خاتم النبیین، ختمُ الرُسُل، آقائے کل اور ہادیٔ سبل کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ، ع

صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھاگئے

شیدائیانِ اسلام!

 محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے عہدۂ نبوت و رسالت پر فائز ہوتے ہی اعلان حق کردیا۔ لوگوں کو توحید اور ایمان سمجھایا، شرک و کفر کو مٹاکر وحدت خداوندی کا بول بالا کیا۔ عداوت و نفرت کو صداقت و محبت میں تبدیل کیا۔ شیطانیت و ظلمت کی جگہ ایمان و ضیا کو لایا۔ آپ نے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں صحابۂ کرام کی مقدس جماعت تیار ہوئی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تربیت کا یہ کمال تھا کہ:

آپ نے شرک کدہ کو توحید کدہ بنادیا۔

کفر کدہ کو عبادت کدہ بنادیا۔

راہزن کو راہبر بنایا۔

پورے جزیرۃ العرب کو گلستاں بنایا۔

اسلام کا پرچم چاروں سمت لہراتے ہوئے نظر آنے لگا۔

درسگاہ رسالت سے ایک مقدس گروہ نے تربیت پائی اور پوری دنیا پر چھاگئے۔

انہوں نے حق کو پھیلایا، باطل کو مٹایا۔

اسلام کے غیور مسلمانو!

 جتنے بھی سیرت نگاروں نے، مقرروں نے، خطیبوں نے، دانشوروں نے، ادیبوں نے سیرت رسول اکرم ﷺ پر اپنی وسعت کے مطابق کوششیں کیں، لیکن آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ:

لا يُمْكِنُ الثَّنَاءُ كَمَا كَانَ حَقَّهٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر

 اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو حیات طیبہ کو نمونہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر نیک کام کی ہمت دے۔ آمین

وما علینا الا البلاغ


  • اگلی تقریر کا نوٹیفیکیشن پانے کے لئے ٹیلیگرام چینل کو سبسکرائب کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے