نو مسلموں کے احکام قسط ۱۴| نکاح سے متعلق احکام| اسلام میں کفاءت| کفار کا کیا ہوا نکاح

نومسلموں کے احکام، قسط:۱۴

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
نکاح سے متعلق احکام
نو مسلموں کے لئے کفو کا خاص اہتمام
اسلام میں کفاءت
حالت کفر کا دیا ہوا مہر کافی ہے
کفار کا کیا ہوا نکاح درست ہے
محرم سے کیا گیا نکاح
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۴
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۴

 

نکاح سے متعلق احکام

نو مسلموں کے لئے کفو کا خاص اہتمام

  جس طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر اعتبار سے مسلم لڑکی کے لئے ایک نیک اور دیندار لڑکا تلاش کیا جائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ نومسلمہ لڑکی کی شادی بھی ایسے لڑکے سے کی جائے جو شریعت کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کا بھی اہتمام کرتا ہو۔ لہٰذا نومسلم لڑکی یا لڑکے کے لئے ایسے رشتے کا انتخاب کرنا چاہیے جو صرف عقیدہ ہی کے اعتبار سے مسلمان نہ ہو، بلکہ اس کی عملی زندگی بھی صحیح اسلام کا نمونہ ہو۔ اس کے علاوہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو شریعت کی پابندی اس کے اندر نسبتاً زیادہ رہتی ہے۔ لہٰذا کسی نیک عورت کے لئے شرم کی بات ہے کہ اس کا شوہر فاسق و فاجر و بدکار ہو۔ چنانچہ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں: لأنہ من أعلی التفاخر، و المرأۃ تعیر بفسق الزوج فوق ما تعیر بنسبہ۔ (ہدایہ: ج۲ ص۳۰۱) کیونکہ امانت و تقویٰ سب سے زیادہ عزت و فخر کی چیز ہے اور عورت کے لئے شوہر کے کم نسب ہونے میں اتنی عار اور شرم کی بات نہیں جتنی کہ اس کے فاسق یعنی بدکار و بےعمل ہونے میں ہے۔

اسلام میں کفاءت

  عام فقہاء کے نزدیک نومسلم شخص قدیم الاسلام کا کفو ہوسکتا ہے۔ اس میں عرب و عجم کی بھی تخصیص نہیں کرتے ہیں۔ عربوں کے بارے میں احناف متفق ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے کفو ہیں۔ چاہے نومسلم ہو یا قدیم الاسلام۔ البتہ عجمیوں کے بارے میں قدرے تفصیل ہے کہ جس شخص نے خود اسلام قبول کیا اور اس کا باپ مسلمان ہو تو وہ ایسے شخص کا کفو نہیں ہوسکتا جس کے باپ دادا یا اس سے اوپر تک کے لوگ مسلمان ہوں۔ ہندیہ میں ہے: من أسلم لہ أب واحد في الإسلام لا یکون کفواً من لہ أبوان فصاعداً في الإسلام۔ (ہندیہ: ج۱ ص۲۹۰) آگے لکھتے ہیں، اگر کسی کے یہاں دو پشت سے اسلام ہو، یعنی باپ دادا دونوں ہی مسلمان ہوں تو وہ ان تمام مسلمانوں کا کفو ہے جن میں پشتہا پشت سے اسلام چلا آرہا ہے: و من لہ أبوان في الإسلام کان کفواً لامرأۃ لھا ثلاثۃ اٰباء في الإسلام أو أکثر۔ (ہندیہ: ج۱ ص۲۹۰)

حالت کفر کا دیا ہوا مہر کافی ہے

  مہر کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جو چیز غیر مسلم کے یہاں مہر میں دی جاسکتی ہے، اگر حالت کفر میں شوہر نے بیوی کو وہ مہر دے دیا جو متعین ہوا تھا تو وہ کافی ہوگا۔ اور اسلام قبول کرنے کے بعد مہر کا اعادہ نہیں کرایا جائے گا۔ چاہے مہر حرام چیز ہو یا حلال؛ اس لئے کہ اگر اعادہ کا حکم دیں گے تو یہ شوہر پر بہت شاق گذرے گا۔ اور ممکن ہے کہ ایسا حکم دینا اسلام سے تنفر کا سبب بھی بن جائے۔ گویا اس کا حکم اس طرح ہوگا جس طرح کہ فرائض و واجبات اس سے معاف کردیئے گئے ہیں۔ اگر مہر کوئی ایسی حلال چیز ہے جو اسلام میں مہر بن سکتی ہے، اس صورت میں اگر حالت کفر میں نہیں دیا تھا تو اسلام لانے کے بعد وہی مہر لازم رہے گا جو حالت کفر میں طے کیا گیا تھا: و إن لم یتقابضا و کان المسمّٰی حلالاً وجب ما سمّیاہ؛ لأنہ مسمی صحیح في نکاح صحیح فوجب کتسمیۃ المسلم۔ (الشرح الکبیر: ج۲۱ ص۱۴)

کفار کا کیا ہوا نکاح درست ہے

  کفار نے آپس میں جو نکاح کرلیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ آیا وہ نکاح اس حالت پر باقی رہے گا یا قبول اسلام کے بعد تجدید نکاح کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں کہ کفار کا کیا ہوا نکاح درست ہے۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں تو وہ اسی نکاح پر باقی رہیں گے: أنکحۃ الکفار صحیحۃ، یقرّون علیھا إن أسلموا۔ آگے فرماتے ہیں: أو تحاکموا إلینا إذا کانت المرأۃ ممن یجوز ابتداء نکاحھا في الحال، و لا ینظر إلیٰ صفۃ عقدھم و کیفیتہ، و لا یعتبر لہ شروط أنکحۃ المسلمین من الوطي، و الشھود، و صیغۃ الإیجاب و القبول و أشباہ ذٰلک۔ (المغني لابن قدامۃ: ج۷ ص۱۵۱)

  عبارت بالا سے واضح ہوگیا کہ ان کا نکاح صحیح ہوگا اور یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ نکاح کیسے ہوا۔ یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہیں ہوگا جن کی رعایت مسلمانوں کے نکاح میں کی جاتی ہے۔ جیسے گواہان کا ہونا، ایجاب و قبول کا ہونا وغیرہ۔

محرم سے کیا گیا نکاح

  لیکن یہ دیکھا جائے گا کہ اس کا نکاح جس سے ہوا ہے وہ اس کا محرم نسبی یا سببی تو نہیں ہے، یا لڑکے نے کسی شادی شدہ لڑکی سے تو نکاح نہیں کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسلام کے بعد ان کے درمیان تفریق کرادی جائے گی۔ اس لئے کہ اسلام اس قسم کے نکاح کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ چنانچہ المغنی میں ہے: قال ابن عبد البر: أجمع العلماء علیٰ أن الزوجین إذا أسلما في الحال معاً أن لھما مقاماً علیٰ نکاحھا ما لم یکن بینھما نسب و لا رضاع، و قد أسلم خلق کثیر في عھد رسول اللّٰہ ﷺ عن شروط النکاح و لا کیفیتہ۔ و ھذا أمر عرف بالتواتر و الضرورۃ فکان یقیناً، و لکن ینظر في الحال فإن کانت المرأۃ علیٰ صفۃ لا یجوز لہ ابتداء نکاحھا کإحدی المحرمات بالنسب أم السبب أو المعتدۃ و المرتدۃ و الوثنیۃ و المجوسیۃ و المطلقۃ ثلاثاً لم یقر۔ (المغني لاب قدامہ: ج۷ ص۱۰۱) علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر میاں بیوی نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا تو ان کا نکاح برقرار رکھا جائے گا۔ جب کہ ان کے درمیان نسبی یا رضاعی حرمت کا رشتہ نہ ہو اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانۂ مبارک میں ایک کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا اور ان کے نکاحوں پر انہیں باقی رکھا گیا۔ اور آپ ﷺ نے ان کے نکاح کی کیفیت و شرائط کے سلسلے میں بھی دریافت نہیں فرمایا۔ یہ ایسا معاملہ ہے جو تواتر و ضرورت سے ثابت ہے۔ اس لئے یقینی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ جس وقت عورت کی شادی ہوئی تھی، اس وقت بھی وہ عورت اس مرد کے لئے حلال تھی یا نہیں۔ مثلاً محرمات نسبی، یا محرمات سببی، یا معتدۂ غیر، مرتدہ، وثنیہ، مجوسیہ اور مطلقہ ثلاثہ تو نہیں تھی۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بات پائی گئی تو نکاح برقرار نہیں رہے گا۔

  عبارت بالا سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن عورتوں سے اسلام میں مناکحت کی اجازت نہیں ہے اگر حالت کفر میں نومسلم شخص ان میں سے کسی سے نکاح کرچکا ہے تو اگرچہ یہ نکاح ان کے یہاں درست ہے، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے درمیان تفریق کرادی جائے گی۔ (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے