نو مسلموں کے احکام قسط ۲ | قبول اسلام کے وقت کے احکام | نو مسلموں کی ہجرت اور مسلمانوں کی ذمہ داری

نو مسلموں کے احکام، قسط:۲

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
قبول اسلام کے وقت کے احکام
نو مسلموں کی ہجرت اور مسلمانوں کی ذمہ داری
ہجرت کا حکم
ہجرت واجب ہونے کی صورت
ہجرت کب واجب نہیں؟
ہجرت کب مستحب ہے؟
قبول اسلام سے کون سے حقوق معاف ہوتے ہیں؟
حقوق اللہ کا حکم
حقوق العباد کی تقسیم اور ان کا حکم
نو مسلم کب شریعت کا مکلف ہوگا؟
نو مسلموں کے احکام قسط ۲
نو مسلموں کے احکام قسط ۲

 

قبول اسلام کے وقت کے احکام

نو مسلموں کی ہجرت اور مسلمانوں کی ذمہ داری

ابتداء اسلام میں جب نبی ﷺ کو کفار و مشرکین کی جانب سے طرح طرح کی اذیتیں دی جانے لگیں تو آپؐ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ اور جو صحابۂ کرام ؓ اسلام قبول کر چکے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ مدینہ کوچ کرگئے۔ ظاہر ہے، یہ تمام بے سروسامان ہی وہاں کے لئے رخصت ہوئے تھے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ لہٰذا آپؐ نے اخوت اسلامی کے تحت ہر ایک انصاری کے پاس ایک مہاجر کو بھیج دیا۔ اور آپس میں انہیں بھائی بھائی قرار دیا، جس کی بنیاد پر ان کے درمیان اسی طرح معاملہ ہوتا تھا جس طرح دو حقیقی بھائیوں کے مابین ہوتا ہے۔ روسول اللہ ﷺ نے جو طریقہ بتایا اور انصار و مہاجرین کے درمیان جو تعلق و ربط پیدا کیا، وہ آج بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ اور مسلمانوں کے لئے ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جب کبھی تاریخ میں کسی نو مسلم کی ہجرت ہو تو وہ اسے مد نظر رکھ کر عمل کرسکیں۔

چنانچہ کوئی غیر مسلم شخص جب اسلام قبول کرلیتا ہے تو اپنے آبائی مذہب اور اکثر اوقات کے لئے والدین اور اعزہ و اقرباء کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ گویا اس کی ہجرت ہوتی ہے، کیونکہ وہ محض اسلام کی خاطر مجبور ہوتا ہے کہ تمام دنیوی رشتوں ناطوں کو توڑ کر اپنے اسلام کو محفوظ رکھ سکے اور اپنی تمام خواہشات و جذبات کا عملاً گلا گھونٹ دیتا ہے۔ ان سب کے باوجود بھی اگر ہم نو مسلموں سے غیروں والا برتاؤ کریں، اور ہمدردی و غمخواری سے پیش نہ آئیں اور اسلامی رواداری کا پاس و لحاظ رکھ کر ان کی مدد نہ کریں تو پھر ہم کیسے مسلمان ہیں؟ اور ہماری اسلامی تعلیمات کیسی ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کا بڑا مرتبہ و مقام بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’فالّذین ھاجرو و أخرجوا من دیارھم و أوذوا في سبیلي و قاتلوا و قتلوا لأکفرنّ عنھم سیّئاتھم و لأدخلنھم جنات تجري من تحتھا الأنھار، ثواباً من عند اللّٰہ و اللّٰہ عندہ حسن الثواب‘‘ (آل عمران: ۱۹۵) پس جو لوگ وطن سے چھوٹے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے، اور لڑے بھی اور قتل بھی کئے گئے، تو ان کے سب گناہ معاف کردوں گا، اور ایسے باغات میں ضرور داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ثواب انہوں نے اللہ کے دربار سے پالیا اور اچھا بدلۂ و اجر تو وہی ہے جو اللہ کے یہاں سے کسی کو مل جائے۔

یہ ایک مہاجر کا انعام اور بدلہ ہے جو اسے قیامت کے دن ملے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ان کی ذہنی اذیت کو دور کریں اور انہیں اسلام سے متنفر ہونے سے بچائیں۔ اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں جو انصار نے مہاجرین کے ساتھ کیا تھا۔ الغرض ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں کہ اسلامی تعلیمات کا ایسا نقش ان کے ذہن و دماغ پر ثبت ہوجائے کہ جس کے ذریعےوہ اپنے خاندان اور دیگر ملنے والوں کو بھی اسلام کی دعوت دے سکیں۔

ہجرت کاحکم

نو مسلم شخص کے لئے شرعاً کن صورتوں میں ہجرت لازم ہوگی اور کن صورتوں میں نہیں؟

ہجرت اور مہاجرین کی قرآن و حدیث میں بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ جیسا کہ کچھ مثالیں پیچھے گذر چکی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ہجرت سے پچھلے تمام گناہ (یعنی حقوق اللہ)معاف ہوجاتے ہیں: ’’أن الإسلام یھدم ما کان قبلہ و أن الھجرۃ تھدم ما کان قبلھا‘‘(مسلم: ج۱ص۷۶ کتاب الإیمان)

در اصل ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام جانے کو کہتے ہیں۔ چونکہ اب باضابطہ کسی ملک پر دار الکفر ہونے کا حکم نہیں، سوائے چند ملکوں کے، جہاں کمیونسٹوں کی حکومت ہے۔ مثلاً بلغاریہ، وہاں مسلمانون کا کوئی تشخص نہیں ہے۔ اس لئے وہاں سے نو مسلموں کو ہجرت کرنی ہوگی۔

ہجرت واجب ہونے کی صورت

ہجرت کی پہلی صورت یہ ہے جس میں نو مسلم کے لئے واجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے علاقہ کو ترک کردے جہاں اسے اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ دار الکفر سے د ار الاسلام ہجرت کرنے کا حکم بھی اسی لئے ہے کہ وہاں آزادی سے اسلام پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو دار الاسلام چلا آئے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی نے بھی ایسی صورت میں ہجرت کو واجب قرار دیا ہے: ’’و ھو من یقدر علیھا، و لا یمکنہ إظھار دینہ أو لا تمکنہ إقامۃ واجبات دینہ مع المقام بین الکفار، فھٰذا تجب علیہ الھجرۃ لقولہ تعالیٰ: إن الذین توفاھم الملائکۃ ظالمي أنفسھم قالوا فیم کنتم، قالوا کنا مستضعفین في الأرض، قالوا أ لم تکن أرض اللّٰہ واسعۃ فتھاجروا فیھا فأولآئک مأواھم جھنم و ساءت مصیراً‘‘  (المغني ج۱۰ ص۵۱۴)

ہجرت کب واجب نہیں؟

علامہ ابن قدامہ نے ایک صورت اور بیان کی ہے جس میں ہجرت واجب نہیں ہے۔ مثلاً کوئی شخص بڑھاپے میں قبول اسلام کی وجہ سے یا کسی مرض وغیرہ کی بنا پر ہجرت کرنے سے معذور ہے۔ غرض اگر کوئ ایسا سبب ہے جس کی وجہ سے ہجرت کرنے سے عاجز ہو تو اس پر ہجرت واجب نہیں۔’’الثاني من لا ھجرۃ علیہ و ھو من یعجز عنھا إما لمرض أو إکراہ علی الإقامۃ أو ضعف من النساء و الولدان و شبھھم فھذا لا ھجرۃ علیہ‘‘ (المغني :ج۱۰ ص۵۱۴) علامہ ابن قدامہ کا استدلال اس آیت سے ہے: ’’إلا المستضعفین من الرجال والنساء و الولدان لا یستطیعون حیلۃ و لا یھتدون سبیلاً فأولآئک عسی اللّٰہ أن یعفو عنھم و کان اللّٰہ عفواً غفوراً‘‘ (النساء: ۹۹:۸۹) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ راستوں سے انجان اور بے سہارا ہوں، وہاں سے کوچ کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہوں، دل سے مسلمان ہوں، اور اسلام ظاہر نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردے گا۔ اور ان سے قیامت میں ہجرت نہ کرنے کا مواخذہ بھی نہ ہوگا۔

ہجرت کب مستحب ہے؟

نو مسلم اپنے خاندان یا قبیلے کے ساتھ مسلمان ہوا ہو اور اسے کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو کہ وہ اسلام کے واجبات کو مکمل طور سے ادا کرسکیں تو اگرچہ وہ ہجرت کرنے پر قادر ہو، مگر ایسی صورت میں ہجرت کرنا محض مستحب ہوگا واجب نہیں۔’’و الثالث من تستحبّ لہ و لا تجب علیہ، و ھو من یقدر علیھا لکنہ یتمکن من إظھار دینہ و إقامتہ في دار الکفر، فتستحبّ لہ‘‘  (المغني: ج۱۰ ص۵۱۵) اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہونے کے باوجود مکہ سے ہجرت نہیں فرمائی۔

قبول اسلام سے کون سے حقوق معاف ہوتے ہیں؟

حقوق اللہ کا حکم

  اسلام قبول کرنے سے سابقہ تمام حقوق اللہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور ان کی قضا اور بجا آوری نو مسلم پر لازم نہیں ہوتی ہے۔مثلاً ظہار کا کفارہ، نذر کا کفارہ، قسم وغیرہ کا کفارہ، یا عبادات میں نماز و زکوٰۃ اور روزہ کی قضا وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں؛ اس لئے رحمت الٰہی سے یہ تمام معاف ہوجاتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’الإسلام یھدم ما کان قبلہ‘‘(مسلم شریف:ج۱ ص۷۶) حقوق اللہ کیوں معاف ہوجاتے ہیں اس سلسلے میں علامہ قرافیؒ نے بہت عمدہ بات پیش فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’و إن الإسلام حق للّٰہ تعالیٰ و العبادات حق للّٰہ ، فلما کان الحقان لجھۃ واحدۃ یناسب أن یقدم أحدھما علی الآخر فیسقط أحدھما الآخر لحصول الحق الثاني لجھۃ الحق الساقط‘‘ (الفروق للقرافي:ج۳ ص۱۷۴، الفرق السبعون المأۃ)

حقوق العباد کی تقسیم اور ان کا حکم

مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوگیا کہ حقوق اللہ صرف قبول اسلام سے ہی معاف ہوجائیں گے، البتہ حقوق العباد محض اسلام قبول کرنے سے معاف نہیں ہوں گے۔ پھر ان حقوق کی دو قسمیں ہیں:

الف:ایک صورت یہ ہے کہ حالت کفر ہی میں اعتقاد رکھتا تھا کہ جس شخص کا حق میں نے مارا ہے اسے واپس لوٹانا ہے تو اسلام قبول کرنے کے بعد اس کا حق لوٹانا ضروری ہوگا۔ اور یہ حق قبول اسلام سے معاف نہیں ہوگا؛ اس لئے کہ اگر اسلام قبول کرنے بعد اسے حقوق کی ادائیگی کو کہا جائے گا تو اس کے لئے یہ حکم اسلام سے تنفر کا سبب بنے گا۔

ب:دوسری صورت یہ ہے کہ کافر مستحق کو اس کا حق دینے کے لئے راضی ہی نہیں تھا کہ یہ حقوق واپس دوں گا۔ مثلاً قتل کا معاملہ یا غصب وغیرہ کے معاملات تو اس قسم کے حقوق اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائیں گے؛ اس لئے کہ اسے ان حقوق کی ادائیگی پر مجبور کریں گے تو یہ اسلام سے تنفر کا ذریعہ ہوگا۔ اس لئے اسلام کو مصلحتاً مقدم رکھنا بہتر ہے۔

آج کل جو کافر ہیں وہ تمام حربی ہی کے حکم میں ہوں گے اور ان پر وہی حکم لگے گا جو حربی کا ہے۔ پچھلے حقوق ان سے ساقط ہوجائیں گے۔

نو مسلم کب شریعت کا مکلف ہوگا؟

انسان جب تک کفر کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے تب تک وہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہے، البتہ وہ اسلام قبول کرے گا تو کس وقت سے تعلیمات اسلامی کا مکلف ہوگا اور ان کا لزوم کب سے ہوگا؟ اس سلسلے میں چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’لا یکلّف اللّٰہ نفساً إلا وسعھا‘‘ (البقرۃ: ۲۸۶) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کو اسی قدر مکلف بنایا جاتا ہے جس کی وہ طاقت رکھتا ہے اور اسے برداشت کرسکتا ہے۔ لہٰذا نو مسلم پر بھی آہستہ آہستہ شرعی احکام لازم ہوں گے۔ اگرچہ نماز، روزہ اور تمام عبادات اس پر اسی وقت سے لازم ہوں گے۔ لیکن پھر بھی اس کی استطاعت و قدرت کے مطابق ہی اسے عمل کروایا جائے گا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسلام لانے کے فوراً بعد ہی وہ مسلمانوں کی طرح ہوجائے گا۔ اور جو واجبات و فرائض عام مسلمانوں پر ہیں، وہی اس نو مسلم پر بھی ہوں گے۔ جیسا کہ الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے: ’’إذا أسلم الکافر أصبح کغیرہ من المسلمین لہ ما لھم من الحقوق و علیہ ما علیھم من الواجبات، فتلزمہ التکالیف الشرعیۃ کالعبادات و الجھاد، و تجري عیلہ أحکام الإسلام کإباحۃ تولي الولایات العامۃ کالإمامۃ و القضاء و الولایات الخاصۃ الواقعۃ علی المسلمین‘‘ (الموسوعۃ الفقھیۃ: ج۴ ص۲۶۳)

تاہم اگر کوئی کافر شخص اسلام کا مطالعہ کرے اور اس کے اوامر و نواہی سے باخبر ہونے سے اس کو اسلام کی دولت مل جائے تو ایسا شخص قبول اسلام کے بعد ہی سے مکلف شمار ہوگا، اس کا کوئی عذر معتبر نہیں ہوگا۔ (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے