نو مسلموں کے احکام قسط ۵ | نو مسلم کے لئے وضع قطع کا حکم |نو مسلم کے لئے امور فطرت کا حکم

نو مسلموں کے احکام، قسط:۵

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
ایک اشکال اور اس کا جواب
احتیاطی راہ
نو مسلم کے لئے وضع قطع کا حکم
نو مسلم کے لئے امور فطرت کا حکم
حالت کفر کا وضو
قبل اسلام کا تیمم بالاتفاق درست نہیں ہوگا
نو مسلموں کے احکام قسط ۵
نو مسلموں کے احکام قسط ۵

 

ایک اشکال اور اس کا جواب

نو مسلم کے ختنہ سے متعلق ہم نے لکھا ہے کہ ختنہ کرالینا بہتر ہے اور سنت ہے۔ یہاں ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ختنہ کرانا تو سنت ہے لیکن اگر مرد اپنا ختنہ خود نہیں کر سکتا یا بیوی وغیرہ سے نہیں کرا سکتا تو لامحالہ حمامی (ختنہ کرنے والے) سے کرانا ہوگا اور ظاہر ہے کہ ختنہ کرتے وقت مرد کے مقام ستر پر نظر پڑے گی اور اس کا چھونا لازم آئے گا، جبکہ مقام ستر کا چھپانا واجب ہے اور کھولنا حرام ہے تو محض ایک سنت کی ادائیگی کی خاطر واجب کو کیسے ترک کرسکتے ہیں؟

اس کے جواب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نومسلم کے ختنہ کی اہمیت ایک پیدائشی مسلمان کے ختنہ سے زیادہ ہے؛ اس لئے کہ جب وہ شخص اسلام قبول کرنے کے بعد اس عظیم شعار پر عمل پیرا ہوگا تو اسے اسلام کی عظمت وقدر کا احساس ہوگا اور اس کے لئے دیگر کافر ورثاء سے امتیاز کا سبب بھی ہوگا۔

بہر حال اگر حمامی شخص ہی سے ختنہ کرانا ہو تو اس کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو صرف بقدر ضرورت اسی مقام پر نگاہ کرے جس کا کھولنا از حد ضروری ہے اور اس کے علاوہ دیگر پردہ کے مقام پر نگا ہ ڈالنے سے پرہیز کرے اور نومسلم کو چاہیے کہ پردے کے دوسرے مقامات چھپالے، چنانچہ مجموعہ فتاویٰ میں خزانۃ الروایات کے حوالے سے لکھا ہے: و في الذخیرۃ أن المسلم یختن ما لم یبلغ، فإذا بلغ لم یختن، لأن ستر عورۃ البالغ فرض و الختان سنۃ، فلا یترک الفرض للسنۃ، و الکافر إذا أسلم یختن بالاتفاق لمخالفتہ دین الإسلام و ھو بالغ۔ (مجموعہ فتاویٰ: ج۳ ص۹۶)اور بچہ مسلمان ہو تو اس کا ختنہ کیا جائے لیکن جب بالغ ہوجائے تو ختنہ نہ کیا جائے۔ اس لئے کہ بالغ کا ستر عورت ہے اور ختنہ سنت ہے، سنت کے لئے فرض کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور کافر مسلمان ہوجائے تو بالاتفاق اس کے ختنہ کا حکم ہے۔ اس لئے کہ وہ بالغ ہونے کے باوجود دین اسلام کی مخالفت کر رہا تھا۔

عبارت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کے ختنہ کی اہمیت زیادہ ہے۔ اور اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ بلوغ کے بعد بھی اسلام کی مخالفت کر رہا ہے۔ لہٰذا جب کفر و شرک سے توبہ کر رہا ہے تو حالت کفر کی ایسی ظاہری علامت کی بھی مخالفت کرے جس سے کفر پر باقی رہنے کا اندیشہ ہوتا ہو۔ اسی لئے جب بعض لوگوں نے مسلمان ہونے کے باوجود دین موسوی کا بھی دامن نہیں چھوڑا اور شریعت اسلامی کے ساتھ ساتھ ہفتہ کے دن کی تعظیم، اونٹ کا گوشت نہ کھانا اوربعض دیگر اعتقادات بھی برقرار رکھے ہوئے تھے تو اس پر قرآن کریم نے یہ حکم دیا: یآ أیھا الذین اٰمنوا ادخلوا في السلم کافّۃ۔ (البقرۃ: آیۃ۲۰۸) اے ایمان والو! اسلام میں کامل طریقے سے داخل ہوجاؤ۔

نومسلم کے ختنہ کی اہمیت ظاہر کرتے ہوئے مفتی عبد الرحیم لاجپوری لکھتے ہیں: ’’نومسلم کے ستر عورت کے مقابلے میں اس کا ختنہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ختنہ شعائر اسلام اور اس کے خصائص میں سے ہے اور خاص اسلامی علامت ہے جس کا نو مسلم میں ہونا ضروری ہے اس میں اس کی صداقت اور استقامت کی دلیل بھی ہے اور ختنہ دین اسلام پر ثابت قدم رہنے میں معین ہے۔‘‘

احتیاطی راہ

البتہ ختنہ کی اہمیت کے باوجود پہلے سے کسی کافر کو اگر ختنہ سے باخبر نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے؛ اس لئے کہ بعض مرتبہ یہ ہیبت کا سبب بن جاتا ہے اور اسلام سے تنفر کا ذریعہ ہوتا ہے۔ جبکہ ختنہ سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کوئی کافر اسلام کے سائے تلے آجائے۔ جب اسلامی تعلیمات اور ختنہ کی افادیت سے باخبر ہوگا تو امید ہے کہ خود بخود اس کو ختنہ کرانے کی رغبت ہوگی۔

نو مسلم کے لئے وضع قطع کا حکم

ختنہ کے سلسلے میں جو حدیث بیان کی گئی ہے اس میں ختنہ کے علاوہ آپؐ نے جو دوسرا حکم فرمایا ہے وہ ’’ألق عنک شعر الکفر‘‘ (أبي داؤد: ج۱ص۵۱، باب الرجل یسلم) ہے۔ یعنی اپنے زمانہ کفر کے بال کٹا دو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کسی خاص وضع قطع کا حکم دینا چاہتا ہے، لیکن شعر کفر سے کیا مراد ہے اس سلسلے میں صاحب عون المعبود فرماتے ہیں: لیس المراد (واللّٰہ أعلم) أن کل من أسلم یحلق رأسہ فیلزم لہ حلق الرأس کما یلزم علیہ الغسل، بل إضافۃ الشعر إلیٰ الکفر یدلّ علیٰ حلق الشعر۔ (عون المعبود:ج۲ ص۱۵) حدیث سے مراد یہ نہیں ہے (واللہ اعلم) کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرے اس پر غسل کی طرح سر کے بال منڈانا بھی واجب قرار دیا جائے، بلکہ بالوں کو کفر کی طرف منسوب کرنا منع ہے۔

معلوم ہوا کہ حکم اس کا نہیں ہے کہ سر کے بال منڈا دیئے جائیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ حالت کفر کی جو وضع قطع ہے اس کو درست کیا جائے، جیسا کہ ہمارے ملک میں رواج ہے کہ سر کے بڑے بڑے بال رکھتے ہیں جیسے سردار لوگ (گرو نانک کو ماننے والے) سر پر چوٹی باندھتے ہیں، یا دیگر اقوام میں الگ الگ بھی طریقہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ایک قوم کا رواج ہے کہ سر کے تمام بال منڈا دیتے ہیں اور صرف بیچ کے حصہ میں کچھ بال چھوڑ دیتے ہیں جو اسلام اور کفر کے مابین ایک نمایاں امتیاز پیدا کرتا ہے، تو ممکن ہے کہ اس سے وہی بال مراد ہوں کہ انہیں کٹا دیا جائے۔ دوسری بات قباحت کی یہ ہے کہ ان بالوں سے دوسری قوموں سے مشابہت لازم آتی ہے جس سے اسلام سختی سے روکتا ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے بعض طریقے بال رکھنے کے ثابت ہیں، مگر حدیث میں جن طریقوں سے روکا گیا ہے ان میں سے دو طریقے مسلم شریف کی روایت میں موجود ہیں: عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ صنفان من أھل النار لم أرھما قوم معھم سیاط کأذناب البقر یضربون بھا الناس و نساء کاسیاات عاریات ممیلات مائلات رؤسھن کأسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ و لا یجدن ریحھا و أن ریحھا لتوجد من مسیرۃ کذا و کذا۔ (مسلم شریف:ج۲ ص۲۰۵، کتاب اللباس و الزینۃ) اس حدیث سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ کسی مرد کے لئے سر پر جوڑا باندھنا درست نہیں ہے۔ دوسری وجہِ قباحت یہ ہے کہ اس وقت سردار قوم کی علامت ہی یہ ہے کہ سر پر جوڑا باندھتے ہیں اس لئے تشبہ سے بچنے کے لئے اور امتیازی شان پیدا کرنے کے لئے سر کے بالوں کو برابر کرالے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کچھ بال رکھ کر باقی سب منڈا دیئے جائیں، اس کی بھی ممانعت ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے۔ اور حدیث ہی میں قزع کی یہ تفسیر موجود ہے کہ سر کے بعض حصے کو منڈوانا اور بعض حصے کو چھوڑنا۔ اس ممانعت کی علت بھی ابوداؤد شریف کی روایت میں موجود ہے کہ یہ یہود کا طریقہ اور ان کی تہذیب ہے: عن ابن أبي سفیان عام حج و ھو علیٰ المنبر و تناول قصۃ من شعر کانت في ید حرسی یقول یاأھل المدینۃ أین علماؤکم سمعت رسول اللّٰہ ﷺ بینھن عن مثل ھذہ و یقول إنما ھلکت بنو إسرائیل حین اتّخذ ھذہ نساءھم۔ (سنن أبي داؤد: ج۲ ص۵۷۴، کتاب الترجل)

لہٰذا اسلام قبول کرنے کے بعد اس طریقہ اور تہذیب کو چوڑدیا جائے۔ ہاں اگر کسی طریقہ کو فوراً چھوڑ دینے میں کسی سے کچھ خطرہ ہو اور کسی کی طرف سے ایذا رسانی کا ڈر ہو تو اس کو چھوڑنے کی گنجائش ہوگی۔ کیونکہ جان کا خطرہ ہو تو جان کا بچانا پہلے ضروری ہے۔ اور اس ضرورت کی وجہ سے جس میں جان کا خطرہ ہو شریعت بہت سی ناجائز چیزوں کی بھی اجازت دیتی ہے، جیسا کہ اصول فقہ کا قعدہ ہے: الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ و النظائر، ص۸۵)

نو مسلم کے لئے امور فطرت کا حکم

مذہب اسلام طہارت کی طرف خاص توجہ دلاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے: إن اللّٰہ یحبّ التوابین و یحبّ المتطھرین۔ (البقرۃ: آیۃ ۲۲۲) احادیث میں بھی طہارت کے سلسلے میں مختلف احکام ہیں۔ صفائی کی بعض اقسام کو امور فطرت میں سے قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً ناک اور منھ کی صفائی، مونچھ کی تراش و خراش، ناخن کاٹنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، بغل کے بالوں کو اکھاڑنا، ختنہ کرنا: عن ابن عمر عن النبي ﷺ قال: احفوا الشارب و اعفوا اللحیٰ۔ (سنن نسائی: حدیث نمبر ۱۴)

مونچھ کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: عن أبي ھریرۃ عن رسول اللہ ﷺ قال: خمس من الفطرۃ، الختان و حلق العانۃ و نتف الإبط و تقلیم الأظفار و أخذ الشارب۔ (سنن نسائی: ج۱ ص۴ ، حدیث۱۵)

اسی طرح اگر ناخن بڑے ہیں یا موئے زیر ناف بڑھ رہے ہیں تو ان کو صاف کرنا بھی لازم ہوگا۔ اس لئے کہ شریعت اسلامی کا مکلف ہونے کے بعد حتی الامکان اس پر تعلیمات اسلام سے آشنا ہونا اور ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ حدیث شریف میں ان چیزوں کی صفائی کے بارے میں ایک وقت بتایا گیا ہے کہ اس سے زیادہ دنوں تک ان چیزوں کو نہیں چھوڑنا چاہیے: عن أنس ابن مالک قال: وقت لنا رسول اللہ ﷺ في قص الشارب و تقلیم الأظفار و حلق العانۃ و نتف الإبط أن لا نترک أکثر من أربعین یوماً و قال مرۃً أخریٰ أربعین لیلۃ۔ (سنن نسائی: ج۱ ص۴ حدیث۱۵)

حضرت انسؓ کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ چالیس دن (یا رات) سے زائد امور فطرت کی صفائی میں نہ لگانا چاہیے۔ یہ حکم ہر مسلمان کے لئے ہے۔ نو مسلم بھی اسلام کے دائرہ میں آنے کے بعد اس پر عمل کا مکلف ہوگا۔

حالت کفر کا وضو

وضو کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ یہاں تک کہ اس کو نماز جیسے اہم فریضہ کی صحت کا ذریعہ بنایا گیا کہ کوئی نماز بغیر وضو کے درست نہیں ہو سکتی ہے۔ وضو کے احکام و مسائل بہت ہیں، لیکن یہاں پر ہم صرف نو مسلم سے متعلق چند احکام ذکر کرتے ہیں:

اگر کسی نے حالت کفر میں اسلام لانے سے قبل وضو کیا تھا تو اس کا وضو معتبر نہیں ہے۔ یہ قول مالکیہ و شافعیہ کا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک نیت شرط وضو میں سے ہے۔ اور کافر نیت کا اہل نہیں ہے۔ اس لئے اس کا وضو درست نہیں ہے۔ احناف کے نزدیک وضو کے لئے نیت شرط نہیں ہے اس لئے کافر کا وضو صحیح ہے اور اس وضو سے قرآن چھونے کی اجازت بھی ہوگی: و أما النیۃ فلیست من الشرائط۔۔۔فیجوز الوضوء بدون النیۃعندنا، و عند الشافعي من الشرائط لا یجوز بدونھا فیجوز وضوء الکافر عندنا، و عندہ شرط فلا یجوز وضوء الکافر، و عند مالک شرط۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۱۰۰)

قبل اسلام کا تیمم بالاتفاق درست نہیں ہوگا

شریعت اسلامیہ نے تیمم کو وضو و غسل کا قائم مقام بنایا ہے۔ بعض شرائط کے ساتھ جو کام انسان وضو یا غسل سے کرتا ہے انہی اعمال کو بوجہ مجبوری تیمم سے کر سکتا ہے۔ لیکن تیمم کے لئے نیت شرط ہے۔ جب تک نومسلم حالت کفر میں تھا تو نیت کا اہل ہی نہیں تھا اس لئے جو تیمم حالت کفر میں کیا وہ معتبر نہی ہوگا۔ اور عبادات ادا کرنے کے لئے پھر سے تیمم کرنا اس پر لازم ہوگا: الفصل الأول في أمور لا بد منھا في التیمم، منھا النیۃ و کیفیتھا أن ینوي عبادۃمقصودۃ لا تصح إلا بالطھارۃ و نیۃ الطھارۃ۔ (فتاویٰ ھندیہ: ج۱ ص۲۵) و الفرق بین الأمرین (الوضوء و التیمم) عندھم أن التیمم مفتقر إلی النیۃ، و نیۃ العبادۃ لا تصح من مشرک و الطھارۃ بالماء غیر مفتقر إلی النیۃ۔ (عون المعبود: ج۲ ص۱۵)(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے