نو مسلموں کے احکام قسط ۶|نماز سے متعلق احکام|نومسلم کی اذان

نو مسلموں کے احکام، قسط:۶

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری
اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
نماز سے متعلق احکام
ناواقفیت میں نماز کا انکار
نماز چھوڑنے کا حکم
نو مسلم کی اذان کا حکم
نماز کی فرضیت و اہمیت
نو مسلموں کے احکام قسط ۶
نو مسلموں کے احکام قسط ۶

 

نماز سے متعلق احکام

ناواقفیت میں نماز کا انکار

نماز دین کا محکم فریضہ ہے، جس کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر کسی شخص نےاس کی فرضیت کا انکار کردیا تو اس کو معذور قرار دیا جائے گا۔ اگر فرضیت کا اقرار کرتا ہے لیکن نماز چھوڑتا ہے تو وہ کبیرہ گناہ کر مرتکب ہوگا۔ اگر فرضیت نماز کا علم ہے پھر بھی نماز کا قائل نہیں ہے بلکہ اس کا انکار کرتا ہے تو پھرایسا شخص کافر ہوگا۔ اور مرتد کے احکام اس پر لاگو کہوں گے: و قول الرجل لاأصلي، یحتمل أربعۃ أوجہ، أحدھا لا أصلي لأني صلیت، و الثاني لا لا أصلي فسقاً مجانۃ، فھذہ الثلاثۃ لیست بکفر، و الرابع لاأصلي، إذ لیس یجب علي الصلاۃ، و لم أؤمر بھا، یکفر، و لو أطلق و قال لا أصلي لا یکفر، لاحتمال ھذہ الوجوہ۔ (الفتاویٰ الھندیہ)

نماز چھوڑنے کا حکم

حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک عمداً تارک نماز قتل کئے جانے کا مستحق ہے: و الصحیح قتلہ) وجوباً (بصلاۃ فقط) لظاھر الخبر بشر إخرجھا عن وقت الضرورۃ)فیما لا وقت ضرورۃ۔(المغني المحتاج: ج۲ ص۲۴۸)

احناف کے نزدیک عمداً نماز ترک کرنے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ قید میں ڈال دیا جائے گا۔ جب تک توبہ کرکے نماز شروع نہ کردے۔ پس اگر انکار ہی کردیتا ہے تو پھر اس کو قتل کیا جائےگا: و لا یقتل تارک الصلاۃ عامداً غیر منکر وجوبھا بل یحبس حتی یحدث توبہ۔ فتاویٰ ھندیہ: ج۱ ص۵۱۴)

اور علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں: تارک الصلاۃ عمداً کسلاً یضرب و یحبس حتی یصلیھا، لایقتل إذا جحد أو استخلف وجوبھا۔(فتح القدیر: ج۱ ص۴۳۴)

نو مسلم کی اذان کا حکم

مؤذن کے لئے شرط ہے کہ وہ مسلمان ہو چنانچہ کافر کی اذان درست نہیں ہے یہ قول مالکیہ و شوافع کا ہے: و صحتہ بإسلام) فلا یجوز من کافر۔ (الشرح الصغیر: ف۱ ص۲۵۱)

و شرط المؤذن) الإسلام فلا یصحان من کافر، لعدم أھلیتہ لعبادۃ، و لأنہ لا یعتقد الصلاۃ التي ھما دعاء لھا فإتیانہ بذلک ضرب من الاستھزاء۔ (مغنی المحتاج: ج۱ ص۴۵۸، و شرط المؤذن الإسلام)

  اور حنابلہ کا بھی یہی قول ہے: (و إسلامہ) لاشتراط النیۃ فیہ و ھي لا تصحّ۔ (کشاف القناع عن متن الاقناع: ج۱ ص۲۳۶)

  جبکہ حنفیہ کے نزدیک کافر کی اذان بھی درست ہے، البتہ اعادہ مستحب ہے: و لیس عند الحنفیۃ أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً عالماً بالسنۃ و بأوقات الصلاۃ۔ (الفقہ الإسلامي: ج۱ ص۷۰۰)

  احناف کے نزدیک مسنون یہ ہے کہ مؤذن مرد عاقل متقی اور اذان کی سنت اور اوقات نماز کی معلومات رکھنے والا ہو۔ پس اگر کوئی نو مسلم شخص اذان دیتا ہے تو اس کی اذان بالکل درست ہوگی۔ اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور نہ کسی مسلم کو اس کی اذان پر اعتراض کا حق ہے؛ اس لئے کہ جب اس نے کفر و شرک سے توبہ کرکے اسلام قبول کرلیا ہے، تو اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہا۔

  اگر اذان دینے کے بعد مسلمان یا نو مسلم مرتد ہوگیا تو اگر وقت باقی ہے تو اذان کا اعادہ کیا جائے گا اور اگر وقت باقی نہیں ہے تو اعادہ ضروری نہیں ہے: فإن ارتدّ بعد الأذان أعید إن کان الوقت باقیاً و إن خرج الوقت فلا إعادۃ۔ (الشرح الصغیر: ج۱ ص۲۵۱)

  اگر اذان دے کر مرتد ہوا پھر اسلام قبول کرکے اقامت کہی تو خطیب شربینی فرماتے ہیں کہ یہ اذان و اقامت درست ہے، لیکن لوٹانا بہتر ہے: لو ارتدّ المؤذن بعد فراغ الأذان، ثم أسلم ثم أقام جاز و الأولیٰ أن یعیدھما غیرہ حتی لا یصلي بأذانہ و إقامتہ لأن ردتہ تورث شبھۃ في حالہ۔ (مغنی المحتاج:ج۱ ص۴۵۸) اگر اذان دے کر مرتد ہوگیا پھر اسلام قبول کرلیا اور تکبیر و اقامت کہی تو ایسی صورت میں نماز درست ہے البتہ اولیٰ یہی ہے کہ اذان و اقامت دونوں کو لوٹایا جائے۔ اگر مسلمان یا نومسلم اذان یا اقامت کے درمیان ہی مرتد ہوگیا تو وہ اذان اور اقامت باطل ہوں گے: یبطل الأذان و الإقامۃ بردۃ۔ (الفقہ الإسلامي: ج۱ ص۷۰۳)

نماز کی فرضیت و اہمیت

  کلمۂ شہادت لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کے بعد اسلام میں سب سے زیادہ جس چیز کی اہمیت ہے وہ نماز ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: أن رجلاً قال لعبد اللہ ابن عمر ألا تغزو فقال إني سمعت رسول اللہ ﷺ یقول أن الإسلام بنی خمسۃ، شھادۃ أن لا إلٰہ و إقامۃ الصلاۃ و إیتاء الزکاۃ و صوم رمضان و حج البیت۔ (صحیح مسلم: ج۱ ص۳۲، باب بیان أرکان الإسلام)

  انسان کو عبادت کے بہت سے طریقے بتائے گئے ہیں، جن میں بعض مخصوص عبادات ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ۔ ان عبادات میں بھی نماز کی جو اہمیت ہے وہ دوسری عبادات سے بڑھ کر ہے۔ بعض عبادات زندگی میں ایک بار اور بعض سال میں ایک بار آتی ہے، جبکہ نماز دن میں پانچ مرتبہ آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ زندگی اگر نماز جیسی صفت پر آجائے تو پوری زندگی عبادت میں شمار ہوگی۔ حضرت محمد ﷺ کا ارشاد عالی ہے کہ عبادت اس طرح کرو جیسے بندہ اللہ کو دیکھ رہاہو، اگر ایسا نہیں ہوا تو کم ازکم یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تو بندہ کو دیکھ رہا ہے، جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے گی تو بندہ کی پوری زندگی اطاعت خداوندی میں گزرے گی: قال ما الإحسان؟ قال أن تعبد اللہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک۔ (بخاری شریف: ج۱ ص۱۲حدیث ۵۰)(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے