نو مسلموں کے احکام قسط۷ | نو مسلم کو فرضیت نماز کا علم نہ ہو

نو مسلموں کے احکام، قسط:۷

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری
اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
نو مسلم کو فرضیت نماز کا علم نہ ہو
پہلی صورت کا حکم
دوسری صورت کا حکم
نو مسلموں کے احکام قسط ۷
نو مسلموں کے احکام قسط ۷

 

نو مسلم کو فرضیت نماز کا علم نہ ہو

 نماز کی فرضیت کے علم ہونے اور نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ دار الاسلام میں رہ کر اس نے اسلام قبول کیا اور کسی وجہ سے اس کو فرضیت نماز کا علم نہ ہوسکا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دار الحرب میں اسلام قبول کیا مگر وہاں سے اس نے ہجرت نہیں کی اور اسے شریعت کا علم نہ سکا، خواہ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ جیسے کسی عالم سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو۔ بہر حال ان دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔

پہلی صورت کا حکم

  پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ دار الاسلام میں رہ کر بھی اسے علم نہ ہوسکا۔ یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ جب بھی نومسلم کو فرضیت کا علم ہوجائے گا اسی وقت سے ادائیگی لازم آئے گی۔ اور جب سے دائرۂ اسلام میں آیا ہے اس وقت تک کی تمام نمازیں قضا کرنی لازم ہوں گی۔ اس مسئلہ پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے: و منھا العلم بکونھا فریضۃ عند أصحابنا الثلاثۃ۔۔۔حتی أن الحربي لو أسلم في دار الحرب و لم یھاجر إلینا و مکث ھناک سنین، و لہ سوائم، و لا علم لہ بالشرائع لا یجب علیہ الزکاۃ حتی لا یخاطب بأدائھا إذا خرج إلیٰ دار الإسلام عندنا۔ (بدائع الصنائع: ج۲ ص۷۹)

فصل: و من أسلم في دار الحرب فترک صلوات أو صیاماً لا یعلم وجوبہ لزمہ قضاؤہ، و بذلک قال الشافعي۔ و عند أبي حنیفۃ لا یلزمہ۔۔۔و لنا أنھا عبادۃ تجب مع العلم بھا فلزمتہ مع الجھل کما في دار الإسلام۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۱ ص۶۴۷)

  مذکورہ بالا مسئلہ ائمہ کرام کا مسلک ہے کہ فرضیت زکوٰۃ کا علم ہونا وجوب زکوٰۃ کے لئے شرط نہیں ہے۔ اگر کسی کو علم نہ ہوسکا تب ھی علم ہونے کے بعد گذشتہ ایام کی قضا لازم ہوگی۔ چنانچہ علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں: و لنا أنھا عبادۃ تلزمہ مع العلم فلزمتکہ مع الجھل کما لو کان في دار الإسلام۔(الشرح الکبیر: ج۱ ص۶۴۷)

  دار الاسلام کے سلسلے میں ائمہ ثلاثہ اور احناف کا یہی مسلک ہے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: بخلاف الذمي إذا أسلم في دارنا فإنہ تجب علیہ الزکاۃ علم أو لم یعلم۔ (ھندیہ: ج۲ ص۱۷۲)برخلاف ذمی کے جب وہ دار الاسلام میں اسلام قبول کرے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ چاہے فرضیت کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس لئے کہ دار الاسلام میں کسی بھی ذریعہ سے شریعت کے خاص امور کا حکم معلوم کر سکتا ہے اس کے لئے کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ گویا سہولیات ہونے کے باوجود معلومات حاصل نہ کیں تو اس میں بذات خود اس کی غلطی اور قصور ہے۔

دوسری صورت کا حکم

  دوسری صورت یہ ہے کہ دار الحرب میں اسلام قبول کرے اور ایک طویل مدت کے بعد اس کو معلوم ہو کہ نماز یا دیگر عبادات بھی اس کے ذمہ ہیں تو ایسی صورت میں حنفیہ کا قول یہ ہے کہ اس پر گذرے ہوئے ایام کی نمازوں کی قضا ضروری نہیں ہوگی: حربي أسلم في دار الحرب و لم یعلم بالشرائع من الصوم و الصلاۃ و نحوھما ثم دخل دار الإسلام أو مات و لم یکن علیہ قضاء الصوم و الصلاۃ قیاساً و استحساناً، و لا یعاقب علیہ إذا مات و لو أسلم في دار الإسلام و لم یعلم بالشرائع یلزمہ القضاء استحساناً۔ (فتاویٰ ھندیہ: ج۱ ص۱۲۴)

  جبکہ شوافع و حنابلہ اور مالکیہ وغیرہم کا مسلک یہ ہے کہ اس صورت میں بھی قضا لازم ہوگی، کیونکہ ان کے نزدیک وجوب نماز کے لئے فرضیت کا علم ہونا ضروری نہیں ہے: و من أسلم في دار الحرب فترک صلوات أو صیاماً لا یعلم وجوبہ لزمہ قضاؤہ، و بذلک قال الشافیي۔ و عند أبي حنیفۃخ لا یلزمہ، و لنا أنھا عبادۃ تجب مع العلم بھا فلزمتہ مع الجھل کما في دار الإسلام۔ (المغنی لابن القدامہ: ج۱ ص۶۴۷)

  جبکہ احناف کے نزدیک علم فرضیت بھی ضروری ہے؛ کیونکہ جس طرح قضا شدہ نمازوں کا علم ہونا وجوب ترتیب کے لئے شرط ہے اسی طرح نماز کے فوت ہونے کے وقت اس کے وجوب کا علم بھی ضروری ہے، جو نماز کی قضا کو واجب کرنے کے لئے شرط کے درجہ میں ہے۔ چنانچہ علامہ کاسانی لکھتے ہیں: ثم العلم بالفائتۃ کما ھو شرط لوجوب الترتیب فالعلم بوجوبھا حال الفوات شرط لوجوب قضاءھا حتی أن الحربي إذا أسلم في دار الحرب و مکث فیھا سنۃ و لم یعلم أن علیہ الصلاۃ فلم یصل ثم علم، لا یجب علیہ قضاؤھا في قول أصحابہ الثلاثۃ۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۳۴۳)

  اور علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں: من أسلم في دار الحرب فترک صلوات أو صیاماً لا یعلم وجوبہ لزمہ قضاؤھا، و ھذا قال الشافعي۔ و قال أبوحنیفۃ: لا یلزمہ، و لنا أنھا عبادۃ تلزمہ مع العلم فلزمتہ مع الجھل کما لو کان في دار الإسلام۔ (الشرح الکبیر: ج۱ ص۶۴۷)

  اور ویسے بھی کوئی اس طرح کا سبب دار الحرب میں نہیں پایا گیا جس کے ذریعے اس کو شریعت کا علم ہوتا یا کسی سے معلوم کرتا۔ برخلاف دار الاسلام کے کہ وہاں نومسلم قادر ہے کہ کسی سے بھی اسلام کے بارے میں پوچھ تاچھ کرے۔ البتہ احناف دار الحرب میں علم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر نومسلم کو ایسا کوئی موقع فراہم ہوا جس میں وہ معلومات حاصل کر سکتا تھا، پھر بھی معلومات حاصل نہ کیا، تو اب اس کی طرف سے تعدی ہوئی۔ اس لئے لازم ہوگا کہ جس وقت وہ موقع ملا تھااس وقت تک کی تمام نمازیں قضا کرے۔

  البتہ اگر دار الحرب میں ایک شخص بھی ایسا پہنچا جو اسلامی تعلیمات کے بارے میں بتا سکتا تھا اور نو مسلم کی اس سے ملاقات بھی ہوگئی تو اس پر اس پورے عرصہ کی قضا لازم ہوگی، جب سے اس شخص سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ صاحبین کا قول ہے۔

  نیز ایک روایت امام ابو حنیفہؒ سے بھی اس قسم کی منقول ہے، چنانچہ علامہ کاسانی لکھتے ہیں: فإن بلغہ في دار الحرب رجل واحد فعلیہ القضاء فیما یترک بعد ذلک في قول أبي یوسف و محمد، و ھو إحدی الروایتین عن أبي حنیفۃ۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۳۴۲)

  حضرت امام محمد اور امام ابو حنیفہؒ کا دوسرا قول یہ ہے کہ جب تک دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اس کو خبر نہ دیں تب تک اس پر وجوب نماز کا حکم نہیں لگا سکتے ہیں: فإن بلغہ رجل في دار الحرب یلزمہ، و روی الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ مالم یخبرہ رجلان أو رجل و امرأتان لا یلزمہ کذا في محیط السرخسي۔ (ھندیہ: ج۱ ص۱۲۴) (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے