نو مسلموں کے احکام، قسط:۴
اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:درازیٔ عمر کے باوجود نو مسلم کا ختنہ مستحب ہےبچہ کا ختنہ قبول اسلام کے بعدپیدائشی مختون نو مسلم پر ختنہ نہیںنو مسلم پر موت کے بعد ختنہ نہیں ہے
درازیٔ عمر کے باوجود نو مسلم کا ختنہ مستحب ہے
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے اسلام قبول کیا اور وہ کافی عمر دراز ہے تو اس کے ختنہ کا کیا حکم ہوگا؟
اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے پہلے ہم علماء کرام اور فقہاء عظام کے اقوال پیش کرتے ہیں:
ابن قدامہ حنبلیؒ اپنی کتاب المغنی میں لکھتے ہیں: و إن أسلم رجل کبیر فخاف علیٰ نفسہ من الختان سقط عنہ؛ لأن الغسل و الوضوء و غیرھما یسقط إذا خاف علیٰ نفسہ منہ، فھٰذا أولیٰ و أن من علیٰ نفسہ لزمہ فعلہ۔ (المغني لابن قدامہ: ج۱ ص۷۱) اگر کوئی عمر دراز شخص اسلام قبول کرے اور ختنہ کرانے میں اسے اپنی جان کا خطرہ ہو تو ختنہ کا حکم اس سے ساقط ہوجائے گا۔ جیساکہ غسل اور وضو وغیرہ خوف سے ساقط ہوجاتے ہیں۔ ہاں اگر جان کا خطرہ نہیں ہے تو پھر لازم ہے کہ ختنہ کرائے۔
علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں: أن یسلم الرجل کبیراً و یخاف علیٰ نفسہ منہ، فھٰذا یسقط عنہ عند الجمھور، و خالف سحنون بن سعید الجمھور فلم یسقط عن الکبیر الخائف علیٰ نفسہ، و ھو قول في مذھب أحمد و حکاہ ابن تمیم و غیرہ۔ (تحفۃ المودود: ص۱۶۰) اگر بڑی عمر کا آدمی اسلام قبول کرے اور ختنہ سے اسے اپنی جان کا خطرہ ہو تو جمہور کے نزدیک ختنہ کا حکم اس سے ساقط ہوجائے گا، اور امام سحنون بن سعید نے جمہور کی مخالفت کی ہے اور بڑی عمر والوں سے ختنہ کو ساقط نہیں مانا ہے۔ امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے جس کو ابن تمیم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
بچہ کا ختنہ قبول اسلام کے بعد
حنفیہ کے نزدیک ختنہ کے باب میں قدرے تفصیل ہے۔ اب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ صحیح قول کیا ہے۔
اگر کوئی بچہ اسلام قبول کرے یا والدین کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہو تو بہتر ہے کہ سات سال سے بارہ سال کی عمر کے درمیان ختنہ کیا جائے: ابتداء الوقت المستحب للختان من سبع سنین إلیٰ اثنتي عشرۃ سنۃ ھو المختار۔۔۔الشیخ الضعیف إذا أسلم و لا یطیق الختان، إن قال أھل البصر لا یطیق یترک لأن ترک الواجب بالعذر جائز فترک السنۃ أولیٰ۔ (ھندیہ: ج۵ ص۳۵۷)
فقہاء شوافع کا خیال ہے کہ ساتویں دن یا چالیس دن کے اندر یا زیادہ سے زیادہ ساتویں سال میں ختنہ مستحب ہے: فقال وقت وجوب الختان بعد البلوغ، لکن یستحبّ للولي أن یختن الصغیر في صغرہ؛ لأنہ أرفق بہ، قال و یستحبّ أن یختن في الیوم السابع۔۔۔ و قال الأکثرون لا یستحبّ۔۔۔ قال فإن أخر عن السابع استحبّ ختانہ في الأربعین، فإن أخر استحبّ في السنۃ السابعۃ۔ (کتاب المجموع شرح المھذب للشیرازي: ج۱ ص۱۶۵)
بہر حال نابالغی کی عمر میں ختنہ کردینا چاہیے اور بچہ کی صحت اور اس کی آسانی کے اعتبار سے وقت اختیار کرنا چاہیے۔
بالغ شخص اسلام قبول کرے تو اگر ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے کی قوت ہو تو ختنہ کرے ورنہ نہیں، اپنا ختنہ خود سے کرنے پر قادر ہو تو خود کرے: الشیخ الضعیف إذا أسلم و لا یطیق الختان إن قال أھل البصر لا یطیق یترک؛ لأن ترک الواجب بالعذر جائز فترک السنۃ أولیٰ۔ (ھندیہ: ج۵ ص۳۵۷)
جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل سے ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اپنی کتاب ’’حلال و حرام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’خود نہ کر سکتا ہو تو ایک طرف بے ستری ہوتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ ختنہ ممنوع ہو، دوسری طرف ختنہ شعائر اسلام کا درجہ رکھتا ہے، اور شعائر کی جو اہمیت ہے وہ محتاج اظہار نہیں۔ ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر خیال ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے لئے ختنہ کرالینا بہتر ہے؛ اس لئے کہ ختنہ ایک درجہ میں علاج بھی ہے اور علاج کے لئے بے ستری کا جائز ہونا ظاہر ہے۔‘‘ (حلال و حرام:ص۴۵۳)
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں: ’’اگر یہ شخص جوان ہونے کے بعد تحمل رکھتا ہے تو اس کو کرالینا چاہیے، اگر تحمل نہیں رکھتا ہے تو معاف ہے۔ آج کل تو سرجری نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ختنہ کے ناقابل تحمل ہونے کا سوال ہی نہیں۔ باقی ختنہ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ شخص مسلمان ہے جبکہ اللہ و رسول کے تمام احکام کو دل و جان سے مانتا ہے۔‘‘ (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج۲ ص۱۳۹)
ختنہ کرانے کے سلسلے میں فقہاء کرام نے اجازت دی ہے کہ اگر خود نہیں کرسکتا ہے تو پھر حمامی (غسل خانہ کے کارندہ اور اس زمانے میں ڈاکٹر) سے ختنہ کراسکتا ہے: قیل في الختان الکبیر إذا أمکن أن یختن نفسہ فعل و إلا لم یفعل إلا أن یمکنہ أن یتزوج أو یشتری ختانۃ فتختنہ و ذکر الکبریٰ في الجامع الصغیر و یختنہ الحمامي۔ (ھندیہ: ج۵ ص۳۵۷)
پیدائشی مختون نومسلم پر ختنہ نہیں
نو مسلم اگر قدرتی طور پر مختون ہو تو پھر اس کا ختنہ دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ اس لئے کہ ختنہ کرانے کا سبب نجاست سے پاکی ہے اور یہ سبب پہلے سے موجود ہے؛ اس لئے پھر سے ختنہ کرانے کی ضرورت نہیں۔
نو مسلم پر موت کے بعد ختنہ نہیں ہے
قبول اسلام کے بعد ابھی تک نو مسلم نے ختنہ نہیں کرایا تاھا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوگئی تب بھی ختنہ نہیں کیا جائے گا۔ اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ میت کا ختنہ کرنا واجب نہیں۔ لیکن کیا مستحب ہے؟ اس سلسلے میں بھی ائمہ اربعہ سمیت جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ مستحب بھی نہیں ہے۔ بعض متأخرین علماء مونچھ اور ناک کے بال وغیرہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کو مستحب کہتے ہیں۔ تاہم یہ قیاس فاسد ہے؛ اس لئے کہ امت کا اس پر عمل نہیں ہے۔ کیونکہ مونچھ تراشنا اور ناخن کاٹنا وغیرہ طہارت اور میل کچیل کو دور کرنے کے لئے ہے، اس لئے یہ ضروری نہیں ہے: الموت فلا یجب ختان المیت باتفاق الأئمۃ، و ھل یستحبّ؟ فجمھور أھل العلم علیٰ أنہ لا یستحبّ، و ھو قول الأئمۃ، و ذکر بعض المتأخرین أنہ مستحبّ، و قاس أخذ شاربہ وحلق عانتہ و نتف إبطہ و ھذا مخالف لما علیہ عمل الأمۃ، و ھو قیاس فاسد، فإن أخذ الشارب و تقلیم الظفر و حلق العانۃ من تمام طھارتہ و إزالۃ وسخہ و درنہ۔ (تحفۃ المودود بأحکام المولود: ص۱۶۱)
Mashaallah
شکریہ