بچوں کے لئے زکوٰۃ کے موضوع پر تقریر| زکوٰۃ کسے کہتے ہیں؟ | زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت

بچوں کے لئے زکوٰۃ کے موضوع پر تقریر

 

زکوٰۃ

بچوں کے لئے زکوٰۃ کے موضوع پر تقریر
بچوں کے لئے زکوٰۃ کے موضوع پر تقریر

 الحمدُ لِلّٰهِ الّذِي أوْجَدَ و أفنیٰ، و أفقَرَ و أغْنیٰ، و جَعَلَ الزّکاۃَ للدّینِ أساساً و مَبنیٰ، و الصلاۃُ علیٰ محمدِن المُصطِفیٰ سیدِ الوریٰ، و علیٰ اٰلِه و أصحابِه المخصوصِینَ بالعِلْمِ و التُّقیٰ، أما بَعد: قالَ اللّٰهُ تَعالیٰ: وَیلٌ لِلمُشرِکِینَ الّذِینَ لا یُؤتُونَ الزّکاۃَ و ھُم بالاٰخِرۃِ ھُم کافِرُون۔

 

محترم سامعین! یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج آپ جیسے معزز حضرات کے سامنے اسلام کے ایک اہم رکن زکوٰۃ کے بارے میں کچھ کہنے کے لئے لب کشائی کر رہا ہوں۔ میں نے ابھی ابھی آپ حضرات کے سامنے ایک آیت پڑھی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ان مشرکوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت کے منکر ہیں۔

 

 زکوٰۃ کسے کہتے ہیں؟ پہلے یہ سمجھ لیں۔ کسی مسلمان کے پاس ایک مقرر مقدار میں مال و دولت یا تجارتی سامان ہو تو وہ ہر سال حساب لگا کر اپنی اس دولت یا مالِ تجارت کا چالیسواں حصہ غریبوں اور محتاجوں کو دے۔ بس اسی کا نام زکوٰۃ ہے۔ اگر آپ اس کی تفصیل جاننا چاہتے ہوں تو فِقہ کی کتابیں دیکھئے۔

محترم دوستو! آپ شہری ہوں یا دیہاتی یا قصباتی، آپ اپنے گرد و پیش پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ کھاتے پیتے ہیں اور کچھ فقیر، کچھ سہارے والے ہیں اور کچھ یتیم، آپ کے پڑوس میں، آپ کے گاؤں میں کچھ ایسے لوگ بستے ہوں گے جن کا ہردن یوم عید ہے اور ہر رات شب براءت، اور کچھ بے چارے دو روٹی کے محتاج ہیں، کوئی لولا ہے تو کوئی لنگڑا، کوئی اندھا ہے اور کوئی بہرا، جن کے پیٹ خالی ہیں اور تن پر کپڑا بھی نہیں۔

 

 آپ ذرا سوچیں کہ ان کا گذر کیسے ہوگا؟ اگر وہ کسی سے قرض مانگیں تو قرض نہ ملے، مزدوری کرنا چاہیں تو کوئی انہیں اپنے یہاں کام نہ دے۔ آپ بتائیں کہ ان کی زندگی کیسے گذرے گی؟

 

 سامعین کرام! اسلام نے ایسے لوگوں کے لئے مکمل حل پیش کیا ہے، ایک ایسا حل پیش کیا ہے کہ اگر اس دنیا میں اسے نافذ کردیا جائے تو کوئی غریب رات میں بھوکا نہ سوئے، کوئی یتیم بے سہارا و بے آسرا نہ ہو، کسی بیوہ کو در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑے، اسلام نے ایسے لوگوں کی طرف خاص توجہ دی ہے، حضرت آدم علیہ الصلاۃ و التسلیم سے لے کر اب تک جتنے نبی آئے، سب نے اپنے اپنے پیروؤں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا تاکہ سماج سدھرے، غریب ابھرے، محتاج اپنے پیروں پر کھڑا ہو، پردیسی اپنے وطن لوٹ سکے۔

آپ ایک ایسے معاشرے کا تصور کریں جہاں کا ہر دولت مند ہر سال اپنی دولت کا چالیسوں حصہ راہ خدا میں صرف کردے، کیا وہاں غریبی رہ جائے گی؟ کیا وہاں چند ٹَکوں کے لئے لوگ دوسروں کا خون پیئیں گے؟ کیا وہان چند سکوں کے عوض کسی معصومہ کی عزت لوٹی جا سکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس دیس میں اسلامی معاشرہ اپنی مکمل شکل میں وجود پذیر ہوا، وہاں دولت کی اس گردش کی وجہ سے کوئی محتاج نہ رہا، لوگ زکوٰۃ کا مستحق ڈھونڈتے تھے اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔

 

ہمارا فرض ہے کہ ہم آج اپنے ماحول میں زکوٰۃ کا پور پورا انتظام کریں۔ زکوٰۃ کا جو ثواب اور جو انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں ملے گا۔ اور اسے نہ ادا کرنے والوں کی قیامت کے دن جو رسوائی ہوگی، اس کا آپ تصور بھی کرلیں، تو آپ زکوٰۃ پابندی سے دیں گے۔ زکوٰۃ دینے سے آخرت میں کامیابی تو ملے گی ہی، اس دنیا میں بھی اس سے بڑا فائدہ ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کا دل مسرور اور مطمئن رہتا ہے۔غریبوں کو اس پر حسد نہیں ہوتا بلکہ وہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مزید دولت دے۔ آنحضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرزندِ آدم! تو میرا عنایت کردہ مال خرچ کئے جا، میں تم کو برابر دیا کروں گا۔

 

اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے ارشادارت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

(ماخوذ از ’’آپ تقریر کیسے کریں؟‘‘ جلد اول)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے