بچوں کے لئے رسالت پر تقریر| بچوں کے لئے تقاریر

بچوں کے لئے تقاریر

رسالت

بچوں کے لئے رسالت پر تقریر
بچوں کے لئے رسالت پر تقریر

 

الحمد للّٰہ الذي کفیٰ، و الصلاۃ و السلام علیٰ رسولہ المصطفیٰ، و علیٰ اٰلہ  و أصحابہ ذي المجد و الصفا، أما بعد: فقد قال اللہ تعالیٰ:’’إنّا أرسلناک بالحقّ بشیراً و نذیراً‘‘۔ و قال اللّٰہ تعالیٰ: ’’لقد کان لکم في رسولِ اللّہ أسوۃ حسنۃ‘‘۔ صدق اللّٰہ العظیم۔

صدر محترم اور حاضرین انجمن!

یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے کچھ کہنے کا حکم فرمایاہے۔ ایک طفلِ مکتب کی آپ لوگوں نے جو عزت افزائی فرمائی ہے، اس کا میں تہِ دل سے شکر گذار ہوں۔

میں نے آپ حضرات کے سامنے دو آیتیں پڑھی ہیں۔ پہلی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے رسول! ہم نے آپ کو بلاشبہ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے اللہ کے پیغمبر میں بہترین رہنمائی ہے۔

وہ دور یاد کیجئے جب سارا عالم شرک و کفر میں مبتلا تھا، خدا کی عبادت گاہیں بتوں کا اڈہ بنی ہوئی تھیں، خدائے واحد کے بندے سینکڑوں معبودوں کے پیروں پر سر جھکا رہے تھ۔ دین حق کے طلبگاروں کو کوئی ایسا آدمی نہ ملتا تھا جو انہیں صراط مستقیم پر گامزن کرے۔

ایسے میں رحمت الٰہی متوجہ ہوئی۔ اب دین شریعت کا موسم خزاں رخصت ہو رہا تھا موسم بہار آیا۔ اور اس آن بان کے ساتھ آیا کہ چمنستان عالم گل و گلزار ہوگئے۔ شریعت حقہ کی خوشبو چہار دانگِ عالم میں پھیلنے لگی۔ یعنی پیغمبرِ آخرُ الزماں، ہادیٔ برحق، فخرِ رسل، سرکارِ دوعالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ ایک کامل اور مکمل شریعت لے کر اس دنیا میں تشریف لائے۔

اب دنیا والوں کے پاس ایک ایسی عظیم شخصیت آگئی تھی جو حق و صداقت کے علمبرداروں کو فلاحِ آخرت کی بشارت دے رہی تھی، اور ظلم و ستم، شرک و کفر کے علمبرداروں کو جہنم سے ڈرا رہی تھی۔

اب ایک ایسا انسان اس دنیا میں آگیا تھاجو انسانی پیکر میں ہوتے ہوئے بھی سراپا روشنی تھا، جو انسانوں کے ساتھ رہتا، شادی بیاہ کرتا، کھاتا پیتا، جنگوں میں سپہ سالاری کرتا، اس کے باوجود وہ بے داغ تھا، اس کے کردار کی طرف کسی کی انگلی اٹھی اور نہ اٹھ سکتی تھی۔

صراطِ مستقیم کے شیدائیوں کو اب ایک نمونہ مل گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس نمونے کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کا ڈھانچہ درست کرلیا۔

آئیے! ہم اور آپ بھی اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان کے راستے پر چلائے۔میں اپنی تقریر کو اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں:

 
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں
و آخر دعوانا أن الحمد لِلّٰہ ربّ العالَمین۔
(ماخوذ از ’’آپ تقریر کیسے کریں؟‘‘ جلد اول)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے