نو مسلموں کے احکام قسط ۳ | نو مسلموں کی طہارت سے متعلق احکام| نو مسلمین کے ختنہ کے احکام

نو مسلموں کے احکام، قسط:۳

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
نو مسلموں کی طہارت سے متعلق احکام
غسل کے احکام
حیض و نفاس کی حالت میں قبول اسلام کے بعد غسل کا حکم
نو مسلمین کے ختنہ کے احکام
عورت کے حق میں ختنہ مستحب ہے
نو مسلموں کے احکام قسط ۳
نو مسلموں کے احکام قسط ۳

 

نو مسلموں کی طہارت سے متعلق احکام

غسل کے احکام

اسلام نے صفائی و پاکیزگی پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور جابجا قرآن کریم نے پاکی سے متعلق احکام بیان کرکے صفائی کی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’إن اللّٰہ یحب التوابین و یحبّ المتطھرین‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲) اگر حالت جنابت میں نہ ہو تو غسل کرنا صرف مستحب ہے: و واحد مستحب وھو غسل الکافر إذا أسلم و لم یکن جنباً۔ (ھندیہ: ج۱ ص۱۶) اگر حالت جنابت میں ہو تو غسل واجب ہوگا؛ کیونکہ اسلام لانے سے جنابت ختم نہیں ہوگی؛ کیونکہ اسلام بقاء جنابت کے منافی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اسلام لانے پر وہ ناپاکی اس کی باقی رہتی ہے جو پہلے سے تھی؛ اور اسلام بقاء حدث کے منافی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بقائے جنابت کے بھی منافی نہیں ہوگا۔ چنانچہ علامہ کاسانی فرماتے ہیں: أما المستحب فھو غسل الکافر إذا أسلم کما روي أن رسول اللّٰہ ﷺ کا یأمر الغسل من جاء یرید الإسلام و أدنی درجات الأمر الندب و الاستحباب۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۱۴۵)

حیض و نفاس کی حالت میں قبول اسلام کے بعد غسل کا حکم

اگر کسی عورت نے حالت حیض میں اسلام قبول کیا، اور اس کے بعد پاک ہوگئی تو بالاتفاق غسل کے بعد ہی نماز وغیرہ ادا کرے گی۔ البتہ اگر حالت کفر ہی میں حیض یا نفاس سے پاک ہوگئی تو اس کے لئے غسل واجب ہے: فأما إذا علم کونہ جنباً و أسلم قبل الاغتسال، یلزمہ لأن الإسلام لا ینافي بقاء الجنابۃ بدلیل أنہ لا ینافي بقاء الحدث۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۱۴۹)

نو مسلمین کے ختنہ کے احکام

ختنہ ان امور میں سے ہے جنہیں نبی کریم ﷺ نے فطرت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عن عمار بن یاسر أن رسول اللہ ﷺ قال: من الفطرۃ المضمضۃ و الاستنشاق و السواک و قص الشارت و تقلیم الأظفار و نتف الإبط و الاستحداد و غسل البراجم و الانتضاح و الاختتان۔ (سنن ابن ماجہ: ج۱ ص۲۵)آپ ﷺ نے فرمایا: کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھوں کا کاٹنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بالوں کا صاف کرنا،زیر ناف بالوں کا صاف کرنا اور ختنہ کرنا امور فطرت میں سے ہیں۔ ختنہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہاء اور علماء کی مختلف آرائیں ہیں۔ بعض اسے وجب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک سنت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، امام حسن بصریؒ اور بعض حنابلہ کے نزدیک یہ سنت ہے۔ اور امام مالکؒ، امام احمدؒاور امام اوزاعیؒ کے نزدیک واجب اور ضروری ہے۔ شافعیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔

ختنہ کو سنت قرار دینے والوں کی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت سداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: الختان سنۃ للرجال مکرمۃ للنساء۔ (بیہقی، شعب الایمان: ج۸ ص۳۳۵)ختنہ مردوں کے لئے سنت اور عورتوں کےلئے اچھی چیز ہے۔ حضرت امام حسن بصری ؓ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ان میں سفید و سیاہ فام، رومی و فارسی اور حبشی ہر قسم کے لوگ تھے، مگر آپ نے ان کے اسلام قبول کرنے سے قبل کبھی یہ تفتیش نہیں فرمائی کہ ان کا ختنہ ہوا ہے یا نہیں۔

ختنہ کو واجب قرار دینے والے حضرات کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ثم أوحینا إلیک أن اتبع ملۃ إبراھیم حنیفاً۔ (النحل: ۱۲۳) پھر ہم نے ان پر وحی کی کہ تم پورے طور پر ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو۔ ظاہر ہے کہ پورے طور پر ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا ختنہ بھی ضروری ہوگا۔ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کا ایک ارشاد ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ختنہ کا ذکر ہے: عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ: اختتن إبراھیم النبي و ھو ابن ثمانین۔ (بخاری شریف: ج۲ ص۹۳۱، باب الختان بعد الکفر) ابراہیمؑ نے ۸۰ سال کی عمر میں ختنہ کروایا۔

اور ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے جسے حضرت عتیر بن کلیبؓ نے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں آنحضرت ﷺ کے پاس مسلمان ہوکر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ألق عنک شعر الکفر و اختتن۔ (سنن ابی داؤد: ج۱ ص۵۱، باب الرجل یسلم فیؤمر بالغسل) کفر کے بالوں کو کاٹ ڈالو اور ختنہ کرلو۔

الغرض آیت قرآنی سے ہمیں سیدنا حضرت ابراہیمؑ کی اتباع کا حکم ہوا ہے اور احادیث سے ابراہیمؑ کے ختنہ کا ثبوت ہے کہ حضرت ابراہیم کا ختنہ۸۰ سال کی عمر میں ہوا، لہٰذا یہ ہماری ہی شریعت میں سے ہوا۔ اس لئے ختنہ کرانا واجب ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر واجب نہ ہوتا تو اس کی وجہ سے کشف عورت (ستر کھولنے) کی اجازت نہ ہوتی۔ جبکہ خاتن کو اس کی طرف نظر کرنے کی اجازت ہے۔ وجوب اس طرح بھی ثابت ہورہا ہے کہ ختنہ مسلمانوں کا شعار اور علامت ہے۔ لہٰذا تمام شعائر کی طرح اس کو بھی واجب ہونا چاہیے۔

عورت کے حق میں ختنہ مستحب ہے

جہاں تک عورت کے ختنہ کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے اس طرف اشارہ ملتا ہے، جس میں آپؐ نے عورت کی شرمگاہ کو بھی ختنہ کی جگہ قرار دیا۔ آپؐ نے وجوب غسل کے بارے میں فرمایا: عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال إذا قعد بین شعبھا الأربع و ألزق الختان بالختان فقد وجب الغسل۔ (سنن ابی داؤد: ج۱ ص۲۸) یہ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ عورتوں کا ختنہ ہونا چاہیے؛ اس لئے کہ شرمگاہ میں ایک زائد کھال ہوتی ہے جس کو زائل کردینے میں صفائی بھی زیادہ ہوتی ہے اور مرد و عورت کے باہمی ملاپ میں لذت بھی بڑھ جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے عورتوں کے لئے ختنہ کو واجب کہا ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر ختنہ واجب نہیں ہوتا تو محض ایک مستحب کام کے لئے عورتوں کے ستر دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ نیز عورتوں کے ختنہ کی جگہ جو بڑھی ہوئی کھال رہتی ہے وہ نجاست ہے اور پاکی کے لئے رکاوٹ ہے؛ اس لئے اس کو کاٹنا ضروری ہے۔ تاکہ اس کی عبادت درست ہوسکے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ کا ایک قول ہے کہ ختنہ کرنا مردوں کے لئے واجب ہے اور عورتوں کے حق میں اولیٰ ہے واجب نہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: و الدلیل علیٰ وجوبہ أن ستر العورۃ واجب، فلو لا أن الختان واجب لم یجز ھتک حرمۃ المختون بالنظر إلیٰ عورتہ من أجلہ، ولأنہ من شعار المسلمین فکان واجباً کسائر شعائرھم۔۔۔قال حنبل (أبو علي حنبل بن حنبل الشیباني ابن عم الإمام أحمد) سألت أبا عبد اللّٰہ عن الذي إذا أسلم تری لہ أن یظھر بالختان؟ فقال لا بد من ذالک، قلت: و إن کان کبیراً أو کبیرۃ؟ قال: أحبّ إليّ أن یتطھر لأن الحدیث’’اختتن إبراھیم و ھو ابن ثمانین سنۃ‘‘ قال تعالیٰ: ملۃ أبیکم إبراھیم ، و یشرع الاختتان في حق النساء أیضاً۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۱ ص۷۱)

قائلین سنت اپنی دلیل اس طور پر پیش کرتے ہیں کہ خود اللہ کے نبی ﷺ نے ختنہ کے سنت ہونے کے بارے میں بتایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس حدیث میں وارد ہے کہ پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں، انہی میں قص شار ب اور تقلیم اظفار بھی ہے۔ اور یہ دونوں واجب نہیں ہیں۔ لہٰذا ان پر قیاس کرتے ہوئے ختنہ بھی واجب نہیں ہونا چاہیے۔ الغرض دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ختنہ کروانا سنت کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس لئے اس سنت کو ضرور ادا کرنا چاہیے۔ اور جہاں تک ممکن ہو اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے