بچوں کے لئے جرأت و شجاعت کے موضوع پر تقریر | بچوں کے لئے تقاریر | Urdu speech for children

بچوں کے لئے جرأت و شجاعت کے موضوع پر تقریر

بچوں کے لئے جرأت و شجاعت کے موضوع پر تقریر
بچوں کے لئے جرأت و شجاعت کے موضوع پر تقریر

 

جرأت و شجاعت

الحمدُ لِلہِ الّذِيْ جَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَ النُّوْر، وَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ محمدٍ رَافِعِ الظُّلْمِ و الشُّرُوْر، و علیٰ اٰلِہٖ و أصْحَابِہٖ ذِيْ الجُرْأۃِ و الشُّعُوْر، أمّا بَعْد: فَقَدْ قَالَ اللہُ تَعَالیٰ ’’یآ أیُّھَا الّذِیْنَ اٰمَنُوْا إذا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا۔

  محترم حاضرین!

  اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا مقصد انسانی زندگی کو سنوارنا ہے۔ وہ نہ تو یہ کہتا ہے کہ ہر جگہ تشدد سے بچے۔ اور نہ یہ کہتا ہے کہ عدم تشدد کو نظریۂ زندگی بنالیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر چیز اپنے وقت پر مفید ہوتی ہے۔ تواضع، خاکساری، درگذر اور بردباری بھی ایک وصف ہے۔ اور ایسی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے آراستہ انسانوں سے خوش رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ثابت قدمی، جرأت، محبت، بہادری بھی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو شہید یا غازی بنا دیتی ہے، یہ صفت انسان کو کامیابی کی ان بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے جہاں بزدلی کا گذر تک نہیں۔ یہی جرأت و ہمت تھی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے سامنے کھڑا کردیا۔ یہی جرأت تھی جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابھارا کہ وہ بتوں کو پاش پاش کردیں۔ یہی جرأت تھی جس نے پیغمبر آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ کی سنگلاخ سرزمین پر کفار کے نرغہ میں اعلان حق کرایا۔ سوچئے تو ذرا کہ اگر مسلمانوں میں جرأت و ہمت اور جوانمردی نہ ہوتی تو کیا وہ بدر میں ۳۱۳ ہوتے ہوئے ایک ہزار کفار کا مقابلہ کرسکتے؟ کیا اگر عزم و حوصلہ اور شجاعت و بہادری کا جذبہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام میں نہ ہوتا تو وہ ایران اور روم کا تختہ الٹ سکتے تھے؟ نہیں اور سو بار نہیں۔

 

  قرآن جس طرح ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جو عفو و درگذر سے کام لیں، جو غصہ پی جائیں، جو کسی کی گالی سن کر برداشت کرلیں، جو کسی کی غلطی معاف کریں۔ اسی طرح قرآن ان لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو خدا کی راہ میں پورے عزم کے ساتھ لگ جائیں۔ دشمن چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں۔ تیروں کی بارش ہورہی ہو، پھر بھی مسلمان کو پشت پھیر کر بھاگنا نہیں ہے۔ ان لوگوں کی بڑی مذمت کی گئی ہے جو دشمن کے مقابلے سے میدان چھوڑ کر بھاگ آئیں۔

 

  محترم دوستو!

  آج کے زمانے میں جبکہ ہم ایک ہنگامی دور سے گذر رہے ہیں، فسادات کے بگولے ملک کے گوشے گوشے اور دیش کے ہر ہر خطے مین ناچ رہے ہیں۔ ایسے دور میں ہمارے اندر جرأت کا وہ عظیم خزانہ پیدا ہوجانا چاہیے جو ہمیں ہر موقع پر ثابت قدم رکھے۔ اور دشمن کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ مسلمان گاجر مولی نہیں ہیں کہ جب چاہیں انہیں چاقو سے کاٹ کر پھینک دیں۔ بلکہ یہ وہ سمندر کی لہریں ہیں جنہیں روکا نہیں جاسکتا۔ یہ وہ تناور درخت ہیں جنہیں باد و باراں اور طوفان اپنی جگہ سے ہٹا نہیں سکتے۔ یہ وہ آہنی ستون ہیں جنہیں ہلایا نہیں جاسکتا۔

 

 سامعین کرام!

 ہم اگر اپنے اندر اتنا عزم و ثبات، اتنا پختہ ارادہ کرلیں تو یقین رکھئے کہ ہمیں اپنے مقام سے کوئی طاقت ہٹا نہیں سکتی۔ اور بغیر اتنا حوصلہ رکھے ہوئے آپ اللہ کی مدد کی امید نہ رکھئے۔ اگر بدر کے میدان میں تین سو تیرہ انسان عزم و حوصلہ کی چٹان نہ بن گئے ہوتے تو مکہ کی آہن پوش فوجیں مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتیں۔

 

  دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور آپ میں ہمارے اسلاف کا عزم و ثبات پیدا کردے۔ آمین

 

و اٰخِرُ دَعْوَانَا أنِ الحمدُ لِلہِ رَبِّ العالَمِیْن

(ماخوذ از ’’آپ تقریر کیسے کریں؟‘‘ جلد اول)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے