نو مسلموں کے احکام، قسط:۱۳
از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری
اس قسط میں آپ پڑھیں گے:نو مسلموں کی زکوٰۃ سے متعلق احکامحالت کفر میں کمائے ہوئے اموال کا حکمنومسلم اگر زکوٰۃ کی فرضیت سے لاعلم ہونومسلم بچہ کے اموال کی زکوٰۃنو مسلم کے لئے صدقۃ الفطر کا وجوبنومسلم کے حج کے احکامنومسلم کو فرضیت حج کا علم ہونا ضروری ہےذبح، قربانی اور عقیقہ کے احکامکسی کافر نے ایام قربانی میں اسلام قبول کیااگر نومسلم تسمیہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو
نو مسلموں کی زکوٰۃ سے متعلق احکام
عبادات میں زکوٰۃ کی حیثیت دوسری عبادات سے مختلف ہے؛ اس لئے کہ زکوٰۃ خالق اور مخلوق دونوں کا حق ہے۔ جبکہ نماز اور روزہ صرف خالق کے حقوق میں داخل ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص زکوٰۃ ادا نہیں کر رہا ہے تو وہ خدا کی حق تلفی کے ساتھ مفلس و نادار مسلمانوں کا بھی حق مارنے والا ہوگا۔ حضور اقدس ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن روانہ کرتے وقت توحید و نماز کی ہدایت کرنے کے بعد زکوٰۃ کا حکم بیان فرمایا، جس میں جہاں اس بات کی صراحت ہے کہ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے، وہیں اس کی بھی وضاحت ہے کہ وہ بندوں کا حق ہے۔ یعنی زکوٰۃ کا مال مالداروں سے لے کر وہیں کے غریبوں میں تقسیم کردیاجائے گا: إنّ اللہ افترض علیھم صدقۃ تؤخذ من أغنیاءھم فتردّ علیٰ فقراءھم۔ (بخاری شریف: حدیث۱۳۹۵) (مسلم شریف: حدیث۲۹)
حالت کفر میں کمائے ہوئے اموال کا حکم
حالت کفر میں جو مال نومسلم شخص نے حاصل کیا تھا اور اب وہ اس کی ملکیت میں ہے اور اس پر تصرف کا اختیار بھی رکھتا ہے، تو آیا اس مال پر اسلام قبول کرنے کے بعد زکوٰۃ فرض ہوگی یا نہیں؟ یعنی گذشتہ کتنے سالوں سے زکوٰۃ کے بقدر مال کا وہ مالک ہوا ہے، اسلام لانے کے بعد اتنے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرے گا یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اتفاق ہے کہ کافر پر زکوٰۃ فرض نہ ہونے کے سبب ایام کفر کی زکوٰۃ اس پر فرض نہیں ہوگی: أنھا لا تجب علی الکافر الأصلي حتی لا یخاطب بالأداء بعد الإسلام۔ (بدائع الصنائع: ج۲ ص۷۷)
شریعت نے اس بات کا بھرپور لحاظ رکھا ہے کہ جو لوگ ابھی حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے ہیں۔ اور ایمان کی توفیق انہیں میسر نہیں ہوئی ہے۔ وہ شریعت کے تفصیلی احکام کے مخاطب نہیں ہیں؛ کیونکہ اگر ان پر زکوٰۃ فرض کی جائے گی تو اسلام کی جانب سے گویا ان پر جبر لازم آئے گا۔ جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف اعلان کیا ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی پر جبر نہیں ہے۔
نومسلم اگر زکوٰۃ کی فرضیت سے لاعلم ہو
زکوٰۃ کی فرضیت سے ناواقف رہنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کافر شخص اسلام قبول کرنے کے بعد دار الحرب ہی میں مقیم رہا، جہاں اس کی ملاقات کسی عالم سے نہیں ہوئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شخص دار الاسلام ہی میں ہے، لیکن کسی وجہ سے اس کو زکوٰۃ کی فرضیت کا علم نہیں ہوسکا۔ تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ دار الاسلام میں ہونے کی شکل میں زکوٰۃ کی فرضیت کا علم نہ ہونے کے باوجود بھی زکوٰۃ فرض ہوجائے گی۔ اور جتنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے اس کی ادائیگی لازم ہوگی؛ اس لئے کہ مالکیہ، شوافع، حنابلہ، ابن المنذر اور احناف میں امام زفرؒ کا مسلک ہے کہ زکوٰۃ فرض ہونے کے لئے زکوٰۃ کی فرضیت کا علم ہونا ضروری نہیں ہے: ذھب المالکیۃ و الشافعیۃ و الحنابلۃ و ابن المنذر وزفر من الحنفیۃ إلی أن العلم بکون الزکاۃ مفروضۃ لیس شرط لوجوبھا۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۷۹)
عبارت بالا سے واضح ہوا کہ ان تمام ائمہ کے نزدیک فرضیت کا علم ہونا شرط نہیں ہے۔ گویا دونوں صورتوں میں زکوٰۃ کی ادائیگی اس شخص پر لازم آئے گی جس کو زکوٰۃ کی فرضیت کا علم نہ ہوسکا۔ احناف بھی دار الاسلام میں ہونے کی صورت میں وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں: بخلاف الذمي إذا أسلم في دارنا فإنہ تجب علیہ الزکاۃ علم أو لم یعلم۔(ہندیہ: ج۱ ص۲۰۴) ذمی جب دار الاسلام میں اسلام قبول کرے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، چاہے اس کو علم ہو یا نہ ہو۔ اس لئے کہ دار الاسلام میں کسی سے بھی علم شریعت حاصل کرسکتا ہے، اسے سوال کرنے کا اختیار ہے، پھر بھی اس کا سوال نہ کرنا اس کے کسل اور عدم توجہی کی بنا پر ہواہے، جس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔
نومسلم بچہ کے اموال کی زکوٰۃ
نومسلم بچہ کے مال سے زکوٰۃ ادا نہیں کی جائے گی؛ کیونکہ بچہ پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ یعنی اس کے اموال سے ولی زکوٰۃ نہیں نکالے گا۔ البتہ صدقۃ الفطر اور عشر نکالے گا۔ ان کے قول کی دلیل یہ حدیث ہے: رفع القلم عن ثلاث، عن صبي حتی یبلغ، و عن المجنون حتی یفیق۔ (ابو داؤد، باب في المجنون)
نو مسلم کے لئے صدقۃ الفطر کا وجوب
صدقۂ فطر بعض شرائط کے ساتھ واجب ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمرؓ کی روایت ہے: فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر صاعاً من تمرٍ أو صاعاً من شعیرٍ علی العبد و الحر و الذکر و الأنثیٰ و الصغیر و الکبیر من المسلمین۔ (صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ، باب فرض صدقۃ الفطر۱۵۰۳) صدقۂ فطر کافر پر فرض نہیں ہے؛ اس لئے حالت کفر کے صدقۂ فطر کی ادائیگی اس پر لازم نہیں آئے گی۔
نومسلم کے حج کے احکام
کلمۂ شہادت کے بعد جو چوتھا رکن ہے وہ حج ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے: و للہِ علی الناسِ حِجُّ البیتِ مَنِ استطاعَ إلیہ سبیلاً، و مَنْ کَفَرَ فإنّ اللہَ غنيٌّ عنِ العالمین۔ (سورۃ آل عمران: آیۃ۹۷)
نومسلم کو فرضیت حج کا علم ہونا ضروری ہے
نومسلم کو حج فرض ہونے کا علم ہونا بھی شرط ہے۔ اگر کسی نے اسلام قبول کیا اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ حج فرض ہے تو ایسی صورت میں وہ معذور ہوگا: (و منھا العلم بکون الحج فرضاً) و العلم المذکور یثبت لمن في دار الإسلام بمجرد الوجود فیھا، سواء علم بالفرضیۃ أو لم یعلم۔۔۔و لمن في دار الحرب بإخبار رجلین أو رجل و امرأتین و لو مستورین أو واحد عدل، و عندھما لا تشترط العدالۃ و البلوغ و الحریۃ فیہ، کذا في البحر الرائق۔ (فتاویٰ ہندیہ: ج۱ ص۲۱۸) اگر کوئی شخص دار الاسلام میں ہے تو اس پر حج فرض ہوگا چاہے اسے فرضیت حج کا علم ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کوئی شخص دار الحرب میں ہے تو دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں خبر دیں۔ اس کو عام سمجھا جائے گا، چاہے وہ دونوں مستور الحال ہوں یا ایک عادل ہو۔ صاحبین کے نزدیک عدالت، بلوغ اور حریت کی بھی شرط نہیں ہے۔
ذبح، قربانی اور عقیقہ کے احکام
اسلام نے مسلمانوں کے لئے ان تمام جانوروں کو حلال قرار دیا ہے جن کو شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہو اور شریعت نے ان کے کھانے اور استعمال کرنے کی اجازت بھی دی ہو۔ قرآن کریم کی تعلیمات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی مخلوقات موجود ہیں، ان سب کی پیدائش انسان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے: ھو الذي خَلَقَ لَکُمْ ما في الأرضِ جمیعاً۔ (سورۃ البقرۃ: آیۃ۲۹)اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تم انسانوں کے لئے ہی زمین کی تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے۔
کسی کافر نے ایام قربانی میں اسلام قبول کیا
قربانی کے تعلق سے یہ بات واضح ہے کہ قربانی مسلمان ہی پر ضروری ہے۔ اور کافر اس کا مکلف نہیں ہے۔ تمام ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص وقت شروع ہونے سےقبل اسلام قبول کرلیتا ہے، یا وقت کے اندر اندر قبول کرلیتا ہے، تو ایسی صورت میں اگر نومسلم میں عام مسلمانوں کی طرح تمام شرائط پائی جارہی ہیں تو وہ قربانی کرے گا۔ اس لئے کہ قربانی کے پورے وقت میں اسلام کا پایا جانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ درمیان میں قربانی کے وقت کا مختصر حصہ پالینا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ پورے وقت کو پالیاہو۔ چنانچہ ہندیہ میں ہے: و لا یشترط الإسلام في جمیع الوقت من أولہ إلیٰ اٰخرہ، حتی لو کان کافراً في أول الوقت ثم أسلم في اٰخرہ تجب علیہ؛ لأن وقت الوجوب منفصل عن أداء الوجوب، فیکفي في وجوبھا بقاء جزء من الوقت۔ (فتاویٰ ہندیہ: ج۵ ص۲۹۲) پورے وقت میں اسلام کا پایا جانا شروع سے آخر تک شرط نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کوئی کافر شخص تھا، پھر قربانی کے آخر وقت اس نے اسلام قبول کرلیا تو اس پر قربانی واجب ہوگی؛ اس لئے کہ وقت وجوب وقت سے منفصل ہوتا ہے۔ لہٰذا وقت کا تھوڑا سا حصہ بھی وجوب ادا کے لئے کافی شمار ہوگا۔
معلوم ہوا کہ اگر قربانی کے دنوں میں سے کسی بھی دن اسلام قبول کرلے اور مالی استطاعت رکھتا ہو تو قربانی اس پر واجب ہوگی۔ البتہ قربانی کے وجوب کا علم ہونے اور نہ ہونے سے مسائل میں فرق پڑے گا۔
اگر نومسلم تسمیہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو
اگر نومسلم ذبح کرے اور تسمیہ کے الفاظ اسے یاد نہیں ہیں، یا ادا کرنے سے قاصر ہے، تو ایسی صورت میں صرف اللہ کا نام لے کر ذبح کرے گا: لو أن رجلاسمّٰی علی الذبیحۃ بالرومیۃ أو بالفارسیۃ و ھو یحسن العربیۃ أو لا یحسنھا أجزأ ذلک من التسمیۃ۔ (بدائع الصنائع: ج۵ ص۲۸)(جاری)
- پچھلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں:
- اگلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں:





