نو مسلموں کے احکام، قسط: ۱۵
از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری
اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
زوجین کا ایک ساتھ قبول اسلام
دو حقیقی بہنوں سے کئے ہوئے نکاح کا حکم
نو مسلم کی چار سے زائد بیویوں کا حکم
حالت کفر میں ماں، بیٹی وغیرہ کو نکاح میں جمع کرنے کا حکم
زوجین کا ایک ساتھ قبول اسلام
کفار و مشرکین کے کئے ہوئے نکاح اس وقت درست ہیں جب کہ ان کے دین و عقیدہ کے مطابق درست ہوں۔ لہٰذا اگر دونوں نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا ہو تو ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور وہ حسب سابق میاں بیوی رہیں گے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: حتی لو أسلما یقران علیٰ ذلک عند علمائنا الثلاثۃ۔ (فتاویٰ ہندیہ: ج۱ ص۳۳)
علامہ ابن قدامہ نے اس پر علماء کا اجماع لکھا ہے: ذکر ابن عبد البر أنہ إجماع من أھل العلم و ذلک لأنہ لم یوجد منھم اختلاف دین۔ (المغني لابن قدامہ: ج۷ ص۱۵۳)
ایک ساتھ قبول اسلام سے مراد یہ ہے کہ کم از کم مجلس کا اعتبار کیا جائے؛ اس لئے کہ مجلس کا حکم مکمل حالت عقد میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک مجلس میں قبول کرلیں گے تو کافی ہوگا۔ صاحب ’’الانصاف‘‘ نے ایک قول اسی قسم کا نقل کیا ہے۔ اور پھر اپنی رائے میں اس کو درست قرار دیا ہے: و قیل: ھما علیٰ نکاحھما إن أسلما في المجلس و ھو احتمال في ’’المغني‘‘، قلت: و ھو الصواب؛ لأن تلفظھما بالإسلام دفعۃ واحدۃ، فیہ عسر و اختارہ الناظم۔ (الانصاف: ج۲۱ ص۱۹)
دو حقیقی بہنوں سے کئے ہوئے نکاح کا حکم
نومسلم اگر اس صورت میں اسلام قبول کرتا ہے کہ دو حقیقی بہنیں اس کے نکاح میں ہیں تو ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا؟ اس سلسلے میں فقہاء کرام کی آراء اس طرح ہیں:
و قال مظھر: ذھب الشافعي و مالک و أحمد إلیٰ أنہ أسلم رجل تحتہ أختان و أسلمتا معہ، کان لہ أن یختار إحداھما سواء کانت المختارۃ تزوجھا أولا أو آخراً، و قال أبو حنیفۃ إن تزوجھما معاً لا یجوز لہ أن یختار واحدۃ منھما، و إن تزوجھما متعاقبتین لہ أن یختار منھما دون الاٰخرۃ۔ (تحفۃ الأحوذي: ج۴ ص۳۳۹) مظہر نے فرمایا کہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر دونوں بہنوں نے شوہر کے ساتھ ہی اسلام قبول کرلیا ہے تو دونوں میں سے جسے چاہے اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ چاہے اس سے پہلے نکاح کیا ہو یا بعد میں۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ اگر ایک ہی عقد میں دونوں سے نکاح کیا ہے تو اسے اختیار نہیں ہے کہ کسی ایک کو بھی اپنے نکاح میں رکھے۔ ہاں اگر آگے پیچھے ان دونوں سے نکاح کیا ہے تو ایسی صورت میں پہلے جس لڑکی سے شادی کی تھی اس کو نکاح میں رکھے گا دوسری کو نہیں۔
اور اگر حالت کفر ہی میں ایک بہن کو طلاق دے دی تھی تو چاہے ایک ہی عقد میں دونوں سے نکاح کیا ہو پھر بھی اسلام قبول کرنے کے بعد اس لڑکی سے نکاح باقی رہے گا۔ جو ابھی اس کی زوجیت میں ہے اور جس نے اپنے شوہر کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے: لو تزوج أختین في عقدۃ واحدۃ ثم فارق إحداھما قبل الإسلام ثم أسلم أن الباقیۃ نکاحھا علی الصحۃ حتی یقرا علیہ، کذا في الکفایۃ۔ (ہندیہ: ج۱ ص۳۳۷)
نو مسلم کی چار سے زائد بیویوں کا حکم
اسلام میں صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ قرآن و حدیث اور آثار صحابہؓ کی روشنی میں تمام علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک متفق علیہ بات ہے کہ آزاد شخص چار اور غلام دو بیویاں رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص نے حالت کفر میں چار سے زائد شادیاں کر رکھی تھیں تو اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے لئے ضروری ہوگا کہ چار سے زائد بیویوں کو چھوڑ دے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت غیلان بن سلمہؓ سے جنہوں نے دس عورتوں سے شادی کر رکھی تھی، فرمایا: أمسک أربعاً و فارق سائرھن۔ (تحفۃ الأحوذي شرح ترمذي ج۴ ص۲۳۳، باب ما جاء في یسلم)
اسی طرح حضرت نوفل بن معاویہ کہتے ہیں: أسلمت و تحتي خمس نسوۃ، فقال لي النبي ﷺ فارق واحدۃ منھن۔
اس مسئلہ میں صاحبؒ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ نے امام ابوحنیفہؒ کا اختلاف نقل کیا ہے، جب کہ تمام فقہاء جن میں امام حسن، مالک، لیث، اوزاعی، ثوری، شافعی، اسحاق اور محمد بن الحسن شامل ہیں۔ ان کے نزدیک متفق علیہ حکم ہے کہ متعدد بیویوں میں سے جن چار کا چاہے انتخاب کرسکتا ہے: و أنہ إذ قال اخترت فلانۃ و فلانۃ للنکاح ثبت نکاحھن و حصلت أربعاً أیتھن شاء و یفارق ما بقي۔ و أما أبوحنیفۃ قال: الأربع الأول جائز و نکاح من بقي منھن باطل، و ھو قول إبراھیم النخعي۔ (تحفۃ الأحوذي:ج۴ ص۲۴۳) جب نومسلم شخص یہ کہے کہ میں نے فلانہ اور فلانہ کو اپنے نکاح میں باقی رکھا۔ ایسی صورت میں جس جس کا نام لیا اس کا نکاح باقی رہے گا۔ اور بقیہ کا نکاح باطل ہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جن چار عورتوں سے پہلے نکاح کرچکا تھا وہ نکاح میں رہیں گی اور باقی کا نکاح باطل ہوجائے گا۔
حالت کفر میں ماں، بیٹی وغیرہ کو نکاح میں جمع کرنے کا حکم
ماں، بیٹی کو ایک ساتھ جمع کرنا یا ان کے علاوہ جو دیگر محرمات ہیں، مثلاً بھانجی، بھتیجی وغیرہ۔ ان کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ان محرمات میں سے کسی سے نکاح کیا اور یہ نکاح ایک ہی عقد میں ہوا تو ان دونوں کے درمیان تفریق کرادی جائے گی۔ اور یہ دونوں شوہر بیوی کی طرح نہیں رہ سکتے ہیں: و لو کان الحربي تزوج أماً و بنتاً ثم أسلم فإن کان تزوجھما في عقدۃ واحدۃ فنکاحھما باطل۔ (ہندیہ: ج۱ ص۳۳۹، الباب العاشر في نکاح الکافر)
اگر یہ تفریق دخول سے پہلے ہوگئی تو ایسی صورت میں نہ تو اس عورت کا مہر مرد کے ذمہ لازم ہے اور نہ ہی عورت پر عدت لازم ہے۔ اس لئے کہ یہ نکاح فاسد ہے۔ اور نکاح فاسد میں یہ دونوں چیزیں (مہر و عدت) نہیں ہوتی ہیں: لو کان الحربي تزوج أماً و بنتاً ثم أسلم فإن کان تزوجھما في عقدۃ واحدۃ فنکاحھما باطل۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ: ج۳ ص۱۷۵،۱۷۶)
اور اگر ان دونوں سے دخول کرچکا ہے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ان کو مہر مثل ملے گا۔ اور جس کا نکاح ختم کیا جائے گا اس پر عدت بھی لازم ہوگی؛ اس لئے کہ نکاح فاسد میں دخول ہوجائے تو مہر اور عدت لازم ہوتی ہے۔
اگر ہر ایک سے الگ الگ عقد میں شادی کی تھی تو جس سے پہلے نکاح کیا تھا صرف اس کا نکاح درست ہوگا۔ بعد والی سے تفریق کرادی جائے گی۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب کہ کسی ایک سے بھی دخول نہ کیا ہو، لیکن اگر دخول ہوگیا ہو تو بالاجماع نکاح باطل ہوجائے گا: و إن تزوجھما متفرقاً، فنکاح الأولیٰ جائز، و نکاح الأخریٰ باطل في قول أبي حنیفۃ و أبي یوسف، و ھٰذا إذا لم یکن دخل بواحدۃ منھما، و لو أنہ کان دخل بھما جمیعاً فنکاحھما جمیعاً باطل بالإجماع، و کذا في البدائع۔ (ہندیہ ج۱ ص۳۳۹)
اگر تفریق دخول کے بعد ہوئی ہو تو مہر مثل اس لئے لازم ہوگا کہ وطی کرنے سے در اصل حد لازم آتی ہے، اور یہاں نکاح کے شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوگئی۔ لہٰذا اس کے عوض مہر لازم ہوگا۔ (جاری)