بچوں کے لئے آخرت کے موضوع پر تقریر
آخرت
الحمدُ لِلّٰہِ الّذي لَمْ یَزَلْ وَ لَا یَزَال، وَ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ محمدٍ ﷺ، و علیٰ اٰلِہٖ و أصحابِہٖ صاحبِي الکَمال، أمّا بَعْد: فَقَدْ قالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ فِي القراٰنِ المَجید و الفُرْقانِ الحَمِید، أمَّا الذِیْنَ سُعِدُوا فَفِيْ الجَنَّۃِ خالدِیْنَ فِیْھا و قالَ اللّٰہُ تعالیٰ أمّا الذِیْن شَقُوْا فَفِي النّار۔
محترم حاضرین!
ابھی ابھی میں نے آپ کے سامنے قرآن مجید کی دو آیتیں پڑھی ہیں، اس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے: جو لوگ خوش قسمت ہیں وہ جنت میں ہیں، اسی طرح جو لوگ بدبخت ہیں وہ جہنم میں ہیں۔
اس دنیائے رنگ و بو میں جب انسان آنکھیں کھولتا ہے تو دنیا اسے چاروں طرف سے گھیرنا شروع کردیتی ہے۔ جس طرح کنویں کا مینڈک یہ سمجھتا ہے کہ اس کی دنیا کنواں ہے، اسی طرح کم عقل انسان یہ باور کرلیتا ہے کہ اسے ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے۔ اور اگر بالفرض کبھی مرنا بھی ہوگا تو فنا ہوجائے گا۔ ہڈیاں خستہ ہوجائیں گی۔ جسم کے اعضاء ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اور اس سے اس دنیا کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔
مگر اس دنیا میں انبیاء علیہم السلام تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ تمہارا یہ تصور بالکل غلط ہے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ یہاں تم آزمانے کے لئے بھیجے گئے ہو۔ یہاں کی تمہاری ہر حرکت اور ہر سکون کا حساب ہوگا۔ اگر اس دنیا کے رہنے والے انسان نیک عمل کریں گے، صحیح راستہ پر چلیں گے، حق و صداقت کے علمبردار رہیں گے، خالقِ کائنات کے احکام کے مطابق زندگی گذاریں گے، تو پھر مرنے کے بعد کامیابی ان کام قدم چومے گی۔ اور اگر اس دنیا کا بسنے والا انسان سرکشی اور غرور کے راستے پر چلے گا، خداوند قدوس کے احکام کی نافرمانی کرے گا، اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر اکڑکر چلنا چاہے گا، ظلم و ستم کی چنگاریوں سے اپنے بھائیوں کو جلانا چاہے گا، تو ایک دن آئے گا جب اسے اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا۔ جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں دو ہاتھ دیئے گئے تھے تاکہ تم کسی کمزور کی امداد کرو۔ تمہیں دو آنکھیں دی گئی تھیں تاکہ تم غلط اور صحیح کی تمیز کرسکو۔ تمہیں دو پیر دیئے گئے تھے تاکہ تم خدا کی عبادت کے لئے مسجد میں جاؤ۔ تمہیں عقل دی گئی تھی تاکہ تم باطل طاقتوں کی مکاریوں کو شکست دے سکو، اور حق کی آواز کو بلند کرو۔ کیا تم لوگوں نے ایسا کیا؟ اگر ایسا نہ کیا تو یاد رکھو کہ پھر جہنم کی یہ دہکتی ہوئی آگ ہے، اس میں تمہیں ڈالا جائے گا۔
محترم دوستو!
اس دنیا میں چند دن رہنا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، سرمایہ دار ہو یا مزدور، قوی ہو یا کمزور، عقلمند ہو یا بے وقوف، مرد ہو یا عورت، سب کو ایک دن یہ دنیا چھوڑنی ہے۔ یہاں کا سیم و زر، مال و دولت، جائیداد و زمین، دوکان و کوٹھیاں کوئی آپ کے ساتھ نہیں جائے گا۔ ہمیں یہ سب چھوڑ کر ایک ایسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارے نیک اعمال ہی کام دیں گے۔ چند پیسے جن کے ذریعے ہم نے کسی غریب کی مدد کی ہے، چند رکعتیں نماز جو ہم نے خلوص نیت سے ادا کی ہے، چند میٹھی باتیں جو ہم نے کسی مجبور و بے کس کو اطمینان دلانے کے لئے کی ہیں، یہی چیزیں ہمارے کام آئیں گی۔ اور دنیا کا تمام ساز و سامان ہمارے لئے بیکار ہوگا۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے
محترم دوستو!
جب موت آئے گی تو آپ کو ایک منٹ کیا ایک سکنڈ بھی فرصت نہیں دے گی۔
دوستو!
ہمیں اس وقت کے آنے سے پہلے تیار ہوجانا چاہیے۔ اور اپنا ٹھکانا ایسی جگہ بنانا چاہیے جہاں ہمیشہ آرام و سکون سے رہیں۔ وہ جگہ جنت ہے، جو مرنے کے بعد ملے گی۔ موت کے بعد والی زندگی کا نام آخرت ہے، جو آخر میں آئے گی۔ اگر ہم نے اللہ کی مرضی پر اپنے کو چلایا ہے تو ہم خوش قسمت رہیں گے۔ اور اگر ہم غلط راستے پر چلے ہیں تو بد قسمت کہلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو صحیح راستے پر چلائے۔ اور آخرت میں جنت ہمارا ٹھکانا بنائے۔ آمین
و اٰخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
(ماخوذ از ’’آپ تقریر کیسے کریں؟‘‘ جلد اول)
- نوٹیفیکیشن پانے کے لئے میرے ٹیلیگرام چینل کو سبسکرائب کریں۔