شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ (پہلی قسط)|خطبات جمعہ |خطبات قاسمی

پہلا خطبہ محرم
 

شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ (پہلی قسط)

شہادت فاروق اعظم
شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ
 
 نحـمـده و نصلي علٰى رسوله الكريم، أمّا بعد: فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم. بسم الله الرحمن الرحيم،
و لا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ أمْوَات، بَلْ أحْيَاءٌ و لٰكِن لا تَشْعُرُوْن۔
 
ترجمہ: اور نہ کہو ان کو جو مارے گئے خدا کی راہ میں کہ مردے ہیں۔ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو خبر نہیں۔
 
 حضرات گرامی!اسلام کے گلشن کو جن شہدائے اسلام نے اپنا قیمتی خون دے کر سدا بہار کیا ہے۔ ان میں حضرت امیر المؤمنین کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ آپ آسمان عدالت و شجاعت پر آفتاب بن کر چمکے اور اسلام کو ماہتاب عالمتاب بنا دیا آپ کو ہمیشہ یہ آرزو رہا کرتی تھی کہ اے مولائے کریم! مجھے اپنے راستہ میں شہادت کے درجہ سے سرفراز فرما۔ چنانچہ آپ سفر حج سے واپس تشریف لارہے تھے کہ راستہ میں کنکروں کا بستر بناکر لیٹ گئے۔ آسمان کی طرف دیکھا تو چاند اپنی دھیمی دھیمی کرنوں سے پورے صحرا کو روشن کر رہا تھا۔ آپ نے اسے نظر جما کر دیکھنا شروع کردیا۔ چاند پر مختلف کیفیتیں وارد ہوئیں کبھی چھوٹا ہوا کبھی بڑا، اور رات بھر اس کی مختلف شکلیں بدلیں۔ آخر شب جب چاند کمال سے زوال کی طرف آیا اور اس میں پہلے کی نسبت دھیما پن آگیا حضرت فاروق اعظمؓ چاند کی طرف دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی کہ الٰہی مجھے بھی اس چاند کی طرح مختلف ادوار سے گزرنا پڑا ہے۔اب میں پوری دنیا کو عدل و صدق کی روشنی دینے کے بعد محسوس کرتا ہوں کہ میرے قوی کمزور ہو گئے اور ہڈیاں ضعیف ہوگئیں، اب میں بار خلافت کا متحمل نہیں۔ الہی میں تیرا عاجز بندہ ہوں مجھے اپنے رفقاء کے ساتھ مسکن عطا فرمادے۔ چنانچہ آپ نہایت رقت اور سوز و گداز کے عالم میں دعا کرتے ہوۓ بارگاہ ایزدی میں عرض کر تے ہیں۔

دعاۓ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اللّٰھُمَّ إنِّي أسْئَلُکَ شھادۃً فِيْ سَبِیْلِک و وفاۃً في بَلَدِ رَسُولِک۔
ترجمہ: اے اللہ میں تیرے راستہ میں شہادت پانے کا سوال کرتا ہوں اور تیرے حبیب ﷺ کے شہر میں موت چاہتا ہوں۔
 

دعاۓ فاروق

 فاروق اعظمؓ کے دل سے نکلی ہوئی یہ دعاۓ سحر گاہی بارگاہ ایزدی میں قبول ہوگئی اور آپ کے سامنے ان احوال وآثار کا ظہور ہونے لگا جن کی تعبیر آپ کی شہادت کا عنوان تھی۔ چنانچہ آپ سفر حج سے واپس مدینہ تشریف لاۓ تو حضرت کعب نے آپ کے اوصاف و محاسن بیان فرماتے ہوۓ کہا: میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کا حسن تدبیر اور دائرہ خلافت کی تکمیل کے جو خاکے تورات میں موجود ہیں۔ ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خداوند قدوس آپ سے وہ تمام کام لے چکا ہے جس کے لیے آپ کو دامن نبوت سے وابستہ کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت کعب سے پوچھا کہ کیا میرا ذکر تورات میں بھی ہے۔ انہوں نے فرمایا: ہاں___! اس پر فاروق اعظمؓ نے بھیگی آنکھوں سے فرمایا کہ اے کعب! یہ سب سرکار دوعالم ﷺ کی صحبت اور ذات گرامی کی برکات کا نتیجہ ہے۔
 

قرآن کی تائید

 قرآن مجید میں اس کی تائید موجود ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ کے صحابہ کا تذکرہ تورات وانجیلمیں بھی موجود تھا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: "مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ و الَّذِيْنَ مَعَهٗ أَشِدَّآءُ عَلَى الكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَاناً سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُوْد، ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِيْ التَّوْرَاةِ وَ مَثَلُهُمْ فِيْ الإنْجِيْل”
ترجمہ: محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدے میں، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی، نشانی ان کی ان کے منھ پر ہے سجدہ کے اثر سے، یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں۔
 

دعا منظور ہوگئی

 سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنی شہادت کے لیے جو دعا مانگی تھی، وہ بارگاہ ایزدی میں منظور ہوگئی ابولؤلو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا۔ ایران کا مجوسی تھا۔ وہ ہر وقت فاروق اعظمؓ کی فتوحات کی خبروں سے کڑھتا رہتا تھا۔ خصوصاً امیر المؤمنین کے دور خلافت میں ایرانی فتوحات کی خبروں نے تو اس کے دل و دماغ کو جلاکر بھسم کردیا تھا۔ وہ اس فکر میں رہتا کہ اپنے ہم مذہب، ہم مسلک اور ہم وطنوں کا کسی نہ کسی طرح فاروق اعظم سے بدلہ لیا جائے۔ چنانچہ ایک دن وہ فاروق اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ میرا آقا مجھ سے زیادہ ٹیکس وصول کرتا ہے۔ آپ اس سے باز پرس کرکے میرا ٹیکس کم کرادیں۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس سے سوال کیا کہ تم کتنا ٹیکس دیتے ہو۔ اس نے کہا کہ دو درہم۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو کوئی زیادہ نہیں ہیں۔ تمہارے فن اور کاری گری کے لحاظ سے اتنا ٹیکس کوئی گراں بار نہیں۔ اس لیے مغیرہ بن شعبہؓ کو اس سے کم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سن کر ابولولو سیخ پا ہوگیا اور اندر ہی اندر جلتا بھنتا واپس چلا گیا۔ مگر اس کی آتش حسد اور جذبۂ انتقام اور بھی بھڑک اٹھا۔

فاروق اعظم نے ابو لولو کو طلب کیا

 ایک دن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابولولو کو طلب کرکے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تو بہت اچھی چکی بنالیتا ہے۔ اس لیے میں نے تجھے طلب کیا ہے۔ تا کہ ایک چکی مجھے بھی بناکر دو! اس پر ابولولو نے کہا میں آپ کے لئے ایسی چکی تیار کرکے دوں گا۔ جس کی شہرت مشرق و مغرب تک ہوگی۔ اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ میں تلوار کی کاٹ سے آپ کے تن بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اور یہ واقعہ مشرق و مغرب میں شہرت حاصل کرے گا۔ کیونکہ فاروق اعظم کا قتل کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوگا۔ بلکہ ایک عالم اس سے حیران و ششدر ہو جاۓ گا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ اس کی دھمکی کو اپنی بصیرت سے بھانپ گئے اور اپنے رفقاء سے فرمایا کہ اس غلام نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے۔
 

مقدمہ رجسٹرڈ نہیں کیا

 اگرچہ ابولولو نے اپنے الفاظ میں حضرت فاروق اعظمؓ کو قتل کی دھمکی دی تھی اور آپ نے اس کو محسوس بھی فرمالیا تھا۔ مگر اس کے خلاف کوئی فرد جرم عائد کرکے مقدمہ رجسٹرڈ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عدالت میں جب تک جرم واضح اور آشکارا نہ ہو اس وقت تک اس پر احتساب نہیں کیا جاتا۔ بغیر جرم کے کسی کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرنا اسلامی ریاست کے سربراہ اور حکمرانوں کو کبھی بھی زیب نہیں دیتا۔
 

حضرت فاروق اعظم پر نماز میں حملہ

 سید نا فاروق اعظمؓ نماز خود پڑھایا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کے لئے امامت، خطابت سرانجام دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اسلامی مملکت کے دوسرے امور کی طرف توجہ دینا اہم ہے۔ آخر وہ دن آ پہنچا۔ آپ نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے مکبر نے تکبیر کہی اور آپ نے حسب معمول صفیں درست کراکے اللہ اکبر پکارکر امامت شروع کرادی۔ ابولولو مجوسی جو آپ کے عقب میں بظاہر نماز کے لیے کھڑا تھا۔ لیکن دراصل وہ اس مذموم مقصد کے لیے تیار ہوکر آیا تھا کہ فاروق اعظمؓ جونہی نماز شروع کرائیں گے۔ پیچھے سے خنجر کے پے درپے وارکرکے آپ کو شہید کردیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے وہ زہر میں بجھا ہوا تیز دھار خنجر بھی اپنے ازار بند میں چھپا کر لایا ہوا تھا۔ فاروق اعظمؓ نے تکبیر کے بعد قرأت شروع فرمائی تو ابولولو بدبخت نے خنجر سے فوراً حملہ کردیا اور یہ حملہ اس تیزی سے کیا کہ چند منٹوں میں فاروق اعظمؓ زخمی ہوکر گرپڑے اور مصلے پر خون میں لت پت ہوکر تڑپنے لگے۔
 

اہمیت نماز

 حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخمی ہوکر گرتے وقت بھی فوراً حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کا بازو پکڑکر مصلے پر امامت کے لیے کھڑا کردیا اور اشارہ سے نماز مکمل کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ نے امیرالمؤمنین کے تڑپتے ہوئے جسم اطہر کو دیکھنے کے باوجود بھی اللہ کی نماز اور نیاز کو پورا کرنا ضروری سمجھا۔ کیونکہ زندگی کیا ہے۔ راہ محبوب میں جان دینا ہی تو زندگی ہے۔
 زندگی آمد برائے بندگی! یہ زندگی کی معراج ہے کہ انسان اپنی محبوب متاع لٹتی دیکھے پھر بھی دربار ایزدی میں محو سجدہ رہے۔ اور اپنی تمام نیازمندیوں اور آرزوؤں کا مرکز اسی ذات باری کو قرار دے۔ ’’قُلْ إنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ العٰلَمِيْن‘‘
ترجمہ: فرما دیجیے میری نماز اور قربانی اور میری زندگی اور موت اللہ ہی کے لیے ہے۔ جو پالنے والا ہے دونوں جہانوں کا۔
 میں قربان اس امام کے جس نے امام المسلمین کو تڑپتے دیکھ کر بھی رب کی نماز کو ادا کرکے اپنی عبدیت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور میں سو جان سے قربان اس فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جس نے حضرت عبد الرحمٰن رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو پکڑکر مصلے پر کھڑا کرکے یہ سبق دیا کہ میری جان جائے تو جائے لیکن محبوب کینماز نہ جائے۔
 
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

سیدنا فاروق اعظمؓ کے نقش قدم پر

 پہلی محرم کو مصلے پر تڑپتے ہوئے نماز کو مکمل کرانے والے فاروق اعظمؓ مدینہ یونیورسٹی کے اول پرنسپل تھے۔ جنہوں نے خون میں نہاکر نماز ادا کرنے کا سلیقہ بتایا اور سیدنا حسین بن علیؓ اسی مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے، جنہوں نے سیدنا فاروق اعظمؓ کے تڑپتے ہوئے جسم اور ادائے عاشقانہ سے نماز پڑھنا سیکھا اور اسے دس محرم کو میدان کربلا میں اپنے عمل سے ادا کرکے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ
 
نہ مسجد میں نہ مندر میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سایہ میں
نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سایہ میں
 
 حسین بن علیؓ کی نماز نمونہ تھی۔ اس نماز کا جو انہوں نے اپنے مقتدا اور پیشوا سیدنا فاروق اعظمؓ سے سیکھا تھا۔ امام عاشقاں سیدنا فاروق اعظمؓ نے یکم محرم کو جس نماز کی ابتدا کی تھی۔ حضرت حسین بن علیؓ نے دس محرم کو خون میں نہا کر اس نماز اور سجدوں کی تکمیل کردی۔ اس لیے عشق سیدنا فاروق اعظمؓ اور عشق حسین کے اس حسین امتزاج کو ایک آنکھ سے دیکھ کر نماز عشق و محبت کا فیصلہ کرنا چاہیے! جس مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ شہادت کے سیدنا فاروق اعظمؓ صدر تھے حسین ابن علی اس یونیورسٹی کے شعبہ شہادت کے نونہال اور بے مثال سپاہی اور جرنیل تھا۔ رضی اللہ تعالی عنہما۔
 

سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت کا گواہ

 قیامت کے دن جب اللہ تعالی کے دربار عالیہ میں شہداء کی حاضری ہوگی تو ہر شہید کی شہادت کا گواہ مختلف ہوگا۔کسی شہید کی شہادت کا گواہ قرآن ہوگا۔ کسی کی شہادت کی گواہی احد دے گا۔ کسی کی گواہی میدان بدر دے گا۔کسی کے حق میں مکہ کی گلیاں بولیں گی۔ کسی کے لیے صحراء و دشت و نگر بولیں گے۔ مگر میں قربان جاؤں سیدنا فاروق اعظمؓ کے جب ان کی باری آئے گی تو مسجد نبوی کا محراب بولے گا کہ مولائے کریم فاروق سے نہ پوچھو مجھ سے پوچھو میں تیرے آخری پیغمبر کے سجدوں اور صداقت کا گواہ ہوں تو سیدنا فاروق اعظم کے سوز قرآن اور شہادت کا گواہ بھی میں ہوں!
 
 اس کی گواہی کے بعد شہادت سیدنا فاروق اعظمؓ کی صداقت کا عَلَم پوری دنیا میں بلند کر دیا جاۓ گا۔ جس مقدمہ کے گواہ مقدس ہوں ان پر جرح نہیں ہو سکے گی! شہید محراب سید نا فاروق اعظمؓ ان سعادتوں سے سرفراز کیے جائیں گے جن کی مثال ڈھونڈے سے نہیں مل سکے گی۔ مسجد نبوی کا محراب جو نبوت کے سجدوں سے مزین ہے۔ وہ قیامت کے دن سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت کا گواہ ہوگا۔ یہ عظیم شہادت بخت سکندری کی دلیل ہے۔ اے سید نا فاروق اعظم! آپ کے سوا اس خوش نصیبی سے کون سرفراز ہوسکتا ہے۔ آخر کیوں نہ ہوتا دعا بھی تو یہی کی تھی کہ مولا مجھے دیارِ رسول کی شہادت کی عظمت سے مالا مال فرما۔۔۔ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء

صحابہؓ تڑپ گئے

 حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے نماز پڑھائی اور جونہی نماز پوری ہوئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تڑپ گئے۔ پوری مسجد نبوی میں کہرام بپا ہوگیا۔ صحابہ کرام پر ایک اضطراب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اے اللہ! اب کیا ہوگا؟ اسلام کا بےمثال اور بہادر جرنیل اگر اس طرح دنیا سے رخصت ہوگیا تو اسلام کا کیا ہوگا۔ کیونکہ اسلام کی عمر بھی تو عمرؓ کے ہاتھوں بڑھی اور چار دانگ عالم میں اس کی بہاریں چھاگئیں۔صحابۂ کرام، سیدنا فاروق اعظمؓ کے گرد محراب کے قریب جمع ہوگئے۔ ہرکسی کی زبان سے آپ کی صحت و عافیت کی دعائیں نکل رہی تھیں۔ اسی حالت میں آپ کو بیتِ خلافت میں لے جایا جا تا ہے آپ کی زندگی کو بچانے کے لیے ہر مکن تدبیر کی جاتی ہے۔
 
(ماخوذ از ’’خطبات قاسمی‘‘ جلد اول)

 

  • تقریر لمبی ہونے کی وجہ سے دو قسطوں میں شائع کی گئی ہے۔ دوسری قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
 
  • پوسٹ کی اطلاع بر وقت پانے کے لئے ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘‘ کو سبسکرائب کریں اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کریں۔

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے