شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ‏(دوسری قسط)| خطبات جمعہ|خطبات قاسمی

پہلا خطبہ محرم

شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ‏(دوسری قسط)

شہادت فاروق اعظم
شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ
 

حکیم بلایا گیا

 آپ کے علاج کے لیے مدینہ کے مشہور طبیب کو بلایا گیا انہوں نے دوا پلائی مگر آپ کے ان زخموں کے راستے وہ نکل گئی، جو خنجر کے مسلسل واروں کی وجہ سے آپ کے جسم اطہر میں موجود تھے۔
 

دوا کی بجاۓ دعا کی تاثیر

آپ نے فرمایا کے مجھے اب دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ دوا اب اپنا اثر کھو چکی ہے مجھے میرے خدا کے سپرد کردو مجھے بتلاؤ کہ میرا قاتل کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین! آپ کا قاتل ایک مجوسی غلام ہے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مِرے خون سے کسی مسلمان کے ہاتھ رنگین نہیں ہوئے۔
 
 معلوم ہوتا ہے کہ اب دوا کا وقت ختم ہو چکا تھا___اور دعا کا وقت شروع ہو گیا تھا۔ کیونکہحضرت سیدنا فاروق اعظمؓ نے دعا مانگی تھی ’’اللّٰهم إنِّي أسْئَلُکَ شهادةً في سبیلِک و وفاةً في بَلَدِ رسولِک‘‘ دوا کی تاثیر ختم___اور دعا کی تاثیر شروع۔

پہلوئے حبیب میں دفن کی آرزو

 حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو آپ کے فرزند ارجمند تھے۔ ان سے فرمایا کہ بیٹا اپنی روحانی ماں سیدہ عائشہؓ کے در دولت پر جاؤ، اس عفیفۂ کائنات سے عمر کا سلام عرض کرکے درخواست کرنا کہ حضرت محمد ﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کے لیے چند ہاتھ زمین مجھے مرحمت فرمادی جائے، تو اس کا احسان مند رہوں گا۔ اگر سیدہ مجھے اس دولت سے مالا مال فرمادیں تو یہ میری زندگی کا سرمایہ ہوگا جو کسی عرشی اور فرشی کو بھی نہیں ملا ہوگا۔ مجھے اس پر فخر ہوگا اور میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی انعام نہیں۔
 

ماں نے بیٹے کی درخواست منظور کر لی

 حضرت سید نا عبداللہ بن عمرؓ نے جب سیدنا فاروق اعظمؓ کی درخواست حضرت ام المؤمنین کی خدمت میں پیش کی تو اس مادر امت نے روتے ہوئے حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کو روضۂ رسول ﷺ میں دفن ہونے کی اجازت دے کر جنت میں سونے کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجازت دے دی۔
 
 آخر! سیدہ طاہرہ عائشہ صدیقہؓ حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کی تائید کو کیسے فراموش کرسکتی تھیں۔ اس وقت جب کہ سارا عالم ان کے لیے غم و اندوہ کا ایک طوفان دکھائی دے رہا تھا۔ اس گھٹا ٹوپ غم کے اندھیرے میں اگر کسی نے روشنی کا چراغ جلاتے ہوئے سیدہ کی طہارت و تقدس کا اعلان فرمایا تو صرف اور صرف سید نا فاروق اعظمؓ تھے____آپ نے برملا فرمایا تھا کہ____یا رسول اللہ___آپ پاک ہیں، خداوند قدوس آپ کو ناپاک بیوی نہیں دے سکتا۔ اس لیے میں برملا کہتا ہوں کہ عائشہ پاک ہیں اور ان پر الزام ناپاک ذہنیتوں کا شاخسانہ ہے۔ انہوں نے آپ کی صفائی میں یہ جملہ فرمایا: سُبْحَانَکَ هٰذَا بُهْتَان عظیم___عرش اعظم سے بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کی تائید کی گئی اور جو جملہ سیدنا فاروق اعظمؓ کی زبان مبارک سے فرش پر نکلا تھا۔ وہی فرمان الٰہی کی صورت میں عرش سے جاری کردیا گیا ’’سُبْحَانَکَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْم‘‘(سورۂ نور)
 حضرت ابن عمرؓ نے واپس پہنچ کر جب یہ خبر سیدنا فاروق اعظمؓ کو سنائی کہ حضرت عائشہؓ نے روضۂ رسولؐ میں دفن ہونے کی اجازت عنایت فرمادی ہے۔ تو سیدنا فاروق اعظمؓ اس مجروح جسم کے ساتھ ہی سجدے میں پڑ گئے اور روتے ہوئے فرمایا کہ "الحمدُ لِلّٰهِ ما كان شيءٌ أهمّ إليّ مِن ذالك المَضْجَع___اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میرے لیے اس مدفن سے اہم دنیا کی اور کوئی دولت نہیں ہے۔ اپنے محبوب کے روضے میں دفن ہونا آپ کے لیے دنیا و ما فیہا کی دولت سے بھی بڑھا ہوا تھا۔ اس لیے آپ نے اس دولت کونین کے حاصل ہونے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ کیونکہ خدا کا ذکر اور خدا کا شکر اس کے مقربین کا محبوب سرمایہ ہوا کرتا ہے!

خلافت بورڈ

 سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنی زندگی کے آفتاب کو ڈوبتا ہوا محسوس فرمایا تو آپ نے اسلامی ریاست کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے ایک بورڈ تجویز فرمادیا جو اپنے میں سے کسی ایک پر متفق ہوکر خلافت کے لیے اسے منتخب کرلیں اور پوری امت اس کی اطاعت میں گردنیں جھکادے! خلافت کے لیے جن ارکان کے نام آپ نے تجویز فرمائے، اس کی وجہ انتخاب اور وجہ ترجیح بھی ساتھ ہی بیان کردی تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ میں نے ان کو کسی ذاتی پسند یا ناپسندیدگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ زبان نبوت سے ان کے سنے ہوئے فضائل کی بنیاد پر خلافت بورڈ کا رکن بنایا ہے۔ ان عظیم شخصیتوں کے اسمائے گرامی اور فضائل کا تذکرہ اس طرح فرمایا:
 

(۱) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ____

فضلیت: قیامت کے دن جہاں میں ٹھہروں گا۔ علی کا ہاتھ مِرے ہاتھ میں ہوگا۔
 

(۲) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ____

فضلیت: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! عثمان جب تہجد کی نماز پڑھتا ہے تو آسمان کے فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں۔ یہ بات حضرت عثمانؓ کے ساتھ مخصوص ہے۔ عثمان کو اللہ تعالی سے اس قدر حیا آتی ہے کہ اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا!

طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ

فضلیت: نبی ﷺ ایک سفر سےواپس تشریف لارہے تھے کہ اونٹنی سے آپ کا کجاوہ گرنے لگا۔ سردی کا سخت موسم تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اس عالَم میں تیرے نبی کا جو شخص کجاوہ درست کردے تو اس سے راضی ہوجا۔ حضرت طلحہؓ نے آپ ﷺ کی اس دعا کو سن کر جلدی سے آپ کا کجاوہ درست کردیا۔ اس پر سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ اے طلحہ! یہ جبرئیل ہے اور تجھے سلام عرض کرتا ہے اور قیامت میں تیرے ساتھ رہنے کا وعدہ کرتا ہے۔ تاکہ تجھے تکلیف نہ ہو!
 

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ

فضیلت: ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ آرام فرمارہے تھے۔ حضرت زبیر بن عوام نے رات بھر آپ پر پہرہ دیا۔ جب آپ بیدار ہوئے اور زبیر کو پہرہ دیتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اے زبیر! وہ جبریل ہے تجھ کو سلام کہتا ہے۔ آج تو نے مجھ پر پہرہ دیا ہے کل قیامت کے دن میں تیرا پہرہ دار ہوں گا۔
 

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ

فضلیت: سرکار دوعالم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں تھے کہ سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں، ان کے ہمراہ حسن وحسین تھے۔ وہ دونوں رورہے تھے اور حضرت سیدہ فاطمہ ان کی وجہ سے رورہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں روتے دیکھ کر فرمایا کہ کیوں رورہے ہیں؟ عرض کیا کہ بھوک کی وجہ سے!
 
 حضور ﷺ نے فرمایا کی یا اللہ اس آدمی کو نیک بخت بنا جو ان کو کھانا کھلائے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، دیکھا تو عبدالرحمن بن عوف کھانے کا تھال لیے کھڑے ہیں۔ عرض کیا کہ حضورؐ! یہ کھانا حاضر ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ او کمال قال۔
 

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ

فضیلت: غزوۂ احد میں جب زور کا معرکہ ہورہا تھا تو سرکار دوعالم ﷺ نے اپنے تیر بھی حضرت سعد بن ابی وقاص کے حوالے کرکے انہیں آفرین دیتے ہوۓ فرمایا کہ ’’فِداکَ أبِيْ و أمّي یا سعد! اِرْمِ یا سَعْد! فِداکَ أبي و أمي۔‘‘
 اس روز تیرہ دفعہ سرکار دوعالم ﷺ نے اس دعا کو دہرایا۔
 
 ان ارکان کے فضائل بیان فرمانے کے بعد سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا کہ جو شخص اس جماعت پر بدگمانی کرے گا۔ وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ چنانچہ اس خلافت بورڈ نے باہمی مشاورت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی جن میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس طرح آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرنے سے پہلے امت مسلمہ کو ایک عظیم شخصیت کے ہاتھ پر جمع کردیا۔
 

سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت

 مدفن کی اجازت اور امت کے اہم امور میں اپنی تجویز کردہ ہدایات کے بعد آپ اپنے مولائے کریم کی بارگاہ میں ہمہ تن متوجہ اور مصروف ہو گئے۔ اللہ تعالی کے ذکر و فکر اور امت محمدیہ کے غم میں ڈوبے ہوئے بالآخر عدل و انصاف کا یہ ماہتاب عالمتاب یکم محرم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رفیق اعلیٰ کے حضور جا پہنچا اور اسلام اور عالم اسلام کو یتیم کرکے اپنے محبوب کے پہلو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوگیا___إنّالِلّٰهِ و إنّا إلَیْهِ راجِعُون۔

آپ کی شہادت پر پورا عالم سوگوار ہوگیا

 حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ کی وفات اور شہادت کی خبر سنی تو آپ فوراً سیدنا فاروق اعظمؓ کے گھر پہنچے اور اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے چہرۂ اقدس سے چادر اٹھائی اور رخ انور کو دیکھ کر فرمایا کہ
 
’’يَـرْحَـمُـكَ الـلّٰـهُ فَـوَاللهِ ما كانَ في الأرضِ رَجُلاً أحَبَّ إلَيّ أن ألقَى اللّٰهَ لصحيفةٍ من صحيفتِك۔‘‘
ترجمہ: اے عمر! اللہ آپ پر رحم فرماۓ۔ خدا کی قسم مجھے اللہ کی زمین پر کوئی شخص آپ سے زیادہ محبوب نظر نہیں آتا جس کے اعمال کو آپ کے نامۂ اعمال کی مثال بناکر اللہ کے ہاں حاضری دوں!
 سعید بن زید جو کہ عشرۂ مبشرہ میں تھے جن کو اللہ تعالی کے نبی ﷺ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ آپ نے حضرت عمرؓ کی شہادت پر روتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’أبْکِيْ عَلَی الإسْـلام۔‘‘ آج میں اسلام کے لیے آنسو بہارہا ہوں۔ معلوم ہوا کہ حضرت سعید بن زید حضرت فاروق اعظمؓ کی وفات کو اسلام کے لیے المیہ سمجھتے تھے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے غمزدہ ہوکر فرمایا کہ اگر عمر کسی کتے کو محبوب رکھتے ہوں گے تو میں اس سے بھی پیار کروں گا۔
 

شہادت سے قبل مسلمانوں کو آخری وصیت

 سیدنا فاروق اعظمؓ نے وفات سے قبل امت مسلمہ کو جس قیمتی اور ناقابل فراموش وصیت سے نوازا، وہ تاریخ سیدنا فاروق اعظمؓ کا ایک سنہری باب ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’عَلَيكُم بِكِتابِ اللّٰهِ فَإنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوْا ما اتَّبَعْتُمُوْه‘‘ (ازالة الخفاء)
 
ترجمہ: اے مسلمانو! اللہ کی کتاب (یعنی قرآن مجید) کو مضبوطی سے پکڑو۔ جب تک تم نے قرآن مجید کی اتباع کی تم کبھی گمراہ نہیں ہو سکو گے!

’’ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنِّي لَا أَخَافُ النَّاسَ عَلَيْكُمْ، إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى النَّاسِ، وَ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ اثْنَتَيْنِ لَمْ تَبْرَحُوا بِخَيْرٍ مَا لَزِمْتُمُوهما: الْعَدْلُ فِي الْحُكْمِ، وَالْعَدْلُ فِي الْقَسْمِ.‘‘(ازالة الخفاء)

 فیصلہ کے وقت انصاف اور تقسیم کے وقت انصاف پر دو اصول ایسے ہیں جو کسی بھی معاشرے کو خوب سے خوب تر بناتے ہیں۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی کتاب اللہ کی پیروی اور عدل و انصاف کا دامن امت کے ہاتھ میں دے گئے۔ خدا کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں اس رجل عظیم کی تربت پاک پر جس کے دور عدل وانصاف کو آج بھی اپنے اور بیگانے بطور مثال اور نمونہ پیش کرتے ہیں۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

 سرکار دوعالم ﷺ اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں آپ کو دفن ہونے کے لیے جگہ ملی جس جگہ پر خدا کی کروڑوں رحمتیں شب و روز برستی ہیں۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار و ہیں پر بنا۔
ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
 
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
 
کوئی اہل بیت سے آپ کو جو نکال دے یہ مجال کیا
کہ عمر کی تربت پاک بھی تو رسول پاک کے گھر میں ہے
 
حضرات گرامی! شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات سے معلوم ہوا کہ یکم محرم کو فاروق اعظمؓ کی شہادت نے ہمیں جو سبق دیے تھے۔ آج بھی شہدائے اسلام کے مقدس تذکروں میں وہ ہمارے لیے مشعل راہ اور سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
 
 آیئے! آج ہم سب مل کر اس شہید منبر و محراب کو سلام پیش کریں۔ جس نے اسلام کو ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر قوت بناکر پوری دنیا میں اسلام کا سکہ بٹھا دیا۔
و ما علينا إلا البلاغ المبين
 
(ماخوذ از ’’خطبات قاسمی‘‘ جلد اول)
  • پوسٹ کی اطلاع بر وقت پانے کے لئے ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘‘ کو سبسکرائب کریں اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے