ہمارے خوابوں کا ہندوستان|اردو تقریر | صدائے حق

اردو تقریر

’’صدائے حق‘‘ سے ماخوذ

ہمارے خوابوں کا ہندوستان

ہمارے خوابوں کا ہندوستان
ہمارے خوابوں کا ہندوستان

 

  الحَمْدُ لِلّٰهِ الّذِيْ فَتَحَ لِعِبَادِہٖ طَرِیْقَ الفَلَاح، و أَرْشَدَھُمْ إلیٰ مَا فِیْهِ الخَیْرِ وَ الفَلَاح، وَ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَ عَلیٰ اٰلِهٖ وَ أصْحَابِهٖ وَ التَّابِعِیْنَ لَھُمْ بِإحْسَانٍ إلیٰ یَوْمِ الدِّیْن، أمَّا بَعْد۔

بنامِ جہاں دار جہاں آفریں
حکیمِ سخن در زباں آفریں
مراد وطن جو میرے جسم و جاں سے پیارا ہے
کبھی غروب نہ ہوگا یہ وہ ستارہ ہے
رہے وطن میں ہماری محبتوں کا معیار
ہمارے خون کے قطروں سے آشکارا ہے
اسی کی گود میں کھیلیں ہنسیں پھلیں پھولیں
کسی پرائے کا آغوش کب گوارا ہے
جنہیں ہے شوق کہ کھیلیں وطن کی عصمت سے
انہی کا دعویٰ ہے ہندوستان ہمارا ہے

 برادران ملت اسلامیہ اور محبّان وطن!

  دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سے ہمارا ملک ہندوستان بھی ہے۔ ہمارا ملک وہ ملک ہے جس کو کبھی آریہ ورت کا لقب دیا گیا، تو کبھی انڈیا کے نام سے پکارا گیا، کبھی بھارت سے موسوم کیا گیا، تو کبھی ہندوستان کا نام دیا گیا۔ ہمارا ملک ہندوستان اپنی ایسی ایسی چیزوں کو لئے ہوئے ہے کہ پوری دنیا اس پر فخر کرتی ہے۔ اس کے سینے میں شاہ جہاں کی مسجد اور تاج محل کی عظمت پوشیدہ ہے۔ مہاتما بدھ اور ٹیپو سلطان اس کے پروردہ ہیں۔ اشفاق اللہ خاں اسی کا لال ہے۔ نور جہاں کی عفت اسی کے صدقے ہے۔ گنگا جمنا کی روانی اسی کے پیار کا صدقہ ہے۔ ستلج کی لہریں اسی کو گود میں ہیں۔ ہمالیہ کے سر پر اسی کا تاج ہے۔ مہاتما گاندھی اسی کے جگر کا ٹکڑا ہے۔ برگیڈیر عثمان کو شجاعت اسی نے بخشی ہے۔ ویر عبد الحمید کو بہادری اسی نے عطا کی ہے۔ حسین احمد مدنیؒ کو جھولا اسی نے جھلایا ہے۔ لال قلعہ کو مضبوطی اسی نے بخشی ہے۔

  لیکن جب ہم اپنے ملک ہندوستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو مجبور ہوکر کہنا پڑتا ہے کہ ارے تعصب کو بھی اسی نے جنم دیا ہے۔ ظلم و بربریت کو بھی عروج اسی نے بخشا ہے۔ قتل و غارتگری کو بھی اپنا شیوہ اسی نے بنایا ہے۔ مذہب کے نام پر فتنۂ و فساد پھیلانے والے لال کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ اڈوانی کو اسی نے جنم دیا ہے۔ اشوک سنگھل کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ مرلی منوہر جوشی اور بال ٹھاکرے کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ اوما بھارتی دیش دروہی اسی کی بیٹی ہے۔ ششما سوراج اسی کی لاڈلی ہے۔

  برادران ملت اسلامیہ!

  جب ہم بھاگلپور کے حالات سنتے ہیں، جب بجنور اور فیض آباد کے فسادات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ جب ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری یاد آتی ہے۔ جب ہندوستانی مسلمانوں کے خون کے چھینٹے اخباروں اور رسائل و جرائد پر نظر آتے ہیں تو ہمیں ان بزرگوں کی قربانیاں یاد آتی ہیں، جنہوں نے اپنے ملک کی آزادی کی خاطر بیوی، بچے اور مال و دولت سب کو تیاگ دیا۔ وطن چھوڑنا گوارا کیا۔ جیلوں کی مشقتوں کو برداشت کیا۔ سولی پر چڑھنا گوارا کیا۔ سر کٹا دینا گوارا کیا۔ ٹینکوں اور توپوں سے ٹکرانا گوارا کیا۔ سب کچھ گوارا کیا لیکن جب تک اپنے ملک کو انگریز کے ناپاک پنجے سے چھڑایا نہیں دم نہیں لیا:

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی

  میرے سامعین!

  ان بزرگوں نے اپنی یہ ساری قربانیاں کیوں پیش کیں؟ بیوی بچے اور مال و دولت کی محبت کو بالائے طاق کیوں رکھا؟ سر کٹادینا آسان کیوں سمجھا؟ سولی پر مسکراتے ہوئے کیوں چڑھ گئے؟ جیلوں کی مشقتوں کو کیوں برداشت کیا؟ اسی لئے تو کہ آج اگر ہم ان مصائب و آلام پر صبر کرلیں گے۔ اور ان تکالیف کو جھیل لیں گے تو آنے والی ہماری نسل اور باشندگان وطن آزادی کے ساتھ زندگی گذاریں گے۔ غلامی کے طوق ان کے گلے میں نہیں ہوں گے۔ ہر طرح سے آزاد رہیں گے۔ کھانے پینے کی آزادی رہے گی۔ رہنے سہنے کی آزادی رہے گی۔ عبادتوں کی آزادی رہے گی۔ اذان پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ مسجدوں اور عیدگاہوں میں تالے نہیں لگائے جائیں گے۔ ان کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔ ماؤوں کی مامتائیں لوٹی نہیں جائیں گی۔ بہنوں کے دوپٹے ان کے سروں پر محفوظ رہیں گے۔ ان کی عصمتوں کو داغدار نہیں کیا جائے گا۔ بلاتفریق مذہب و ملت، دین و دھرم بھائی چارگی کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔

  مگر افسوس صد افسوس! ہمارے ان بزرگوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔ آج ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں۔ مامون ہوتے ہوئے بھی مامون نہیں ہیں۔ محفوظ رہتے ہوئے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

  میں ملک کے تعصب پرستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم سب کے سب اپنے آپ کو آزاد اور سیکولر کہتے ہو۔ آزادی اور سیکولرزم کی بات کرتے ہو۔ بتاؤ اس ملک ہندوستان کے اندر تم نے ہم کو کہاں کب اور کس وقت آزادی دی ہے؟ ذرا تاریخ کا باب کھول کر دکھاؤ؟

  کیا سیکولرزم اسی کا نام ہے کہ تم جو چاہو کھاؤ پیو اور گاؤ ماتا کہہ کر ہمارے کھانے پر پابندی لگاؤ۔ کیا آزادی اسی کا نام ہے کہ تم جگہ بہ جگہ مندر پہ مندر بناتے جاؤ، کریمنل اور ڈاکوؤں کو پجاری کا روپ دے کر تباہی پھیلاؤ۔ اور ہماری بنی بنائی مسجدوں اور عیدگاہوں کو مسمار کرو۔ تم اپنے دھرم کے قوانین پر آزادی کے ساتھ عمل کرو۔ اور ہمارے مسلم پرسنل لاء پر پابندی لگواؤ۔ تم اپنے دھرم کی خوب اشاعت کرو۔ تم خوب یگ، کیرتن اور رتھ یاترا کرو اور ہمارے اجلاس پر پابندی لگواؤ۔

میرے غیرت مندو! کیا اسی لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ کیا ان کا خواب آزادی سے قبل یہی تھا؟ کیا اسی لئے ریشمی رومال کی تحریک چلی؟ کیا اسی لئے تحریک بالاکوٹ وجود میں آئی؟ کیا اسی لئے تحریک خلافت چلی؟ کیا اسی لئے ہندوستان چھوڑو تحریک چلی؟ کیا اسی لئے مقدمۂ وہابیان چلا؟ کیا اسی لئے انبالہ سازش کیس بنا؟ کیا اسی لئے دہلی کی چاندنی چوک پر کٹے سر لٹکائے گئے؟ کیا اسی لئے جلیاں والا باغ کانڈ ہوا؟ کیا اسی لئے شاملی کے میدانوں کو رنگا گیا؟

وقت کی تبدیلیوں کا گر نہیں سمجھا فریب
تو یقیناً اہل گلشن کا کفن جل جائے گا

اے وفاداری کا ٹھیکہ چلانے والو! اور رام راج کا سپنا دیکھنے والو! اگر تم نے ہمارے بزرگوں کے خوابوں کو ایسے ہی چکنا چور کیا، شرمندۂ تعبیر ہونے سے روکے رکھا، تو یاد رکھو! آج بھی ہمارے پاس حسین احمد مدنیؒ جیسا جگر رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ محمود الحسن دیوبندیؒ جیسا کلیجہ رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ حفظ الرحمٰن سیوہاریؒ جیسے ہمت ور موجود ہیں۔ عبید اللہ سندھیؒ جیسے جواں مرد موجود ہیں۔ محمد علی جوہرؒ اور ابوالکلام آزادؒ جیسے جانباز موجود ہیں۔

  آج بھی ہم اپنے دین و دھرم کی خاطر، اپنی آزادی کی خاطر سر کٹا سکتے ہیں۔ سولی پر چڑھ سکتے ہیں۔ جیلوں کی مشقتوں کو جھیل سکتے ہیں۔ توپوں اور ٹینکوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ بارودی شعلوں میں جھلس سکتے ہیں۔ لیکن اپنے دین و دھرم، مذہب و ملت پر آنچ نہیں آنے دیں گے:

مظلوم سہی لیکن مجبور نہیں ہیں ہم
اگر ضد پہ آجائیں تو کہرام مچادیں گے

 

میرے اسلامی بھائیو! ہمارے بزرگوں نے جو آزادی سے قبل ہندوستان کی بابت خواب دیکھا تھا۔ اگر وہ شرمندۂ تعبیر ہو جاتا تو ہمارے ملک ہندوستان کا آج نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ملک بھر میں امن شانتی کی لہریں دوڑتیں۔ قتل و غارتگری کا بازار گرم نہ ہوتا۔ کِڈنپِنگ اور اغوا رواج نہیں پاتا۔ ماؤوں اور بہنوں کی عصمتیں محفوظ رہتیں۔ مذہبی اور ملی آزادیاں ہوتیں۔ ملک کے سرمایہ کو امانت سمجھا جاتا۔ اس قدر گھوٹالے اور گھپلے بازیاں نہیں ہوتیں۔ سرکش شیاطین حکومت کی کرسیوں پر نہیں ہوتے۔ مجرموں اور ڈاکوؤں کو وزارت کے عہدے نہیں دیئے جاتے۔ بلاوجہ ایٹمی دھماکہ کرکے مہنگائیاں نہیں بڑھائی جاتیں، بلکہ سوجھ بوجھ اور عقل و دانائی سے کام لیا جاتا۔ کشمیر کے معاملات الجھ کر رہ جانے کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں نوجوان قتل نہیں ہوتے۔ ہماری بہنوں کے سروں سے دوپٹے نہیں اڑائے جاتے۔ باشندگان ہند دو ٹکڑے روٹیوں کے لئے نہیں ترستے۔ دو گز کپڑے کے لئے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ رات بسر کرنے کے لئے روڈ اور سڑکوں کا کنارہ نہیں پکڑتے۔ امریکہ، روس اور برطانیہ کے جوتے ہم سیدھے نہیں کرتے۔ بلکہ ہماری طاقت و قوت کا لوہا جانا جاتا۔ ہماری آزادی کے ترانے ہر سو گائے جاتے۔ ہماری امن و شانتی پر دنیا فخر کرتی۔

  دعا کیجئے کہ اللہ رب العزت ہمارے بزرگوں کے ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرے۔ اور ہمارے اندر اپنے ان اکابرین و مخلصین جیسا حوصلہ اور جرأت مندی عنایت کرے۔ ملک کا محافظ اور دین اسلام کا داعی بنائے۔ آمین!

ایک ہی خاک سے انسان ہوئے ہیں پیدا
ایک ہی خون ہے پھر خون بہاتے کیوں ہو

 

و اٰخِرُ دَعوانا أَنِ الحمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العالَمین

  • یہ تقریر "صدائے حق” سے ماخوذ ہے۔ موجودہ حالات کے اعتبار سے آپ اس میں مناسب تبدیلی کرسکتے ہیں۔
  • اطلاع پانے کے لئے یا کتاب ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘‘ کو سبسکرائب کریں اور دوستوں کو بھی شامل کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 thought on “ہمارے خوابوں کا ہندوستان|اردو تقریر | صدائے حق”