یوم آزادی کی خوشیاں مبارک| ۱۵ اگست پر تقریر |اردو تقریر| پرکیف تقریریں

۱۵ اگست پر تقریر

یوم آزادی کی خوشیاں مبارک!

(ابو عبد الفتاح)
۱۵ اگست پر تقریر

 

 الحمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِيْن، وَ الصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ الأَمِيْن، وَ عَلىٰ اٰلِهٖ وَ أصْحَابِهٖ أجْمَعِيْنَ إلىٰ يَوْمِ الدِّيْن، أمّا بَعْد! فَأعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ اللّٰهِ الرّحمٰنِ الرحيم، "ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلاً فِيْهِ شُرَكَآءُ مُتَشَاكِسُوْنَ وَ رَجُلاً سَلَماً لِّرَجُل”
خِرَد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں، تو کچھ بھی نہیں
 
سامعین کرام! حاضرین جلسہ، عزیزان گرامی قدر اور فرزندان اسلام! آج پندرہ اگست ہے۔ پندرہ اگست کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟
میرے محترم دوستو! یہ تاریخ ایسی تاریخ ہے جس میں ہزاروں خونی داستانیں، سینکڑوں خوفناک واقعات، لاکھوں دردناک کہانیاں اور بے شمار الم انگیز باتیں پوشیدہ ہیں۔
 
  ہمارا ملک ہندوستان جس پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی، عدل و انصاف کی حکومت، پیار و محبت کی حکومت، الفت و عقیدت کی حکومت، لیکن انصاف کا دامن مسلمانوں کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، پیار و محبت کے الفاظ مسلمانوں نے بھلا دیے، الفت و عقیدت کی جگہ عداوت و بغض کی پرچھائیں آگئیں تو اس ملک میں انگریزوں نے قدم رکھا۔
 
  پہلے پہلے تجارت شروع کی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہندوستان میں اپنی اقتصادی حالت خوب مضبوط کی، پھر کیا تھا، پیسے کی ریل پیل، سیاست میں دخیل ہونا آسان ہوگیا۔ دھیرے دھیرے سیاست میں ایسا دخیل ہوئے کہ حکومت کی کرسی پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اب کیا تھا، ہندوستان کا کوئی شعبہ، کوئی ڈپارٹمنٹ اور کوئی سیاسی و سماجی تنظیم ایسی نہ بچ پائی تھی جس میں انگریز نہ ہوں۔ ہر شعبے، ہر تنظیم، ہر ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدے پر یہ انگریز ہی بیٹھا ملتا تھا۔
 
  جب انگریزوں نے اپنا مکمل تسلط ہندوستان پر جما لیا، تو اسے یہ بات سوجھی کہ یکساں سول کوڈ کے طور پر پورے ہندوستان کے ہر ہر شہر میں، ہر ہر گاؤں اور آبادی میں عیسائیت کا قانون نافذ کیا جائے۔ کوئی گھرانہ، کوئی گھر، کوئی بچہ ایسا نہ بچے جس کو عیسائیت سے پیار نہ ہو۔
 
  پورے ہندوستان میں عیسائیت کا پرچم لہرانے، ہر گھر سے عیسیٰ مسیح کی منسوح تعلیم پر عمل کرانے اور ہر ہر خُرد و کَلاں کو اس پر مجبور کرنے کے لئے انگریزوں نے ایڑی چوٹی تک کا زور لگا دیا۔
 
  مسلمانوں کو آخر یہ چیز کیسے برداشت ہوسکتی تھی؟ مسلمان تو صرف خدائے وحدہ لا شریک کا بندہ ہے۔ عیسائیوں کے یہاں تین خدا ہیں جسے قرآن کریم نے ’’ثالث ثلاثہ‘‘ کہہ کر بتایا ہے۔ مسلمان اپنے توحید کے عقیدے کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ مسلمان ایک خدا کو چھوڑکر تین خداؤں کی ناز برداری کیسے کرسکتا ہے؟ مسلمانوں کو تو یہ منظور ہے کہ دہکتی آگ کے شعلے آسمان کی بلندی کو چھو رہے ہوں اس میں ڈھکیل دیا جائے تو مسلمان ہزار خوشیوں کے ساتھ کود پڑے گا۔ لیکن خدا کے ساتھ کفر نہیں کرسکتا۔ ایک خدا کے ساتھ تین خداؤں کو ملاکر مشرک نہیں بن سکتا۔ مسلمانوں کا قرآن اعلان کرچکا ہے: ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ‘‘ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ ہر چھوٹی بڑی غلطی جس کی بھی چاہے جب چاہے معاف کردے گا۔
 
 یہ قرآن مسلمانوں کا ہی قرآن نہیں، پوری دنیا کا قرآن ہے۔ مسلمان عیسائیوں کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ تم بھی شرک کے اندھیاروں سے نکل کر اسلام کی تابناک روشنی میں آجاؤ: ’’تَعَالَوْا إلیٰ کَلِمَةٍ سَوآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ أن لا نَعْبُدَ إلّا اللّٰهَ وَ لا نُشْرِکَ بِهٖ شَیْئاً‘‘ (پ۴)
  (ترجمہ) اے یہود و نصاریٰ! تم بھی ایک ایسے کلمے کی طرف آجاؤ جو تمہاری کتاب میں بھی ہے، ہماری کتاب میں بھی ہے۔ کہ کلمۂ توحید اور خدا وحدہ کو ایک ماننے کا عقیدہ بنالو، اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو۔
 
  ان حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کے لئے یہ ایک زبردست چیلنج تھا کہ وہ ہندوستان پر ظالمانہ طور پر قابض انگریز کی دعوت پر لبیک کہیں۔ پورے ہندوستان میں عموماً، اور مسلمانان ہند میں خصوصاً ایک افراتفری کا ماحول تھا۔ ایک سراسیمگی کا سماں بندھا تھا۔
 
  اتنے میں انگریز نے یہ حکم بھی صادر کردیا ’’کہ سرکاری نوکری اگر کرنا ہے تو مسلمان بن کر یا غیر عیسائی بن کر نہیں کرسکتے‘‘۔ سرکاری ملازم کو عیسائی بن کر ہی ملازمت پر باقی رکھا جاسکتا ہے۔
 
  یہ اعلان پورے غیر منقسم ہندوستان میں بجلی کی طرح پھیل گیا۔ اور جنگل کی آگ کی طرح گاؤں گاؤں، بستی بستی، قریہ قریہ اس کا چرچہ ہونے لگا۔ اب کیا تھا، دین اور دنیا کا معاملہ تھا۔ اگر دنیا اپنا لیتے ہیں تو دین سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اگر دین پر رہتے ہیں تو دنیا جاتی ہے۔ فیصلہ کیا کریں، کیوں کریں اور کیسے کریں؟
 
  اس نازک موڑ پر امت محمدیہ کے علماء صالحین آگے بڑھ کر ایک زبردست فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ اس نازک گھڑی میں کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں ’’بلکہ بالکل حرام ہے کہ وہ انگریزی حکومت میں ملازمت کریں‘‘۔
 
  یہ فتویٰ کیا تھا، دین کے بقا کا پیغام، اسلام پر جمے رہنے کا اعلان، سنت کے نہ چھوڑنے کی تاکید۔
 
  یک لخت مسلمانوں نے اپنی ملازمتوں پر لات ماردی، اور بے دست و پا اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ اب کیا تھا، وہ تھے اور ان کا خدا اور کوئی نہیں، بڑا دردناک حال تھا۔ ایک ملازم مسلمان ہے، اس کے بال بچے ہیں، وہ برسرِ روزگار ہے۔ روزانہ کا لمبا خرچ ہے۔ یک لخت روزی بند ہوجائے، کاروبار ٹھپ پڑجائے تو کیا گذرے گی؟ لیکن جب مسلمانوں کے ساتھ کوئی نہیں تھا، نہ کاروبار، نہ ملازمت، نہ مددگار، نہ اعیان و انصار تو صرف اور صرف ’’اللہ‘‘ کی ذات تھی، جس نے مسلمانوں کو دلاسہ دیا کہ گھبراؤ نہیں: ’’لا تَحْزَنُوْا وَ أنْتُمُ الْأعْلَوْنَ إنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْن‘‘۔
 
  اللہ تعالیٰ نے مدد کی، مسلمانوں کا دین بچایا، زندگی کی حفاظت فرمائی، شاہ عبد العزیزؒ نے جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ پورے ہندوستان میں جہاد کے سلسلے میں لڑائیاں چھڑگئیں، شاملی کے میدان میں مولانا قاسم نانوتوی، بانئ دار العلوم نے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ ہزاروں لاکھوں علماء نے آزادئ ہند اور حفاظت دین کی خاطر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں اتر آئے کہ
 
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
 
  اور لڑائیاں کیں، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ نے جام شہادت نوش کیا۔ مولانا جعفر تھانیسری نے جنگ میں اہم رول ادا کیا۔ حضرت شیخ الہندؒ نے ریشمی رومال کی تحریک چلائی۔ محمد علی جوہر نے غلام ملک چھوڑ دیا۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے رات دن ایک کیا۔ تب جاکر کہیں ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح نمودار ہوئی۔ کہ
 
خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
 
  یہ ہے ۱۵ اگست کی صبح، آزادی کی صبح، جس میں ہم آزادی کے ساتھ ایک خدا کے بندے رہ سکتے ہیں۔ اتنی جانفشانیوں کے بعد ہمیں یہ آزادی ملی ہے، تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اپنے دین پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر ہم نے اس آزادی کی ناشکری کی تو خدا وہ دن بھی لائے گا جب ناشکری کے سبب ہماری موجودہ آزادی بھی چھنی جائے گی۔ اور چھنی جا بھی رہی ہے۔ ہمیں آزادی کی خوشی اسی وقت مل سکتی ہے جب ہم اپنے پرانوں کے چراغ جلا جلاکر روشنی حاصل کریں گے۔
 
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
 
و ما عَلَیْنا إلّا البَلاغ
 
یہ تقریر ’’پرکیف تقریریں‘‘ سے ماخوذ ہے۔ حالات کے اعتبار سے آپ اس میں مناسب تبدیلی کرسکتے ہیں۔ جملہ حقوق بحق ناشر کتاب محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ کے مالک نے محض افادٔ عامہ کے لئے یہاں شائع کیا ہے۔ اگر آپ اس کتاب کو پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں یا ہر پوسٹ کی اطلاع چاہتے ہیں تو ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘ کو سبسکرائب کریں اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کریں۔ اگر کوئی مضمون یا تقریر ہماری ویب سائٹ سے شائع کرانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس ای میل پر بھیجیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے