مسلمان اور اتحاد و اتفاق| اتحاد و اتفاق کے موضوع پر تقریر| ایمان افروز تقاریر| اردو تقریر

اتحاد و اتفاق کے موضوع پر تقریر

مسلمان اور اتحاد و اتفاق
مسلمان اور اتحاد و اتفاق

مسلمان اور اتحاد اور اتفاق

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

الحمدُ لِلّٰهِ الّذِيْ جَعَلَ المُؤمِنُوْنَ کَبُنْیَانٍ مَرْصُوْص، وَ بَعَثَ لِھِدَایَتِھِمْ رُسُلَهٗ بِالخُصُوْص، و الصلاۃُ و السلامُ عَلیٰ سَیِّدِنَا و مَوْلَانا محمدٍ و عَلیٰ اٰلِهٖ و أصْحابِهٖ رِضْوَانُ اللّٰهِ تَعَالیٰ أجمَعِیْن۔ أما بعد!

قالَ اللّٰهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ فِيْ کِتَابِهِ الحَمِیْد، فَأعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشّیطانِ الرجیم، بسم اللّٰهِ الرحمٰن الرحیم، ’’وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعاً وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖ إِخْوَاناً (الاٰیة) قَالَ رسولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّم: ’’المُسْلِمُ أَخُ المُسْلِم‘‘ و قالَ في مَقَامٍ اٰخَر: ’’المُسْلِمُوْنَ کَجَسَدٍ واحِد‘‘ أوْ کَمَا قالَ عَلَیْهِ الصلاۃُ و السلامُ)

نفرت کی بات ہے نہ عداوت کی بات ہے
میری زباں پہ صرف محبت کی بات ہے
اس دورِ انتشار میں آپس کی دشمنی
سوچو جو غور سے تو قیامت کی بات ہے
دیوار نفرتوں کی گراؤ تو بات ہے
انسان کا شعور جگاؤ تو بات ہے
ظلمت میں زندگی کی محبت کے نام پر
قندیل دوستی کی جلاؤ تو بات ہے
  شیدائیانِ اسلام اور عزیز دوستو!
  میں آپ جیسے عظیم المرتبت اشخاص کے روبرو اتحاد و یک جہتی کے عنوان پر لب کشائی کی ہمت کر رہا ہوں۔ یہ سب آپ حضرات کی کرم فرمائی اور محبت کا نتیجہ ہے ورنہ
ع
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
  آج مسلمانوں کے اندر نفرتوں و عداوتوں کی خلیج اور آپسی تنازع کی ایک مہلک بیماری ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں سما چکی ہے۔ ہمارے اندر اختلافات، تنازعات اور تشاجرات نے جنم لے لیا ہے۔ جس کی بنا پر مسلمان ذلت و رسوائی کی دَلدَل میں پھنسا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور تنظیموں میں آپس میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں۔
کوئی اپنے آپ کو سنی کہتا ہے۔
کوئی اپنے آپ کو شیعہ کہتا ہے۔
کوئی اپنے آپ کو مودودی کہتا ہے۔
کوئی اپنے آپ کو بریلوی کہتا ہے۔
کوئی اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہے۔
مسلمانوں کی مختلف تنظیموں نے آپسی اتحاد و اتفاق کو باقی نہیں رکھا۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟
  صرف ایک بنیاد ایسی ہے جس پر مسلمانوں کے تمام گروپ اور تمام تنظیمیں متحد ہوسکتی ہیں۔
وہ بنیاد قرآن و حدیث ہے۔
قرآن پر شیعہ، سنی، بریلوی، مودودی، دیوبندی تمام تنظیمیں ایمان رکھتی ہیں۔ قرآن کی فریاد و للکار سننے کے لئے تمام جماعتیں اور تمام تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر آسکتی ہیں۔ سب متحد ہوسکتے ہیں۔
  برادران ملت!
  نفرتوں و تنازعات کی خلیج کو دور کیا جا سکتا ہے۔ عداوت و تشاجرات کی دیوار کو منہدم کیا جاسکتا ہے۔
شرط یہ ہے کہ ہم قرآن کی للکار کو سننے والے ہوں۔
ہم مسلمان ہیں۔
قرآن پر ہمارا ایمان ہے۔
احکام پر بھی ایمان ہے۔
رہبر ہمارا قرآن ہے۔
ہادئ رسول کا فرمان ہے۔
جس پر سب کچھ قربان ہے۔
  تو آیئے قرآن کا فرمان سنئے! اور اپنی زندگی سے نفرتوں اور تنازعات کی دیوار کو گراڈالیں۔
  قرآن کہتا ہے: ’’إنّ ھٰذِہٖ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَۃً وَّ أَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ‘‘
  جب قرآن ہمیں ایک کہہ رہا ہے۔ رسول کا فرمان یہ بتارہا ہے کہ ہم ایک جسم کے مانند ہیں۔
تو پھر ہمارے اندر اختلافات نے جنم کیوں لیا؟
ہمارے اندر تنازعات و عداوت پیدا کیوں ہوئی؟
ہم الگ الگ اور منفرد کیوں ہیں؟
اس کی کیا وجہ ہے؟
  یاد رکھیں! جس قوم وملت نے انتشار و اختلافات و تنازعات کو اختیار کیا اس قوم نے کبھی بھی کامیابی و کامرانی کا چہرہ نہیں دیکھا۔ اور ذلت و رسوائی کے گہرے اور اندھیرے کنویں میں گر گئے۔ اور جس قوم و ملت نے اجتماعیت و وحدت اور یکجہتی کو اختیار کیا وہ ہمیشہ فلاح و کامرانی کے اونچے اونچے پہاڑوں پر نظر آئی۔
شریعت اسلامی نے اتحاد و اتفاق کو پسند کیا۔
اختلافات و تنازعات کو دور رکھنا پسند کرتی ہے۔
اسلام آپسی محبت و اخوت کو چاہتا ہے۔
لیکن آج مسلمانوں نے شریعت اسلامی کو فضول بحث و تکرار اور آپسی ضد سے کچھ کا کچھ بنادیا۔ سینکڑوں ٹولیاں اور جماعتیں آپس میں بنی۔ اس ملت کی ایک ایسی درگت بنی کہ دوسروں کو راہ ہدایت کیا بتا سکتے خود آپس میں اختلافات و تنازعات کی دنیا آباد کرکے دین میں متفرق ہوکر ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آراء ہوگئے۔
  اسلام کے غیور نوجوانو!
  یہ آپسی مناظرہ بازی اور مذہبی اختلافات کی بنا پر سینکڑوں غیر مسلم مسلمان ہونے سے رک گئے۔
  ڈاکٹر امبیڈکر جو ہریجنوں اور ہندو پسماندہ ذاتوں کے سب سے مقبول رہنما تھے۔ ہندوستان کی پوری ہریجن آبادی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے خواہشمند تھے۔ گاندھی جی کو جب پتہ چلا تو انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر سے پوچھا کہ تم کونسا اسلام قبول کرنا چاہتے ہو؟
شیعہ مسلمان ہونا چاہتے ہو؟
اگر شیعہ مسلمان ہونا چاہتے ہو تو اس میں بھی بہت سارے مذہبی فرقے ہیں، کس فرقے کا اسلام قبول کروگے؟
  اور اگر سنّی ہونا چاہتے ہو تو اس میں بھی بہت سارے مذہبی فرقے ہیں۔ کس فرقے کا اسلام قبول کروگے؟
کوئی وہابی ہے۔
کوئی مودودی ہے۔
کوئی بریلوی ہے۔
کوئی دیوبندی ہے۔
اور ان سب میں ایسی نفرت ہے کہ ایک دوسرے کو داخلِ اسلام نہیں مانتے۔
  ڈاکٹر امبیڈکر نے اس گفتگو کے بعد اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ اور کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ اسلام میں ذات پات نہیں ہوتی اور اسی لئے میں اس مذہب کو پسند کرتا تھا۔
یہ وہ عبرت کی داستان ہے جس کی سیاہی ابھی تک تاریخ کے صفحات میں خشک بھی نہیں ہوئی۔
اے لا الٰہ کے وارث باقی نہیں تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ
تیری نگاہ دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
  دردمندانِ اسلام!
  یہ سب کچھ ہمارے ہی اختلافات و تنازعات کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ابھی وقت ہے۔ تفرقہ بازی و مناظرہ بازی ترک کردو۔ اور ایک پلیٹ فارم پر آجاؤ۔ آج جو بھی ظلم و ستم کے پہاڑ مسلمانوں کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ وہ آپسی پھوٹ اور نفاق کی بنا پر ہورہا ہے۔
  قرآن للکار کر کہتا ہے: ’’وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعاً وَّ لَا تَفَرَّقُوْا‘‘ (پارہ۴ رکوع ۲)
  تم اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور تفرقہ بازی مت کرو۔
قرآن و حدیث کی فرمائش وحدت و اتفاق ہے۔
اللہ و رسول کی خواہش تنازعات و عداوت کو دور کرنا ہے۔
اسلام و شریعت کی پسند محبت و اخوت ہے۔
کسی شاعر نے کہا ہے: ع
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
  شیدائیان ملت!
  رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر غور تو کرو! محسنِ انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا‘‘ (بخاری: ج۲ ص۸۹۰)
  ترجمہ: ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایسا ہے جیسے کہ ستون کو ایک دوسرے سے باندھا گیا ہو۔
  حدیث کے اندر غور کریں۔ چاروں سو وحدت، اخوت و محبت ہی نظر آئے گی۔ لیکن آج وہ ایمان والا جو فرمان رسول پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ آپسی اختلافات میں پڑا ہوا ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو تکلیف و ایذا پہنچانے میں گریز بھی نہیں کرتا۔ حالانکہ محسن کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’المُسْلِمُوْنَ کَجَسَدٍ وَاحِدٍ۔‘‘
ترجمہ: مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں۔
  مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ ایک مسلمان کو تکلیف پہنچے تو دوسرا مسلمان تکلیف کو محسوس کرے۔ ایک مسلمان کو چوٹ لگ جائے تو دوسرا یہ کہتے ہوئے اخوت کا حق ادا کرے:
چوٹ لگے تجھ کو تو درد مجھے ہوتا ہے
  رب کائنات کے فرمان پر غور کرو، ارشاد فرماتا ہے:
إنّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ۔ (الاٰیة)
قرآن ہم سب مسلمانوں کو بھائی کہتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ماہ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِم۔
فرمان رسول سے بھی اخوت ثابت ہے۔…تو...
پھر کیوں ہم قرآن کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں؟
کیوں رسول اللہ کے فرمان کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں؟
آپسی اختلافات و تنازعات میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟
برادران اسلام!
ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
ہم شیعہ بعد میں ہیں سب سے پہلے مسلمان۔
ہم بریلوی بعد میں ہیں سب سے پہلے مسلمان۔
ہم سنّی بعد میں ہیں سب سے پہلے مسلمان۔
ہم مودودی بعد میں ہیں سب سے پہلے مسلمان۔
ہم دیوبندی بعد میں ہیں سب سے پہلے مسلمان۔
ہم سب قرآن و حدیث کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں تو آیئے!
ہم اختلافات و انتشار کو ہم سے دور کردیں۔
ہم عداوت و تنازعات کو ہم سے دور کردیں۔
ہم آپسی تَفرِقَہ بازی و مناظرہ بازی کو ہم سے دور کردیں۔
اور فرمانِ قرآن و فرمانِ رسول کے پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں۔ تو کسی کی کیا مجال کہ ہمارا مقابلہ کرسکے۔
اس لئے کہ ظلم و زیادتی کا مقابلہ کرنے کے لئے جماعتی قوت درکار ہے۔ ہمیں آپسی پھوٹ اور آپسی حسد و کینہ کو دور رکھنا چاہیے۔
  اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث کو دستور عمل بنانے کی توفیق دے۔ اور اتحاد و اتفاق اور وحدت جیسی نعمتوں سے نوازے اور اختلافات، تنازعات و انتشار جیسی منحوس لعنت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

و اٰخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمین


نوٹ:یہ تقریر ’’ایمان افروز تقاریر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ حالات کے اعتبار سے آپ اس میں مناسب تبدیلی کرسکتے ہیں۔ جملہ حقوق بحق ناشر کتاب محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ کے مالک نے محض افادۂ عامہ کے لئے یہاں شائع کیا ہے۔ اگر آپ اس کتاب کو پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو کلک کریں (ڈاؤنلوڈ کریں) یا ہر پوسٹ کی اطلاع چاہتے ہیں تو ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘ کو سبسکرائب کریں اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کریں۔ اگر کوئی مضمون یا تقریر ہماری ویب سائٹ سے شائع کرانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس ای میل پر بھیجیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 thoughts on “مسلمان اور اتحاد و اتفاق| اتحاد و اتفاق کے موضوع پر تقریر| ایمان افروز تقاریر| اردو تقریر”