جنگ آزادی اور علمائے ہند | جنگ آزادی پر تقریر | منتخب تقاریر

جنگ آزادی پر تقریر

جنگ آزادی اور علمائے ہند

جنگ آزادی اور علمائے ہند
جنگ آزادی اور علمائے ہند

 

 الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْن وَ الصَّلَاۃُ وَ السَّلامُ عَلیٰ سیِّدِ الأنبیاءِ و المُرْسَلِیْن، محمدٍ و اٰلِہٖ وَ أصحابِہٖ أجْمَعِیْن و مَنْ تَبِعَھُمْ بِإحْسَانٍ إلیٰ یَوْمِ الدِّیْن أمَّا بَعْد: فَأعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ ’’إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ إنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْر۔ و قَالَ: إنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٓائِکَۃ۔ صَدَقَ اللّٰہُ العَظِیْم

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
جلا سکتی ہے شمعِ کُشتہ کو موجِ نَفَس ان کی
الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
بہار آئی گلشن میں تو کس کام کی آئی
نشیمن شاخ پہ باقی رہا نہ دل ہی سنیوں میں

محترم حضرات اور صدر جلسہ!

  آج میں ان یارانِ باصفا، شہیدانِ عشق و وفا، وارثانِ بلالؓ اور سرخیل آزادی کے تذکرے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جن کا قلب و جگر اسلام کی عظمت سے معمور تھا، جن کے چہرے پر عزم و استقلال کی کرنیں جلوہ فگن تھیں، جن کا دل جذبۂ جہاد سے سرشار تھا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سر بلندی اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے وقف کردی، جن کی ایک تاریخ ہے، جن کی ایک داستان ہے، جنہوں نے ہر دور میں اسلام کی آبیاری کی ہے اور چمنستانِ اسلام کی طرف بڑھنے والی ہر بادِ سموم کی راہ میں دیوارِ آہنی اور سدِّ سکندری بن کر حائل ہوگئے ہیں۔

 

حضرات!

  اس چمنستان عالم کا پتّہ پتّہ اور بوٹہ بوٹہ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ طبقہ ان اصحابِ فکر و نظر اور وارثانِ قلب و جگر کا طبقہ ہے جنہوں نے تاریخ کے ہر نازک موڑ پر اس امت کی رہنمائی اور دست گیری فرمائی ہے۔ یہ ان یاران باصفا اور شہیدان عشق و وفا کا قافلہ ہے جنہوں نے ہر دور میں باطل کا مقابلہ کیا۔ جب بھی باطل نے حق کو چیلنج دیا، انہوں نے اس کے چیلنج کو قبول کیا اور سر بکف میدان میں آنکلے اور جم کر پوری بے خوفی سے باطل کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے جانیں تو دے دیں مگر باطل کو کبھی پیٹھ نہ دکھائی، انہوں نے سر تو کٹا دیا مگر پرچم اسلام کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔ جب جلاد تلوار چمکاتا ہوا آگے بڑھا، تو انہوں نے مسکراکر نظر سے نظر ملائی اور پھر یہ کہتے ہوئے مردانہ وار تلوار کے نیچے سر رکھ دیا:

 

خوشا وقتیکہ میری موت تِرے کوچے میں آجائے
یہی تو زندگی کا آخری ارمان ہے ساقی

 

  غرض یہ کہ انہوں نے ہر محاذ پر باطل کا مقابلہ کیا اور ہر طرح سے مقابلہ کیا۔ ضرورت پڑی تو گولی چلائی، ضرورت پڑتی تو تلوار چلائی، تلوار پھینکی قلم اٹھایا، ضرورت پڑی تو اپنی شعلہ نوائیوں سے طوفانِ تند و تیز اور سرکش و بے باک کا کام لیا، اور جب ضرورت پڑی تو قوم کے ننھے ننھے نونہالوں کی تربیت و اصلاح فرماکر باطل کے لئے دیوارِ آہنی اور فولادی لشکر بنادیا۔ آج میں انہی جیالوں اور سرفروشان اسلام کی تھوڑی سی تاریخ اور ادنیٰ سی جھلک دکھانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے جنگِ آزادی میں کیا کارنامہ انجام دیا ہے اور ان کا کیا مقام رہا ہے؟

محترم حضرات!

  جب ہندوستان کی مقدس سرزمین پر انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا اور وہ اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں سے یہاں کے مالک بن بیٹھے، جب باشندگان ہند پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔ جب ہندوستانیوں کو غلام بنایا جانے لگا، جب ہندوستانیوں کا خون ان کے پسینوں سے بھی ارزاں ہونے لگا، تو ایسے نازک وقت میں سب سے پہلے جس شخص نے عَلَمِ بغاوت بلند کیا وہ مُحَدِّثِ کبیر، امام جلیل، رئیس الاولیاء، فخر چمن، محرِم فن، نازش وطن شاہ عبد العزیز ابن ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔ یہ وہی مرد مجاہد، درویش خدا ہے جس نے وقت سے بہت پہلے مسلمانوں کے نصب العین کا اعلان فرما دیا تھا، جہاں تک پہنچنے کے لئے دوسروں کو ابھی برسہا برس انتظار کرنا تھا۔

 

  شاہ عبد العزیز کا فتویٰ کیا تھا، ایک برقِ بے اماں تھا جو دشمنوں کے نخلِ تمنا پہ گر پڑی، انگریزوں کی نیند حرام ہوگئی۔ جگہ جگہ آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے، اور پرچم لہرانے لگے۔ سینوں میں ولولے مچلنے لگے۔ اور حوصلوں نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں۔

 

  مَسنَدِ درس پر بیٹھ کر قرآن و حدیث کا درس دینے والے علمائے کرام، خانقاہوں میں بیٹھ کر اپنے خون جگر سے شمعِ اسلام کو روشن کرنے والے مشائخ عظام، اپنے مدرسوں اور خانقاہوں کو چھوڑ کر میدان میں آگئے۔ اور فرنگیوں کے خلاف ایک محاذ بناکر توکُّل علی اللہ منزل کی جانب بے سروسامانی کے عالَم میں نکل پڑے اور

 

میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
راہ رو آتے گئے قافلہ بنتا گیا

 

کے مصداق بن گئے۔

 

حضرات!

  یہ کارواں مسافت طے کرتے ہوئے کس طرح منزلِ مقصود تک پہنچا، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ اس داستان میں امنگیں بھی ہیں اور محرومیاں بھی، عزم و عمل کا جوش و خروش بھی ہے اور شکست خوردگی و بے چارگی کی افسردگی بھی، جنونِ شوق کی آشُفتہ سری بھی ہے اور گردشِ دوراں کی کج روی بھی۔ اس طویل مسافت کو طے کرتے ہوئے ان کے پاؤں مسلسل لہو لہان ہوتے رہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کا وجود غبارِ راہ بن کر اڑ گیا۔ کبھی جبر و تشدد کی خاردار جھاڑیوں نے ان کے دامن کو تار تار کیا۔ کبھی وحشت و بربریت کے پہاڑ ان کی راہ میں حائل ہوگئے۔ مگر اس بزمِ جنوں کے دیوانوں نے ہمت نہیں ہاری، حادثات و مصائب سے ٹکراتے ہوئے منزلِ مقصود کی جانب بڑھتے ہی رہے۔

 

  راستے کی قربت و دوری سے بے فکر، طمانیتِ قلب و جگر سے مستغنی، پریشانی و افکار کے احساسات سے بے نیاز، خطرات و وساوس کی گرفت سے بے پروا، منزل مقصود کی تلاش میں کبھی عرب و ترکی کی راہوں کو ناپتے ہیں، تو کبھی روس و افغان کی بادیہ پیمائی کرتے ہیں، کبھی مالٹا کی کوٹھریوں میں قیام کرتے ہیں، تو کبھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر نغمۂ آزادی سناتے ہیں، کبھی پھانسی کے پھندوں کو چوم کر منزل کا نشان پوچھتے ہیں، تو کبھی ریوالور کی لَبلَبی پر انگلی رکھ دیتے ہیں کہ شاید گولیوں کی سنسناہٹ ہی منزل کا پتہ بتا سکے۔ غرَض یہ کہ ان دیوانوں نے ہر راہ سے منزل تک پہنچنے کی کوشش کی اور پہنچ کر ہی دم لیا۔ تاریخ ہند ہم سے کہتی ہے

ع

اس بزمِ جنوں کے دیوانے، ہر راہ سے پہنچے محفل تک
بے تابی ان کی عام ہوئی، صحراؤں سے لے کر ساحل تک
ہاں سنگِ گراں پہ لکھتے تھے، وہ اپنے دلِ ناداں کا حال
شاید کہ تلاشِ مقتل میں، کوئی پہنچے پتھر قاتل تک

حضرات!

  یہ واقعہ ہے کہ اگر ہندوستان کی جنگ آزادی میں علماء حصہ نہ لیتے تو یہ ہندوستان کبھی بھی آزاد نہ ہوتا، اگر یہ سرخیل آزادی نہ ہوتے تو تحریکِ آزادی نہ چلتی، تحریک بالاکوٹ نہ چلتی، تحریک ریشمی رومال نہ چلتی، تحریک خلافت نہ چلتی، ہندوستان چھوڑو تحریک نہ چلتی، مقدمۂ وہابیان نہ چلتا، انبالہ سازش کیس نہ بنتا۔ الغرَض علمائے کرام ہی نے اپنے خون جگر سے عروسِ آزادی کی حِنا بندی کی ہے اور اپنے مقدس لہو سے شجرِ آزادی کو سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔

  چنانچہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دو محاذ بنائے گئے، ایک محاذ انبالہ پر، جس کی قیادت مولانا جعفر تھانیسری کے پاس تھی، دوسرا محاذ شاملی پر، جس کی قیادت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے پاس تھی، اس جنگ میں بڑے بڑے صلحاء و علماء شہید و زخمی ہوئے، اسی جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوئے۔ اِس ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے، جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علمائے کرام شامل تھے۔ صرف دہلی میں پانچ سو علمائے دین کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا گیا۔

  بہر حال جب اس جنگ میں وسائل کی قلت اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے فرنگیوں کا غلبہ ہوا، تو وائسرائے برطانیہ نے اپنے ہندوستانی مشیروں سے رائے طلب کی کہ بتاؤ! ہندوستان میں ہماری حکومت کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ تو ہندوستان میں رہنے والے سب سے بڑے سیاست داں ڈاکٹر ولیم یورنی نے جو رپورٹ پیش کی اس میں لکھتا ہے:

’’ہندوستان میں سب سے زیادہ بیدار مسلمان ہیں، اور جنگ آزادی صرف مسلمانوں نے لڑی ہے۔ مسلمانوں میں جب تک جذبۂ جہاد موجود ہے، اس وقت تک ہم لوگ ان پر حکومت نہیں کرسکتے۔ اس لئے جذبۂ جہاد کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اور جذبۂ جہاد ختم کرنے سے پہلے ایک اور چیز کا ختم کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان سے علماء اور قرآن کو ختم کردیا جائے‘‘۔

  چنانچہ۱۸۶۱ء میں تین لاکھ قرآن کریم کے نسخے بدبخت انگریزوں نے جلائے اور اس کے بعد علماء کے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ انگریز مورّخ مسٹر ایڈورڈ ٹامسن اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ ۱۸۶۴ء سے لے کر ۱۸۶۷ء تک انگریزوں نے علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ تین سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں۔ ان تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔

  ٹامسن کہتا ہے کہ دلی کی چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوئی ہوں۔۔۔ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کے جسموں کو تانبے سے داغا گیا، ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کو سوروں کی کھالوں میں بند کرکے جلتے ہوئے تنوروں میں ڈالا گیا۔۔۔ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کو ہاتھیوں پر کھڑا کرکے درختوں سے باندھ کر ہاتھیوں کے نیچے سے چلا دیا گیا۔ ٹامسن کہتا ہے کہ لاہور کی شاہی مسجد کی صحن میں انگریزوں نے پھانسی کا پھندا بنایا تھا۔ اس میں ایک ایک دن میں اسّی اسّی علماء کو پھانسی دی جاتی تھی۔ ٹامسن کہتا ہے کہ لاہور کے دریائے راوی میں اسّی اسّی علماء کو بوریوں میں بند کرکے ڈال دیا جاتا تھا اور اوپر سے گولیوں کا نشانہ بنادیا جاتا، ٹامسن کہتا ہے جب میں اپنے خیمے میں گیا تو مجھے مردار کی بدبو محسوس ہوئی، میں خیمے کے پیچھے چلا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگارے دہک رہے ہیں اور ۴۰علماء کو کپڑے اتار کر ان انگاروں پر ڈال دیا گیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے چالیس اور علماء کو بلایا گیا میرے سامنے ان کے کپڑے اتارے گئے۔ انگریز نے کہا مولویو! جس طرح ان چالیس کو پکایا گیا ہے اسی طرح تمہیں بھی پکا دیا جائے گا۔ تم صرف ایک آدمی یہ کہہ دو کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہم شریک نہیں تھے، ابھی چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ٹامسن کہتا ہے کہ مجھے پیدا کرنے والے کی قسم، کوئی عالم ان میں ایسا نہیں تھا، سارے کے سارے آگ میں پک تو گئے مگر انگریزوں کے سامنے کسی نے بھی گردن نہیں جھکائی۔‘‘

  حضرات!

  انہیں شیرانِ اسلام اور سرفروشانِ خیر الانام کے سچے جانشین اور حقیقی وارث شیخ الہند، شیخ الاسلام اور مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔ ۱۸۵۷ٓء تک آزادی کے سرخیل اور کمانڈر یہی حضرات تھے۔ آج یہ لوگ دنیائے تاریخ میں اسیرانِ مالٹا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ وہی شیخ الہند ہیں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف ایک عالَمگیر تحریک چلائی تھی کہ عقل انسانی حیران و ششدر رہ جاتی ہے، اور ان کی زود فہمی و دوربینی پر قیادت و سیادت سر دھنتی ہے۔ یہ شخص قد و قامت کے اعتبار سے قوی الہیکل و عظیم الجثہ تو نہ تھا مگر اپنے دور کے تمام سیاسی قائدین کا امام اور مذہبی رہنماؤں کا مقتدا تھا۔ وہ منبع حریت اور پیکر خلوص و وفا تھا، جو ایک طرف آزادی کے جوش و خروش اور جذبۂ و ولولہ سے لوگوں کے قلوب کو معمور کر رہا تھا، تو دوسری طرف قالَ اللہ و قالَ الرَّسول کا جامِ خوشگوار تشنگانِ علومِ نبوت کو اپنے دستِ مبارک سے بھر بھر کر پلا رہا تھا، وہ ’’در کفے جامِ شریعت و در کفے سندانِ عشق‘‘ کا کامل و اکمل نمونہ تھا۔ اگر اس عظیم ہستی کی وہ عالم گیر تحریک جسے ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کامیاب ہوگئی ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، لیکن

ع

قسمت کی خوبی دیکھئے، ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
 
 انہیں کے شاگردِ رشید حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ہیں، جو شیخ الہند کے بعد تحریک ریشمی رومال کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ تحریک ریشمی رومال کے سلسلے میں حضرت نے انہیں افغانستان روانہ کیا تھا، تاکہ وہاں کی جوشیلی قوم کو انگریزوں کے خلاف متحد کرسکیں۔ جب مولانا افغانستان کے لئے روانہ ہورہے تھے، تو ان کی داڑھی نکل رہی تھی، مگر جب وہ روس و افغانستان کی بادیہ پیمائی کرکے لوٹے ہیں تو ان کی داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ اور شیخ الہندؒ ہی کے سب سے چہیتے اور ہر دلعزیز شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ہیں، جنہوں نے خلافت کانفرنس کراچی میں ایسے وقت میں شرکت کی کہ ان کو گولی ماردیئے جانے کا حکم مل چکا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حسین احمد نہیں آئے گا۔ مگر لوگوں کی آنکھیں اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب وہ مرد مجاہد ’’کفن بردوش‘‘ ہوکر اسٹیج پر آیا اور جلسہ کی صدارت فرمائی۔ اسی کانفرنس میں حضرت نے انگریزوں کو بلبل اور گولیوں کو گل سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا
ع
لئے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل
شہیدِ ناز کی تربت کہاں ہے
 
  راوی کہتا ہے کہ جب حضرت نے یہ شعر پڑھا تو لوگ جوش میں آدھے گھنٹے تک مسلسل نعرے لگاتے رہے اور پھر علماء کی قربانیوں اور اپنے ایک فتویٰ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انگریز کو مخاطب کرکے فرمایا کہ
ع
کھلونا سمجھ کر نہ برباد کرنا
کہ ہم بھی کسی کے بنائے ہوئے ہیں
فرنگی کی فوجوں میں حرمت کے فتوے
سرِ دار چڑھ کر بھی گائے ہوئے ہیں
وہ شجرِ آزادی کہ خوں دے کے سینچا
تو پھل اس کے پکنے کو آئے ہوئے ہیں
 
لیکن آہ!
 
کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد
کیا بتائیں ہم پہ کیا گذری آزادی کے بعد
 حضرات!
  یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اس شجرِ آزادی کا پھل ہمارے حق میں بہت ہی زیادہ تلخ ثابت ہوا، جس کی تلخی آج تک ختم نہ ہوسکی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں ختم نہیں ہوگی۔ لیکن ہمیں بھی کوئی غم و افسوس نہیں، ہمیں کوئی ملال نہیں۔ اگر یہ ظالم حکومت اپنے ظلم و ستم سے باز نہیں آئی اور ہمارے حقوق کو یونہی پامال کرتی رہی تو اسے بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم انہی شیرانِ اسلام اور سرفروشانِ خیر الانام کے فرزند ہیں جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ بدل ڈالی تھی، ایک بار ہم بھی بدل کر دیکھیں گے۔ کیونکہ
 
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

 

  حضرات!
یہ چرخ نیلی فام اس بات پر شاہد ہے کہ ہم اگر آج بھی اپنے حقوق لینے پر آجائیں تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں اس عزم کی تکمیل سے نہیں روک سکتی، شرط یہ ہے کہ ہم پہلے خود کو اس کے لیے تیار کریں، شکوہ شکایت، اور دست سوال دراز کرنے کے بجائے اپنے بازو میں وہ طاقت اور سینوں میں وہ حوصلے اور حوصلوں میں وہ جان پیداکریں کہ وقت کی خوفناک آندھیاں کترا کر گزرا کریں۔ اور اپنے اندر وہ خودداری و خود اعتمادی پیدا کریں کہ ہمارے ایک اشارے پر بڑی سے بڑی طاقتیں اپنی کلاہِ شہنشاہی ہمارے قدموں میں ڈال کر سر تسلیم خم کریں اور ہماری مقدس خواہشات و جذبات کی تکمیل کو اپنے لیے باعثِ صد عزّ و افتخار سمجھیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں، اس لیے کہ
ع
جو ہو عزم سفر پیدا، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
 
 بہر حال تو میں یہ عرض کر رہا تھا کی ۱۸۵۷ء سے پہلے بھی آزادی کے سرخیل علماء ہی رہے ہیں، اور ۱۸۵۷ء کے بعد مجاہدین آزادی کی قیادت برصغیر کے عظیم سپوت دارالعلوم دیوبند کے فرزند اول شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے تھے، مولانا شاہین جمالی "دارالعلوم کی تاریخ سیاست” میں لکھتے ہیں:
 
"١٩٢٠ء کے بعد آزادئ ہند کا دوسرا دور شروع ہوا اس دور میں دیوبند شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی کمان میں آزادی کی جنگ لڑتا رہا۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور مولانا ابوالکلام سیاسی رہنمائی کرتے رہے۔ اِن حضرات کی رہنمائی میں ۱۹۳۰ء کی جنگ میں چودہ ہزار مسلمان جیل گئے اور پانچ سو دلاور سرحدی جوان شہید ہوئے اور آخری جنگ ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کا آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن رخصت ہوگیا اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دور سے چل رہی آزادی کی تحریک اپنی منزل مراد پانے میں کامیاب ہوگئی۔ اینگلو محمڈن بلاک کا ایک حصہ ایک نئی سلطنت "پاکستان” قائم کرکے اس کا حکمراں بن گیا اور دیوبند کے آزاد بلاک کو ۸۰ فی صدی ہندوستان کی حکومت ملی اور دو بڑے لیڈر”جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد” ہندوستانی عوام کی آزادی اور جمہوریت کے محافظ اور ذمہ دار ہوئے۔
 
 الغرض قصہ مختصر یہ ہے کہ اگر جنگ آزادی میں علمائے کرام حصہ نہ لیتے تو یہ ہندوستان کبھی بھی آزاد نہ ہوتا۔ ان مقدس اور پاکیزہ ہستیوں نے ایسی ایسی بے مثال و لازوال قربانیاں دی ہیں جن کی نظیریں پیش کرنے سے تاریخ امم عاجز و قاصر اور عقل انسانی حیران و ششدر ہے۔ اور آج ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے اسلاف نے ہندوستان کے ساتھ وفاداری اور اس کے لیے جاں نثاری کے ایسے ایسے محیّر العقول ثبوت پیش کئے ہیں کہ
ع
انگشت بدنداں ہیں زمیں، چاند، ستارے
 
 لیکن چونکہ انہوں نے یہ لڑائی شہرت و ناموری کے جذبات سے یکسر عاری ہوکر لڑی تھی، اس لئے جب کاروان آزادی اور قافلۂ حریت منزل مقصود تک پہنچا تو یہ میرِ کارواں اور سرخیل آزادی گوشۂ گمنامی میں جاکر بیٹھ گئے اور دنیا داروں سے کہہ دیا کہ جو شخص شہرت و ناموری چاہتا ہے وہ جائے اور اپنی خدمات کی مزدوری لے اور جگہ جگہ اپنے مجسمے نصب کرائے۔ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نے یہ لڑائی مزدوری لینے کے لئے نہیں لڑی ہے، اپنی قربانیوں کی صلات لینے کے لئے نہیں لڑی ہے۔ بلکہ ہم نے یہ جنگ اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا جوئی کے لئے لڑی ہے۔ ہمارے ہندوستان کو ہمارے مجسمے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ اس ہندوستان کا
ع
پتّہ پتّہ بوٹہ بوٹہ حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
 
مگر اے لوگو! ہمیں ان مجاہدین کی یاددوں کو زندہ رکھنا ہوگا۔ ان کی بے مثال و لازوال قربانیوں سے اپنوں اور بیگانوں کو آشنا کرانا ہوگا، کیونکہ ملک کے غداروں اور مسلم دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ ان عظیم مجاہدین کے کارناموں سے ہندوستانی عوام کو اندھیرے میں رکھا جائے اور یہ تأثر دیا جائے کہ جنگ آزادی مسلمانوں نے نہیں صرف ہندؤوں نے لڑی ہے اور وہ یقیناً اپنی اس ناپاک سازش میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں؛ کیونکہ آج خود ہماری نئی نسل ان بزرگوں کی عظیم قربانیوں سے یکسر ناواقف ہوچکی ہے۔
 
  لہٰذا اگر ہم ان مقدس ہستیوں کے مجسمے حرام ہونے کی وجہ سے نصب نہیں کراسکتے تو کم از کم ان کے نام پر ادارے اور لائبریریاں تو کھولی جاسکتی ہیں، تاکہ ہماری جدید نسل اور آئندہ آنے والی نسلیں ان بزرگوں کی جاں نثاری و جاں سپاری اور وطن کے ساتھ وفاداری کے حیرت انگیز واقعات کو فراموش نہ کرسکیں۔ اگرچہ ہمارے ان عظیم اسلاف نے زبانِ قال و حال دونوں سے کہہ دیا ہے
ع
نہیں منت کشِ تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
 
 
و اٰخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
 
(ماخوذ از ’’منتخب تقاریر‘‘)
 
  • اطلاع پانے کے لئے ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘‘ کو سبسکرائب کریں اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے