جنگ آزادی پر تقریر
جنگ آزادی اور علمائے ہند
الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْن وَ الصَّلَاۃُ وَ السَّلامُ عَلیٰ سیِّدِ الأنبیاءِ و المُرْسَلِیْن، محمدٍ و اٰلِہٖ وَ أصحابِہٖ أجْمَعِیْن و مَنْ تَبِعَھُمْ بِإحْسَانٍ إلیٰ یَوْمِ الدِّیْن أمَّا بَعْد: فَأعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ ’’إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ إنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْر۔ و قَالَ: إنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٓائِکَۃ۔ صَدَقَ اللّٰہُ العَظِیْم
محترم حضرات اور صدر جلسہ!
آج میں ان یارانِ باصفا، شہیدانِ عشق و وفا، وارثانِ بلالؓ اور سرخیل آزادی کے تذکرے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جن کا قلب و جگر اسلام کی عظمت سے معمور تھا، جن کے چہرے پر عزم و استقلال کی کرنیں جلوہ فگن تھیں، جن کا دل جذبۂ جہاد سے سرشار تھا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سر بلندی اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے وقف کردی، جن کی ایک تاریخ ہے، جن کی ایک داستان ہے، جنہوں نے ہر دور میں اسلام کی آبیاری کی ہے اور چمنستانِ اسلام کی طرف بڑھنے والی ہر بادِ سموم کی راہ میں دیوارِ آہنی اور سدِّ سکندری بن کر حائل ہوگئے ہیں۔
حضرات!
اس چمنستان عالم کا پتّہ پتّہ اور بوٹہ بوٹہ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ طبقہ ان اصحابِ فکر و نظر اور وارثانِ قلب و جگر کا طبقہ ہے جنہوں نے تاریخ کے ہر نازک موڑ پر اس امت کی رہنمائی اور دست گیری فرمائی ہے۔ یہ ان یاران باصفا اور شہیدان عشق و وفا کا قافلہ ہے جنہوں نے ہر دور میں باطل کا مقابلہ کیا۔ جب بھی باطل نے حق کو چیلنج دیا، انہوں نے اس کے چیلنج کو قبول کیا اور سر بکف میدان میں آنکلے اور جم کر پوری بے خوفی سے باطل کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے جانیں تو دے دیں مگر باطل کو کبھی پیٹھ نہ دکھائی، انہوں نے سر تو کٹا دیا مگر پرچم اسلام کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔ جب جلاد تلوار چمکاتا ہوا آگے بڑھا، تو انہوں نے مسکراکر نظر سے نظر ملائی اور پھر یہ کہتے ہوئے مردانہ وار تلوار کے نیچے سر رکھ دیا:
یہی تو زندگی کا آخری ارمان ہے ساقی
غرض یہ کہ انہوں نے ہر محاذ پر باطل کا مقابلہ کیا اور ہر طرح سے مقابلہ کیا۔ ضرورت پڑی تو گولی چلائی، ضرورت پڑتی تو تلوار چلائی، تلوار پھینکی قلم اٹھایا، ضرورت پڑی تو اپنی شعلہ نوائیوں سے طوفانِ تند و تیز اور سرکش و بے باک کا کام لیا، اور جب ضرورت پڑی تو قوم کے ننھے ننھے نونہالوں کی تربیت و اصلاح فرماکر باطل کے لئے دیوارِ آہنی اور فولادی لشکر بنادیا۔ آج میں انہی جیالوں اور سرفروشان اسلام کی تھوڑی سی تاریخ اور ادنیٰ سی جھلک دکھانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے جنگِ آزادی میں کیا کارنامہ انجام دیا ہے اور ان کا کیا مقام رہا ہے؟
محترم حضرات!
جب ہندوستان کی مقدس سرزمین پر انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا اور وہ اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں سے یہاں کے مالک بن بیٹھے، جب باشندگان ہند پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔ جب ہندوستانیوں کو غلام بنایا جانے لگا، جب ہندوستانیوں کا خون ان کے پسینوں سے بھی ارزاں ہونے لگا، تو ایسے نازک وقت میں سب سے پہلے جس شخص نے عَلَمِ بغاوت بلند کیا وہ مُحَدِّثِ کبیر، امام جلیل، رئیس الاولیاء، فخر چمن، محرِم فن، نازش وطن شاہ عبد العزیز ابن ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔ یہ وہی مرد مجاہد، درویش خدا ہے جس نے وقت سے بہت پہلے مسلمانوں کے نصب العین کا اعلان فرما دیا تھا، جہاں تک پہنچنے کے لئے دوسروں کو ابھی برسہا برس انتظار کرنا تھا۔
شاہ عبد العزیز کا فتویٰ کیا تھا، ایک برقِ بے اماں تھا جو دشمنوں کے نخلِ تمنا پہ گر پڑی، انگریزوں کی نیند حرام ہوگئی۔ جگہ جگہ آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے، اور پرچم لہرانے لگے۔ سینوں میں ولولے مچلنے لگے۔ اور حوصلوں نے انگڑائیاں لینی شروع کردیں۔
مَسنَدِ درس پر بیٹھ کر قرآن و حدیث کا درس دینے والے علمائے کرام، خانقاہوں میں بیٹھ کر اپنے خون جگر سے شمعِ اسلام کو روشن کرنے والے مشائخ عظام، اپنے مدرسوں اور خانقاہوں کو چھوڑ کر میدان میں آگئے۔ اور فرنگیوں کے خلاف ایک محاذ بناکر توکُّل علی اللہ منزل کی جانب بے سروسامانی کے عالَم میں نکل پڑے اور
راہ رو آتے گئے قافلہ بنتا گیا
کے مصداق بن گئے۔
حضرات!
یہ کارواں مسافت طے کرتے ہوئے کس طرح منزلِ مقصود تک پہنچا، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ اس داستان میں امنگیں بھی ہیں اور محرومیاں بھی، عزم و عمل کا جوش و خروش بھی ہے اور شکست خوردگی و بے چارگی کی افسردگی بھی، جنونِ شوق کی آشُفتہ سری بھی ہے اور گردشِ دوراں کی کج روی بھی۔ اس طویل مسافت کو طے کرتے ہوئے ان کے پاؤں مسلسل لہو لہان ہوتے رہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کا وجود غبارِ راہ بن کر اڑ گیا۔ کبھی جبر و تشدد کی خاردار جھاڑیوں نے ان کے دامن کو تار تار کیا۔ کبھی وحشت و بربریت کے پہاڑ ان کی راہ میں حائل ہوگئے۔ مگر اس بزمِ جنوں کے دیوانوں نے ہمت نہیں ہاری، حادثات و مصائب سے ٹکراتے ہوئے منزلِ مقصود کی جانب بڑھتے ہی رہے۔
راستے کی قربت و دوری سے بے فکر، طمانیتِ قلب و جگر سے مستغنی، پریشانی و افکار کے احساسات سے بے نیاز، خطرات و وساوس کی گرفت سے بے پروا، منزل مقصود کی تلاش میں کبھی عرب و ترکی کی راہوں کو ناپتے ہیں، تو کبھی روس و افغان کی بادیہ پیمائی کرتے ہیں، کبھی مالٹا کی کوٹھریوں میں قیام کرتے ہیں، تو کبھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر نغمۂ آزادی سناتے ہیں، کبھی پھانسی کے پھندوں کو چوم کر منزل کا نشان پوچھتے ہیں، تو کبھی ریوالور کی لَبلَبی پر انگلی رکھ دیتے ہیں کہ شاید گولیوں کی سنسناہٹ ہی منزل کا پتہ بتا سکے۔ غرَض یہ کہ ان دیوانوں نے ہر راہ سے منزل تک پہنچنے کی کوشش کی اور پہنچ کر ہی دم لیا۔ تاریخ ہند ہم سے کہتی ہے
ع
حضرات!
یہ واقعہ ہے کہ اگر ہندوستان کی جنگ آزادی میں علماء حصہ نہ لیتے تو یہ ہندوستان کبھی بھی آزاد نہ ہوتا، اگر یہ سرخیل آزادی نہ ہوتے تو تحریکِ آزادی نہ چلتی، تحریک بالاکوٹ نہ چلتی، تحریک ریشمی رومال نہ چلتی، تحریک خلافت نہ چلتی، ہندوستان چھوڑو تحریک نہ چلتی، مقدمۂ وہابیان نہ چلتا، انبالہ سازش کیس نہ بنتا۔ الغرَض علمائے کرام ہی نے اپنے خون جگر سے عروسِ آزادی کی حِنا بندی کی ہے اور اپنے مقدس لہو سے شجرِ آزادی کو سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔
چنانچہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دو محاذ بنائے گئے، ایک محاذ انبالہ پر، جس کی قیادت مولانا جعفر تھانیسری کے پاس تھی، دوسرا محاذ شاملی پر، جس کی قیادت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے پاس تھی، اس جنگ میں بڑے بڑے صلحاء و علماء شہید و زخمی ہوئے، اسی جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوئے۔ اِس ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے، جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علمائے کرام شامل تھے۔ صرف دہلی میں پانچ سو علمائے دین کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا گیا۔
بہر حال جب اس جنگ میں وسائل کی قلت اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے فرنگیوں کا غلبہ ہوا، تو وائسرائے برطانیہ نے اپنے ہندوستانی مشیروں سے رائے طلب کی کہ بتاؤ! ہندوستان میں ہماری حکومت کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ تو ہندوستان میں رہنے والے سب سے بڑے سیاست داں ڈاکٹر ولیم یورنی نے جو رپورٹ پیش کی اس میں لکھتا ہے:
’’ہندوستان میں سب سے زیادہ بیدار مسلمان ہیں، اور جنگ آزادی صرف مسلمانوں نے لڑی ہے۔ مسلمانوں میں جب تک جذبۂ جہاد موجود ہے، اس وقت تک ہم لوگ ان پر حکومت نہیں کرسکتے۔ اس لئے جذبۂ جہاد کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اور جذبۂ جہاد ختم کرنے سے پہلے ایک اور چیز کا ختم کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان سے علماء اور قرآن کو ختم کردیا جائے‘‘۔
چنانچہ۱۸۶۱ء میں تین لاکھ قرآن کریم کے نسخے بدبخت انگریزوں نے جلائے اور اس کے بعد علماء کے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ انگریز مورّخ مسٹر ایڈورڈ ٹامسن اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ ۱۸۶۴ء سے لے کر ۱۸۶۷ء تک انگریزوں نے علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ تین سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں۔ ان تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔
ٹامسن کہتا ہے کہ دلی کی چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوئی ہوں۔۔۔ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کے جسموں کو تانبے سے داغا گیا، ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کو سوروں کی کھالوں میں بند کرکے جلتے ہوئے تنوروں میں ڈالا گیا۔۔۔ٹامسن کہتا ہے کہ علماء کو ہاتھیوں پر کھڑا کرکے درختوں سے باندھ کر ہاتھیوں کے نیچے سے چلا دیا گیا۔ ٹامسن کہتا ہے کہ لاہور کی شاہی مسجد کی صحن میں انگریزوں نے پھانسی کا پھندا بنایا تھا۔ اس میں ایک ایک دن میں اسّی اسّی علماء کو پھانسی دی جاتی تھی۔ ٹامسن کہتا ہے کہ لاہور کے دریائے راوی میں اسّی اسّی علماء کو بوریوں میں بند کرکے ڈال دیا جاتا تھا اور اوپر سے گولیوں کا نشانہ بنادیا جاتا، ٹامسن کہتا ہے جب میں اپنے خیمے میں گیا تو مجھے مردار کی بدبو محسوس ہوئی، میں خیمے کے پیچھے چلا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگارے دہک رہے ہیں اور ۴۰علماء کو کپڑے اتار کر ان انگاروں پر ڈال دیا گیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے چالیس اور علماء کو بلایا گیا میرے سامنے ان کے کپڑے اتارے گئے۔ انگریز نے کہا مولویو! جس طرح ان چالیس کو پکایا گیا ہے اسی طرح تمہیں بھی پکا دیا جائے گا۔ تم صرف ایک آدمی یہ کہہ دو کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہم شریک نہیں تھے، ابھی چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ٹامسن کہتا ہے کہ مجھے پیدا کرنے والے کی قسم، کوئی عالم ان میں ایسا نہیں تھا، سارے کے سارے آگ میں پک تو گئے مگر انگریزوں کے سامنے کسی نے بھی گردن نہیں جھکائی۔‘‘
حضرات!
انہیں شیرانِ اسلام اور سرفروشانِ خیر الانام کے سچے جانشین اور حقیقی وارث شیخ الہند، شیخ الاسلام اور مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔ ۱۸۵۷ٓء تک آزادی کے سرخیل اور کمانڈر یہی حضرات تھے۔ آج یہ لوگ دنیائے تاریخ میں اسیرانِ مالٹا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ وہی شیخ الہند ہیں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف ایک عالَمگیر تحریک چلائی تھی کہ عقل انسانی حیران و ششدر رہ جاتی ہے، اور ان کی زود فہمی و دوربینی پر قیادت و سیادت سر دھنتی ہے۔ یہ شخص قد و قامت کے اعتبار سے قوی الہیکل و عظیم الجثہ تو نہ تھا مگر اپنے دور کے تمام سیاسی قائدین کا امام اور مذہبی رہنماؤں کا مقتدا تھا۔ وہ منبع حریت اور پیکر خلوص و وفا تھا، جو ایک طرف آزادی کے جوش و خروش اور جذبۂ و ولولہ سے لوگوں کے قلوب کو معمور کر رہا تھا، تو دوسری طرف قالَ اللہ و قالَ الرَّسول کا جامِ خوشگوار تشنگانِ علومِ نبوت کو اپنے دستِ مبارک سے بھر بھر کر پلا رہا تھا، وہ ’’در کفے جامِ شریعت و در کفے سندانِ عشق‘‘ کا کامل و اکمل نمونہ تھا۔ اگر اس عظیم ہستی کی وہ عالم گیر تحریک جسے ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کامیاب ہوگئی ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، لیکن
ع
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
- اطلاع پانے کے لئے ہمارے ٹیلیگرام چینل ’’بزم اردو‘‘ کو سبسکرائب کریں اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کریں۔