ذکر اللہ کی اہمیت و فضیلت – درس حدیث

درس حدیث

ذکر اللہ کی اہمیت و فضیلت

محمد اطہر قاسمی
دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، ٹونک، راجستھان

عَنْ أَبِيْ مُوْسیٰ الأَشْعَرِي رَضِيَ اللّٰه عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ : مَثَلُ الَّذِيْ یَذْکُرُ رَبَّهٗ وَ الَّذِيْ لَا یَذْکُرُ رَبَّهٗ مَثَلُ الْحَيِّ وَ الْمَیِّتِ۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۹۴)

ترجمہ:حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ہے، زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔

اس حدیث شریف میں ذکر کرنے والے کو زندہ اور ذکر نہ کرنے والے کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس تشبیہ سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ذکر اللہ کی کیا اہمیت ہے۔

ذکر الٰہی کی آسان شکلیں

یوں تو ذکر کے بہت سارے طریقے اور بہت سارے کلمات ہیں؛ لیکن درج ذیل حدیث شریف میں دو ایسے طریقے بیان کیے گئے ہیں جو زبان پر بہت ہی آسان ہیں لیکن ثواب کے اعتبار سے بہت بڑھے ہوئے ہیں۔

حدیث شریف یہ ہے:

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : خُلَّتَانِ لَا یُحْصِیْھِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، أَلا وَ ھُمَا یَسِیْرٌ، وَ مَنْ یَعْمَلُ بِھِمَا قَلِیْلٌ، یُسَبِّحُ اللّٰہَ فِيْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْراً، وَ یَحْمَدُہٗ عَشْراً، وَ یُکَبِّرُہٗ عَشْراً، قَالَ فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَعْقِدُھَا بِیَدِہٖ قَالَ: فَتِلْکَ خَمْسُوْنَ وَ مِأَۃٌ فِيْ اللِّسَانِ وَ أَلْفٌ وَ خَمْسُ مِأَۃٍ فِيْ الْمِیْزَانِ، وَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهٗ یُسَبِّحُهٗ وَ یُکَبِّرُہٗ وَ یَحْمَدُہٗ مِأَۃ، فَتِلْکَ مِأَۃٌ فِيْ اللِّسَانِ وَ أَلْفٌ فِيْ الْمِیْزَانِ۔ فَأَیُّکُمْ یَعْمَلُ فِيْ الْیَوْمِ وَ اللَّیْلَةِ أَلْفَیْنِ وَ خَمْسَ مِأَۃِ سَیِّئَةٍ۔ (ترمذی شریف، ج۲ ص ۱۷۸، مشکوٰۃ شریف، ۲۱۱)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمروؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو عادتیں ایسی ہیں جو مسلمان ان کو اپنا لے گا وہ جنتی بن جائے گا۔ یاد رکھو وہ دونوں عادتیں بہت آسان ہیں، مگر ان کو اختیار کرنے والے بہت کم ہیں۔ (۱)ہر نماز کے بعد دس مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘ دس مرتبہ ’’الحمد للہ‘‘ اور دس مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ پڑھا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اپنے دست مبارک سے شمار کیا اور فرمایا کہ یہ کل زبان پر ڈیڑھ سو ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ کے ترازو میں ان کی تعداد ایک ہزار پانچ سو ہوگی۔ (۲)جب بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو ’’سبحان اللہ‘‘ ۳۳؍ مرتبہ، ’’اللہ اکبر‘‘ ۳۴؍ مرتبہ اور ’’الحمد للہ‘‘ ۳۳؍ مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ کل سو تسبیحات ہوئیں، یہ اگرچہ زبان پر سو ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے ترازو میں ان کی تعداد ایک ہزار ہوگی۔ (کل تسبیحات کا ٹوٹل پچیس سو ہوا۔) تم میں سے کون ہے جو دن و رات میں پچیس سو گناہ کرتا ہو۔

مذکورہ روایت میں نبی کریم ﷺ دو ایسے اذکار کا تذکرہ فرمارہے ہیں جو ذکر کرنے میں بہت آسان ہیں، اور ثواب میں بہت بڑھے ہوئے ہیں، یہ اذکار انسان کو جنتی بنادیتے ہیں؛ مگر پھر بھی لوگ اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان اذکار کو پابندی سے کرتے ہیں۔

(۱) پہلا ذکر یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘، دس مرتبہ ’’الحمد للہ‘‘ اور دس مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ پابندی سے پڑھا جائے۔ایک دن میں پانچ نمازوں کے حساب سے کل ڈیڑھ سو تسبیحات ہوئیں۔ مگر رب ذو الجلال کی طرف سے چونکہ ایک تسبیح کے بدلے دس گنا بڑھاکر ثواب دینے کا وعدہ ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ترازو میں ان اذکار کے بدلے ملنے والے اجر و ثواب کی تعداد ایک ہزار پانچ سو ہوگی۔

(۲) نبی کریم ﷺ ذکر کی دوسری شکل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیںکہ اسی طرح جب تم سونے کے لیے بستر پر جایا کرو تو نیند کے آغوش میں پہنچنے سے پہلے ۳۳؍ مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘ ۳۴؍ مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ اور ۳۳؍ مرتبہ ’’الحمد للہ‘‘ پڑھ لیا کرو۔ ان کی تعداد سو ہے؛ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے ترازو میں ان کی تعداد ایک ہزار ہوگی۔ دن و رات کے دونوں اذکار کی کل تعداد اللہ تعالیٰ کے ترازو میں ثواب کے اعتبار سے پچیس سو بنتی ہے۔ آگے نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم میں سے کون ہوگا جو دن ور ات میں پچیس سو گناہ کرے اور مذکورہ بالا نیکیاں ان کو مٹانے میں صرف ہوجائیں، یقینا ایسا ممکن نہیں ہے؛ لہٰذا یہ تمام نیکیاں ذخیرۂ آخرت ہوں گی اور کل میدان محشر میں انسان ان سے فائدہ اٹھائے گا۔

ان عظیم الشان اذکار کو کون چھوڑ سکتا ہے؟

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب ان اذکار کے فضائل سنے تو بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ! ان کو کون چھوڑ سکتا ہے؟ آپ یہ کیوںارشاد فرما رہے ہیں کہ ان اذکار کو اختیار کرنے والے کم ہی لوگ ہوں گے تو آپﷺ نے جواب میں کیا فرمایا ملاحظہ کریں:

قَالُوْا: وَ کَیْفَ لَا نُحْصِیْھَا قَالَ: یَأْتِيْ أَحَدَکُمُ الشَّیْطَانُ وَ ھُوَ فِيْ صَلَاتِهٖ فَیَقُوْلُ: أُذْکُرْ کَذَا أُذْکُرْ کَذَا حَتّٰی یَنْفَتِلَ فَلَعَلَّهٗ أَنْ لَّا یَفْعَلَ، وَ یَأْتِیْهِ فِيْ مَضْجَعِهٖ فَلَا یَزَالُ یُنَوِّمُهٗ حَتّٰی یَنَامَ۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ ۲۱۱)

ترجمہ: صحابۂ کرام ؓ نے کہا ہم کیوں نہیں مذکورہ اذکار کو کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز میں مصروف ہوتے ہو تو شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے (اس کے دل میںیہ وسوسہ ڈالتا ہے) کہ اس بات کو یاد کر، اس بات کو یاد کر، یہاں تک کہ انسان اسی حالت میں نماز سے فارغ ہوتا ہے اور پھر وہ دوسرے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے نماز کے بعد والے ذکر کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بستر پر پہنچتا ہے تو شیطان اس کو سلانے میں برابر لگا رہتا ہے یہاں تک کہ انسان سونے سے پہلے والے اذکار کو پڑھے بغیر ہی سو جاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے، وہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ کوئی شخص کوئی نیک عمل کرکے کچھ نیکی کمائے؛ اس لیے جب بھی کوئی شخص کوئی نیک عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگتا ہے، اور اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا کرتا ہے ، اور بسا اوقات شیطان اس انسان کو نیکی سے دور رکھنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ذکر اللہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہرطرح کے گناہوں اور شیطان کے شرسے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے