ظالم شوہروں سے چھٹکارا پانے کا آسان حل: تفویض طلاق
از قلم: محمد اطہر قاسمی
اسلامی شریعت میں طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے عورت کو نہیں۔ اس سے کچھ مرد حضرات جو دین سے دور ہیں، دینی تعلیم سے واقف نہیں ہیں، اور خوف خدا ان میں نہیں ہے، طلاق کی حقیقت کو نہیں جانتے ہیں، ایسے لوگ جب عورت کو پریشان کرنا چاہتے ہیں تو اس حق کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے ہیں، ان کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں، یا ان کی عزت نہیں کرتے ہیں، ان کے ساتھ نوکروں جیسا سلوک کرتے ہیں، ایسے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر عورت چاہتی ہے کہ وہ مرد سے علاحدہ ہوجائے، لیکن چونکہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے اس لیے وہ آسانی سے علاحدہ نہیں ہوسکتی، وہ طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے، اگر شوہر میں ذرا بھی خوف خدا ہو تو وہ یا تو حقوق ادا کرنے پر رضامند ہوجاتا ہے یا پھر طلاق دے دیتا ہے۔
اگر وہ راضی نہ ہو تو عورت کو قاضی کے پاس یا سرکاری عدالت میں فسخ نکاح کی درخواست دینی ہوتی ہے۔ اور یہ معاملہ دیگر معاملوں کی طرح طویل ہوجاتا ہے، اور سب سے زیادہ پریشانی عورت کو اٹھانی پڑتی ہے۔ اور اس صورت میں بہت ساری پیچیدگیاں بھی ہیں۔ سرکاری عدالت سے معاملہ حل کرانا اور انصاف پانا بہت دیر طلب اور صبر آزما کام ہے۔ شرعی عدالت میں یہ آسان ہوسکتا ہے لیکن وہاں بھی کئی طرح کی دشواریاں آسکتی ہیں، خاص طور سے جب مرد طلاق دینا نہ چاہتا ہو۔ چونکہ ہندوستان کوئی مسلم ریاست نہیں ہے اس لیے دار القضاء اپنی اصل شکل میں متصور نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی حکومت کی طرف سے دار القضاء کو خصوصی اختیارات ملے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے وہ بااختیار ہوکر کوئی معاملہ حل کرسکے۔ ایسی صورت میں اس پریشانی کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی عورت کو طلاق کا اختیار مل جائے، جسے فقہی اصطلاح میں تفویض طلاق کہتے ہیں۔ مطلق اختیار نہیں؛ بلکہ کچھ شرائط کے ساتھ، کہیں ایسا نہ ہو کہ عورت اپنے اوپر طلاق واقع کرکے خود مصیبت میں پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عورت کو مرد کے ظلم و ستم کو گھٹ گھٹ کر برداشت کرنا نہیں ہوگا؛ بلکہ جب حدود اللہ کی رعایت کرتے ہوئے ساتھ رہنا مشکل ہوجائے، اور عورت کی جانب سے طلاق کے مطالبے کے باوجود وہ طلاق نہ دے تو اس وقت وہ اپنے اوپر طلاق واقع کرکے علاحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
چونکہ طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہے اس لیے وہی عورت کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے۔ یہ کام نکاح کے وقت ہی کروالیا جائے تو بہتر ہوگا؛ اس لیے کہ نکاح کے بعد ہوسکتا ہے کہ وہ یہ اختیار دینے پر راضی نہ ہو۔
اختیار کس طرح لیا جائے؟ اس میں کیا شرطیں لگائی جائیں جن کی خلاف ورزی کی وجہ سے عورت کو طلاق واقع کرنے کی اجازت ملے؟ یہ سب چیزیں فنی اور قانونی ہیں؛ اس لیے ان کو کسی معتبر عالم یا مفتی سے سمجھ کر اور ان کی نگرانی میں تفویض طلاق کی تحریر بنوانی ہوگی۔ اس میں ذرا سی غلطی سے مطلب کچھ کا کچھ ہوجائے گا اور مقصد حاصل نہیں ہوپائے گا۔
حکومت کے قانون بنانے کا طریقہ
کئی طریقے ہیں جن کے ذریعے پارلیمنٹ میں بل پیش ہوتا ہے، اور قانون بنتا ہے۔ کبھی غیر ملکی تنظیمیں بھی کسی طرح کے قانون بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں، اور غیر ملکی حکومتیں بھی مطالبہ کرتی ہیں۔ ملکی تنظیمیں اور کمپنیاں بھی مطالبہ کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں الگ الگ مقصد پر کام کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں، وہ اپنے میدان کار کے زمینی حقائق کا مطالعہ اور مشاہدہ کرکے حکومت کو آگاہ کرتی ہیں اور حکومت سے اس سلسلے میں مناسب قانون بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جیسے بچوں کی شادی ہو یا ان سے مزدوری کرانا۔ اس طرح کے معاملات کی روک تھام کے لیے جو تنظیمیں کام کرتی ہیں وہ حکومت کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتی ہیں۔ اگر قانون بنا ہوا ہو تو نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں، اور اگر قانون نہ بنا ہو تو بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
یہ صرف دو مثالیں تھیں۔ اس طرح کے دیگر معاملات بھی ہیں ۔ خاص طور سے ایسے معاملات جن میں معاشرہ کے کسی فرد یا جماعت پر ظلم ہورہا ہو، تو اس کی خبر حکومت کو دیتی ہیں۔ انہی میں سے مسلمانوں کے ’’تین طلاق‘‘ کا مسئلہ بھی ہے۔ طلاق اور طریقۂ طلاق سے ناواقف لوگ ایک بار میں ہی تین طلاق دے دیتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق دینے سے ہی طلاق پڑتی ہے، ایک طلاق دینے سے نہیں۔ یا یہ سمجھتے ہیں کہ ایک طلاق دینے سے وہ مکمل طور سےاس کے نکاح سے نہیں نکلے گی، حالانکہ شوہر اسی وقت اپنی بیوی سے مکمل طور سے چھٹکارا چاہتا ہے اس لیے تین طلاق دے دیتا ہے۔
اس کے بعد جب اسے ہوش آتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ اب بیوی اس کے نکاح میں نہیں رہی۔ واپسی کی ایک ہی صورت ہے کہ ’’حلالہ‘‘ کرلیا جائے۔ اور حلالہ، معاشرے میں غلط طریقے سے ہی مشہور ہے، اور اسی طریقے پر عمل بھی ہوتا ہے۔
صورت یہ رہتی ہے کہ طلاق کے بعد شوہر بھی رکھنا چاہتا ہے، اور بیوی بھی رہنا چاہتی ہے۔ لیکن دوبارہ ساتھ رہنے کی ایک ہی شکل نکل پاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اسے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے اس کے ساتھ سونا پڑتا ہے۔ (عرف میں جیسے رائج ہے ، میں اسی طرح لکھ رہا ہوں۔) گویا مرد کی غلطی کی سزا عورت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سزا اس لیے ہے کہ وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے، اس شوہر سے اس کے بال بچے ہوتے ہیں۔ محض اپنے کو پہلے شوہر کے واسطے حلال کرنے کے لیے دوسرے شوہر کے پاس سوتی ہے۔
اگر طلاق کے بعد پہلے شوہر سے بالکل ہی تعلق ختم ہوجائے اور عورت دوسرے مرد سے نکاح کرلے تو یہ سزا نہیں بلکہ ایک نعمت ہے، اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے نئی شروعات کی ہے۔ مگر یہاں تو جس طرح عورت جانتی ہے کہ اسے نئے شوہر کے پاس ایک رات سونا ہے اسی طرح نیا شوہر بھی جانتا ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی صرف ایک رات کے لیے بنی ہے، بلکہ سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے۔ اور یوں ایک شرعی اور جائز مسئلہ کو بگاڑ کر بھونڈا اور بد صورت بنادیا جاتا ہے۔
ظاہراً اور شکلاً یہ عورت پر ایک طرح کا ظلم ہے؛ لہٰذا ان غیر سرکاری تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر قانون بنائے، اور لیجیے قانون بن کر تیار ہے۔
اس لمبی چوڑی تحریر کا مقصد صرف پس منظر دکھانا تھا کہ قانون عام طور سے کیسے بنتا ہے، اور اس کے بعد یہ کہنا ہے کہ مسلم عوام اور خاص طور سے مسلم پرسنل لاء کے سارے افراد غور کریں کہ مسلم معاشرہ میں کہاں کوئی خرابی ہے؟ کہاں کسی پر ظلم ہورہا ہے؟ اس ظلم کے خاتمے کے لیے خود ہی حکومت سے مطالبہ کرے اور حکومت سے اس سلسلے میں بہتر قانون بنانے کو کہے اور قانون اس طرح بنوائے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔
مثال کے طور پر وراثت کا قانون ہے۔ اور ہم سب کو پتہ ہے کہ کتنے فیصد مسلمان وراثت صحیح طریقے سے تقسیم کرتے ہیں۔ وارثین کو اس کا حق نہ دینا ایک طرح کا ظلم ہے، اور ہم اس ظلم کے خلاف حکومت سے مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی نگرانی میں اسلامی طریقے سے وراثت تقسیم کرائے۔
اس سلسلے میں ہم یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ پورے ہندوستان میں یا صرف مسلمانوں میں کسی فرد کا انتقال ہو تو اس کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ بنوائے، اور اس میں دکھائے کہ مرنے والے کی ملکیت میں کیا کیا سامان تھے؟ یعنی اس نے وراثت میں کیا کچھ چھوڑا ہے؟ یہ قانون صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان والوں کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔ ڈیتھ سرٹیفیکٹ بنوانے کے لیے مناسب مہلت بھی دے۔ اور جب ڈیتھ سرٹیفیکٹ بناتے وقت حکومت کو یہ معلوم ہوجائے کہ مورث نے کتنا مال چھوڑا ہے، تو اس کے بعد اس مال کو ورثہ کے درمیان اسلامی طریقے سے، اور اگر فریقین مسلمان نہ ہو تو ان کے لیے جیسا قانون ہو اس طریقے سے تقسیم کردیا جائے، اور وارثین کو قبضہ دلادیا جائے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے معاشرتی مسائل ہوسکتے ہیں، جن پر اچھے طریقے سے عمل نہ ہونے کی وجہ سے کسی فرد پر ظلم ہورہا ہو تو اس سلسلے میں حکومت سے قانون بنانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
تفویض طلاق کے سلسلے میں بھی ہم مطالبہ کرسکتے ہیں کہ حکومت صرف انہی نکاحوں کو قانونی طور سے تسلیم کرے، جن میں عورتوں کو ایک طلاق تفویض کی گئی ہو۔ یا یہ قانون بنادے کہ جو بھی نکاح نامہ بنائے جیسے مسجد کمیٹی یا کوئی تنظیم، اس میں تفویض نامہ بھی ضروری ہو، تب ہی حکومت اس نکاح کو قانونی طور سے تسلیم کرے گی۔ یا پھر حکومت فسخ نکاح کی کوئی ایسی صورت نکالے جو شریعت کے مطابق قابل تسلیم ہو۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سے مشورہ لے سکتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیگر تنظیمیں یہ مطالبہ شروع کردیں کہ عورتوں کو بھی طلاق کا حق ملنا چاہیے؛ اس لیے کہ بعض اوقات عورت اتنی مجبور اور مظلوم ہوجاتی ہے کہ طلاق لینے کے سوا اس کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا ہے، اور طلاق کا مکمل اختیار مرد کے پاس ہونے کی وجہ سے عورت آسانی سے علاحدہ نہیں ہوسکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جب بھی معاشرہ میں کسی فرد پر ظلم ہورہا ہو اور بطور خاص وہ کسی شرعی حکم پر اچھے طریقے سے عمل نہ کرنے کی وجہ سے تو اس سے پہلے کہ کوئی دوسری تنظیم اس سلسلے میں قانون بنانے کا مطالبہ کرے، خود مسلم پرسنل لاء اس پر قانون سازی کا مطالبہ کرے۔
نوٹ:
- اپنی رائے تبصرہ کرکے ضرور بتائیں
- اس ویب سائٹ میں مضمون شائع کرانے کے لیے اسے پڑھیں
صورت یہ رہتی ہے کہ طلاق کے بعد شوہر بھی رکھنا چاہتا ہے، اور بیوی بھی رہنا چاہتی ہے۔ لیکن دوبارہ ساتھ رہنے کی ایک ہی شکل نکل پاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اسے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے اس کے ساتھ سونا پڑتا ہے۔ (عرف میں جیسے رائج ہے ، میں اسی طرح لکھ رہا ہوں۔) گویا مرد کی غلطی کی سزا عورت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سزا اس لیے ہے کہ وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے، اس شوہر سے اس کے بال بچے ہوتے ہیں۔ محض اپنے کو پہلے شوہر کے واسطے حلال کرنے کے لیے دوسرے شوہر کے پاس سوتی ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ اگر شرعی حکم اور یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ اسکی بیوی (جو کہ ایک نعمت تھی ) طریقہ طلاق کے غلط استعمال کی وجہ سے اسے چھن گئی (بالتفصیل ) تو اور بہتر ہوتا ۔فقظ
ہاں ان شاء اللہ
اگر آپ کے پاس اس سلسلے میں کوئی مضمون ہو تو ارسال کردیں تاکہ جلد اسے اس مضمون میں شامل کرلیا جائے۔
ورنہ "بالتفصیل” میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے۔