حلال روزی کمانا فرض ہے | اردو تقریر برائے جمعہ

خطاب جمعہ برائے 23 دسمبر 2022ء (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)

حلال روزی کمانا فرض ہے

الحمد للّٰه رب العالمين و الصلوٰة و السلام علٰى رسوله الكريم أما بعد! قال اللّٰه تعالٰى في القرآن المجيد، أعوذ باللّٰه من الشيطان الرجيم، وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ، لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَ سْئَلُوْا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً۔ (النسا: ۳۲)

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

اللہ جو خالق اور مالک اور رازق ہے، اس نے ہر جاندار کی رزق رسانی کا انتظام کیا ہے، انسان کو بھی روزی وہی دیتا ہے، رزق میں کمی اور اضافہ اسی کے حکم سے ہوتا ہے، مگر اس نے انسان کو رزق حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت اور دوڑ دھوپ کا بھی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر آباد کیا ہے اور اس کی ضرورت کی ہر چیز زمین سے وابستہ کر دی ہے، انسان یہاں جتنی محنت کرے گا اتنا ہی اسے مال اور سامان رزق مہیا ہو گا۔ غلہ، اناج، پھل، پھول، معدنیات، سونا، چاندی، سب کچھ زمین سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے زراعت، تجارت، ملازمت، اجرت، صنعت، حرفت وغیرہ کا سہارا لینا ضروری ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُوْلاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ وَ إِلَيْهِ النُّشُور (الملک: ۱۵) ’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کے سینہ پر اور کھاؤ خدا کا رزق۔ اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے۔‘‘

جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنی معرفت اور عبادت فرض کی ہے اسی طرح اس نے اس پر حلال روزی کمانا بھی فرض قرار دیا ہے، چنانچہ نماز جمعہ کی فرضیت کو ادا کرنے کے بعد کسب معاش میں لگ جانے کا حکم اس طرح دیا ہے: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِيْ الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (الجمعة: ١٠) ’’پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔‘‘

رزق حاصل کرنے کے لیے ہر انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے اور کرنی چاہیے، اللہ نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو بھی حلال روزی کمانے کا حکم دیا تھا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحاً، إِنِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيمٌ۔ (المومنون -۵۱) ’’اے پیغمبرو! کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں۔‘‘

چنانچہ تمام انبیاء کرام دین کی دعوت کا کام انجام دیتے اور لوگوں سے اس کام پر کوئی اجرت اور چندہ وصول نہیں کرتے بلکہ خود اپنی محنت و مشقت سے رزق حاصل کرتے۔ حدیث کی کتابوں میں انبیاء کے مختلف پیشوں اور محنتوں کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت مقدام بن معدیکرب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ما أكل احد طعاماً ما قط خيراً من أن ياكل من عمل يديه و أن نبي الله داؤد كان يأكل من عمل يديه۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرجل و عمله بیده)

’’کوئی شخص اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی روزی نہیں کھاتا اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کماکر کھاتے تھے۔‘‘

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی تجارت کرتے تھے اور اپنی روزی آپ کماتے تھے۔ نبوت سے پہلے آپ تجارتی سفر پر جایا کرتے تھے، یہ سب کو معلوم ہے۔ نبوت کے بعد بھی آپ تجارت کے لیے خود تو سفر نہیں کرتے تھے مگر تجارت میں حصہ لیتے تھے، اگر آپ چاہتے تو مسلمانوں کی زکوٰۃ و صدقات قبول کر سکتے تھے اور لوگ اپنی زکوٰۃ صدقات آپ کے پاس لاکر ڈھیر لگا دیتے، مگر آپ نے نہ صرف اپنے اوپر بلکہ اپنے خاندان کے ہر فرد پر زکوٰۃ و صدقات کا مال لینے پر پابندی عائد کرلی تھی۔

جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو حلال روزی کمانے کا حکم دیا تھا اسی طرح عام بندوں کو بھی حلال روزی کمانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلاَلاً طَيِّباً، وَ اتَّقُوْا اللّٰهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۔ (المائده – ۸۸) ’’جو کچھ حلال و طیب رزق سے اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن زبیر بن العوام روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا: لأن يأخذ أحدُكم حبلَه فياتي بحزمة حطب على ظهره فيبيعها فيكُفَّ الله بها وجهه خيرٌ له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه۔ (بخاری، کتاب الزكوٰة، باب الاستعفاف عن المسألة) ’’تم میں سے کوئی شخص کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر گٹھر اپنی پیٹھ پر اٹھاکر لائے اور اسے فروخت کرے، اس کے ذریعہ اللہ اس کے چہرہ کی حفاظت کرے یہ اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگے اور لوگ اسے دیں یا منع کردیں۔‘‘

حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی محتاجی کی شکایت کرنے لگے۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ایک کمبل ہے جسے ہم اوڑھتے ہیں اور بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ دونوں چیزیں لے کر آؤ، وہ صحابی جب کمبل اور پیالہ لے کر آئے تو آپ نے حاضرین مجلس سے فرمایا کون اسے خریدے گا؟ ایک صحابی نے ایک درہم میں خریدنے کی پیش کش کی تو آپ نے فرمایا دو یا تین درہم میں کون خریدے گا؟ ایک دوسرے صحابیؓ نے دو درہم میں اسے خرید لیا، رسول پاک نے وہ دو درہم اس انصاری کے حوالہ کردیا اور فرمایا کہ ایک درہم میں کھانے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دو اور دوسرے درہم کی ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ، صحابی نے حکم کی تعمیل کی، ایک درہم میں کھانے کا سامان خریدا اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر حضور ﷺ کے پاس لائے۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں ہتھہ لگا دیا اور فرمایا جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور اسے فروخت کرو پھر پندرہ دنوں کے بعد میرے پاس آؤ۔ وہ صحابی گئے اور لکڑیاں کاٹ کر بیچنے لگے جب پندرہ دنوں بعد واپس آئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے، آپ نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا اس طرح کما کر کھانا تمھارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم لوگوں سے مانگتے پھرو اور قیامت کے دن تمہارا چہرہ داغدار ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوۃ، باب ما تجوز فيه المسألة)

مکہ سے ہجرت کرکے جو لوگ مدینہ آئے ان میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر مہاجر کو کسی انصاری کا بھائی بناکر ان کے حوالہ کردیا تھا تاکہ وہ ان کے قیام و طعام میں مدد کریں، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو حضرت سعد بن ربیع کا بھائی بنایا اور انھوں نے کمال اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا باغ آدھا بانٹ کر حضرت عبد الرحمٰن کو پیش کردیا مگر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ان کا مال شکریہ کے ساتھ ان کو واپس کردیا اور کہا کہ آپ مجھے بازار دکھا دیجیے، چنانچہ وہ بازار گئے اور وہاں گھی اور چمڑے کی خرید و فروخت کرنے لگے۔ مفت مال قبول کرنے پر تجارت کرنے کو اور اپنے ہاتھ سے کماکر کھانے کو ترجیح دی۔ رفتہ رفتہ ان کا کاروبار بڑھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ مدینہ کے بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہونے لگا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جہاد کے موقع پر ہزاروں دینار اور قحط وغیرہ کے موقع پر سینکڑوں لدے ہوئے اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے لگے، یہ برکت اس تجارت کی تھی جسے انھوں نے اختیار کیا تھا۔ اسلام نے ہاتھ سے کمانے کی ہمت افزائی کی ہے اور ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيمة و ليس في وجهه مزغة لحم۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب من سأل الناس تکثرا) ’’تم میں سے جو کوئی مانگنے کی عادت ڈالتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہیں ہو گا۔‘‘

نبی پاک ﷺ نے قبیصہ بن المخارقؓ سے فرمایا کہ ہاتھ پھیلانا تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے:

ایک وہ آدمی جو کسی ضمانت یا قرض میں مبتلا ہو اس کے لیے مانگنا اس وقت تک جائز ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔

دوسرا وہ آدمی جو کسی آفت میں مبتلا ہو اور اس کا مال برباد ہو گیا ہو اس کے لیے اس وقت مانگنا جائز ہے جب تک کہ اس کی حالت بحال نہ ہو جائے۔

تیسرا وہ آدمی جس کے گھر میں فاقہ ہو اور تین لوگ یہ کہدیں کہ اس کے یہاں فاقہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کے لیے مانگنا حرام ہے۔ (مسلم، كتاب الزكوٰة، باب من تحل له المسئلة)

جس طرح اسلام نے ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی ہے اسی طرح غلط طریقہ سے مال کمانے کو حرام قرار دیا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَا تَأْكُلُوْا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ۔ (البقره: ۱۸۸) ’’اور تم ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔‘‘

باطل طریقے سے مال کھانے کا مطلب ناجائز اور حرام آمدنی ہے، مثلاً چوری اور ڈاکہ زنی کے ذریعہ مال کمانا، سود اور جوا کے ذریعہ مال کمانا، دھوکہ دہی اور ملاوٹ کے ذریعہ مال کمانا، ناپ تول میں کمی کرنا، غبن اور رشوت کے ذریعہ مال کمانا، خیانت اور بدعہدی کے ذریعہ مال کمانا، بدکاری اور شراب فروشی کے ذریعہ اور حرام مال کی تجارت کے ذریعہ مال کمانا وغیرہ ایسی تمام آمدنی کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، ایسی کمائی میں نہ تو خیر و برکت ہے اور نہ ہی ایسے شخص کی عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ ایسا شخص جنت میں جانے کا حق دار ہے۔

مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیکار نہ بیٹھے، رزق حاصل کرنے کا حلال ذریعہ تلاش کرے، کام خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، پیشہ چاہے کم تر ہو یا برتر، بشرطیکہ وہ حلال ہو اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے، یہ خود ایک عبادت ہے۔

شرم کی بات تو یہ ہے کہ انسان حرام طریقہ سے مال کمائے اور اس سے اپنی اور اپنی اولاد کی پرورش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حلال رزق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری عبادت کو قبول فرمائے۔ (آمین)

و اٰخر دعوانا أن الحمد للّٰهِ رب العالمین

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

ہر ہفتہ خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نمبر پر اپنا نام اور پتہ ارسال کریں

9834397200


مفید لنکس:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے