Keywords
معاملات کی صفائی پر تقریر و مضمون، maamlaat par taqreer o mazmoon Urdu، معاملات کی صفائی پر تقریر، معاملات کی صفائی پر مضمون، حقوق العباد اور اسوۂ نبوی، اس امت کا مفلس کون؟ زمین غصب کرنے کا گناہ، خیانت کا انجام، حضرت ابوبکر صدیقؒ اور معاملات کی صفائی، حضرت عمرؒ کی آخری خواہش، مشتبہ مال سے بچنے کی برکت، نیکی اور پرہیزگاری کا انعام، خطاب برائے جمعہ شائع کردہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، maamlaat ki safai par mazmoon in Urdu, maamlaat ki safai essay in Urdu, Urdu speech on maamlaat ki safai, juma Urdu speech, maamlaat ki safai speech in Urdu
خطاب جمعہ برائے ۲۵ نومبر ۲۰۲۲ء (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)
معاملات کی صفائی
الحمدُ لِلّٰهِ ربِّ العالَمين و به نَستعين و الصلوةُ و السلامُ علٰى سيدِنا محمدٍ شمسِ الهدايةِ و اليقين و علىٰ آلِهٖ و صحبِهٖ أجمعین أمَّا بعد فأعوذ بالله من الشيطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (سورة الأحزاب: ۲۱) صدق اللهُ العظیم
حقوق العباد اور اسوۂ نبوی
حضور ﷺ کی عمر مبارک جب ۶۳ سال ہو گئی تو اللہ کی طرف سے آپ کو اپنے دربار میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا، صفر کا مہینہ تھا جب آپ بیمار ہوئے، بیماری دن بدن بڑھتی چلی گئی، حضور ﷺ بخار کی شدت کی وجہ سے اتنے کمزور ہو گئے کہ بغیر سہارے کے مسجد میں تشریف نہیں لا پاتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ آپ کو دو صحابہ سہارا دے کر لاتے تھے۔ بیماری کے آخری دنوں میں آپ ﷺ دو صحابہ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے۔ سر میں درد کی اتنی شدت تھی کہ سر پر ایک پٹی بندھی ہوئی تھی، اس روز آپ نے مختصر خطبہ دیا اور کہا کہ اب دنیا سے میرے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے۔ تم میں سے اگر میرے اوپر کسی کا کوئی حق ہو یا میری ذات سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ آکر مجھ سے بدلہ لے لے، آخرت کے لیے اسے بچا کر نہ رکھے۔
آپ سوچیے کہ جس ذات نے ساری زندگی نہ کسی کو تکلیف دی نہ کبھی کسی سے بدلہ لیا، آج وہی عظیم ذات یہ کہہ رہی ہے کہ اگر کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ آ کر مجھ سے بدلہ لے لے۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے ایسی مبارک زندگی گزاری تھی کہ آپ کے ذمہ کسی کا کوئی حق باقی رہنے کا سوال ہی نہیں تھا، آپ تو خود لوگوں کو نوازتے تھے اور ان کی ضروریات پوری کرتے تھے، اس کے باوجود آپ نے یہ اعلان فرمایا، اس اعلان کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ ﷺ کا وصال ہو گیا۔
وارثین کے لیے اہل بیت کا عملی نمونہ
عظیم مورخ اور سیرت نگار ابن سعد نے اپنی مشہور کتاب ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (یہ کتاب بعد میں انگلینڈ سے شائع ہوئی) میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے یہ اعلان کیا کہ اگر حضور ﷺ پر کسی کا کوئی حق ہو تو وہ مجھ سے آکر لے جائے، پھر حضرت علی نے یہ اعلان کروایا کہ اگر کسی کا کوئی حق حضور ﷺ پر ہو تو وہ مجھ سے آکر لے جائے، چنانچہ ہر سال حج کے موقع پر جمرۂ عقبیٰ پر ایک منادی اعلان کرتا کہ حضور ﷺ پر جس کا کوئی حق باقی ہو وہ حضرت علی سے وصول کرلے۔ ساری زندگی حضرت علیؓ یہ اعلان کرواتے رہے، پھر آپ کے بعد حضرت حسن، اور حضرت حسین نے یہ کام کیا۔ حضور ﷺ کے وصال کے تقریباً چالیس سال بعد تک خاندان نبوت کے افراد یہ اعلان کرتے رہے۔ آپ سوچیے کہ حقوق کی ادائیگی کا ایسا نمونہ اور کہیں مل سکتا ہے؟ آپ تصور کیجیے کہ معاملات کی صفائی کا اس سے بڑھ کر اہتمام کیا ہوگا؟ ایک تو خود آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں معاملات کو صاف رکھا، اور زندگی کے آخر میں اعلان فرمایا، پھر آپ کے بعد آپ کے اہل بیت ایک طویل مدت تک یہی اعلان کرتے رہے۔ طبقات کبری میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹا دعویٰ لے کر آتا تب بھی اہل بیت کی طرف سے مطلوبہ رقم ادا کردی جاتی۔
اس امت کا مفلس کون؟
قرآن کریم میں ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ کَثِیْرًا. (سورۃ الأحزاب) رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔ یہ نمونہ صرف نماز روزے اور حج میں نہیں بلکہ معاملات کی صفائی میں بھی ہے، ہم غور کریں کہ معاملات کو درست رکھنے کا ہمیں کتنا خیال ہے؟ آپ ﷺ نے عبادات سے زیادہ معاملات کی صفائی کو اہمیت دی اور یہاں تک فرمایا کہ عبادات کی کمی کوتاہی کو اللہ اگر چاہے گا تو معاف کردے گا؛ لیکن معاملات کی کوتاہی اس وقت تک معاف نہیں ہوگی، جب تک کہ حق والا معاف نہ کردے۔ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ کوئی ساز و سامان۔ آپ نے فرمایا میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا؛ لیکن دنیا میں اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، اورکسی کو مارا ہوگا۔ تو اس کے ظلم کے بقدر نیکیاں مظلوم کو دلا دی جائیں گی، پھر جب نیکیوں سے بھی ہاتھ خالی ہو جائے گا تو مظلوم کے گناہ اس (ظالم) پر لاد دیے جائیں گے، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا، (اور اس طرح انصاف کا تقاضا پورا کیا جائے گا۔) (صحیح مسلم)
زمین غصب کرنے کا گناہ
معاملات کی صفائی ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے، ہم غور کریں ہمارے اوپر کسی کا قرض تو نہیں، ہم پر کسی کا کوئی حق باقی تو نہیں، ہمارے ذریعے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے، ہماری عادتوں کی وجہ سے کسی کا دل تو نہیں دکھ رہا ہے، ہم کسی کی زمین پر ناجائز طریقے سے قابض تو نہیں ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی نے کسی انسان کا ایک درہم ناجائز طریقے پر لے لیا تو کل قیامت کے دن اس کے بدلے میں سات سو مقبول نمازیں دینی ہوں گی اور اگر کسی کی ایک بالشت زمین دبا لی تو ساتوں زمینوں کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔
خیانت کا انجام
حضور ﷺ ایک سفر میں تھے، ایک شخص آپ کے ساتھ تھے، وہ سفر میں آپ کی خدمت کیا کرتے تھے، جب آپ ﷺ اونٹ پر چڑھتے تو وہ سہارا دیتے تھے، آپ ﷺ دشمنوں سے مقابلے کے لیے جارہے تھے، کسی دشمن نے تاک کر تیر چلایا، جو ان کی گردن میں آکر لگا، اور ان کا انتقال ہو گیا، صحابہ نے کہا کہ اس شخص کو کتنی بڑی سعادت نصیب ہوئی اور شہادت کا بلند مقام ملا آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا: ایسا مت کہو، اس لیے کہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر بغیر اجازت کے رکھ لی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے کہا کہ کوئی شخص اگر شہید ہو گیا لیکن اس نے ناجائز طریقے پر مال غنیمت سے کوئی چیز لے لی ہو تو قیامت کے دن وہ چیز لائی جائے گی، اور اس سے کہا جائے گا کہ چوں کہ تو شہید ہے اس لیے تیرا ٹھکانہ جنت ہے لیکن تو نے یہ چیز بغیر اجازت کے مال غنیمت میں سے لے لی تھی، اس لیے یہ چیز دوزخ میں پھینک دی جاتی ہے، اب تو اس کو دوزخ سے لے کر آ اور جنت میں چلا جا، وہ شخص جہنم کی تہ میں جاکر وہ چیز اٹھاکر لائے گا لیکن جب جہنم کے منہ پر پہنچے گا تو وہ چیز اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر جہنم میں گر جائے گی، پھر وہ اس کو لینے کے لیے جہنم میں جائے گا، اور جب جہنم کے منہ پر پہنچے گا تو وہ چیز اس کے ہاتھ سے دوبارہ چھوٹ کر پھر جہنم میں گر جائے گی۔ آپ تصور کیجیے کہ ایک آدمی شہید ہو گیا لیکن اس کے اوپر کسی کا کوئی حق باقی ہے تو اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے بارے میں یہ بات ارشاد فرمائی۔
قرآن کریم میں ہے: وَ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ، وَمَنْ يَّغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيٰمَة۔ ’’اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ لے آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی۔‘‘ (آل عمران: ۱۶۱) آپ ﷺ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جس نے ایک اونٹ خیانت کے طور پر رکھ لیا ہو، وہ اس حال میں آئے گا کہ وہ اونٹ اس کی پیٹھ پر سوار ہوگا، اور چیخ رہا ہوگا، کسی شخص نے خیانت کے طور پر کوئی بکری اپنے پاس رکھ لی ہوگی تو وہ بکری اس کے اوپر سوار ہوگی اور چلا رہی ہوگی، سارے لوگ اسے دیکھیں گے اور کہیں گے کہ اس شخص نے دنیا میں اس چیز میں خیانت کی تھی۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ میرے پاس آکر کہے گا: اے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے اور میری سفارش کر دیجیے تو میں اس سے کہوں گا کہ میں ہرگز تیری سفارش نہیں کروں گا، اس لیے کہ دنیا میں میں نے تجھ کو بتادیا تھا کہ یہ برا کام ہے۔
ہم بھی کوشش کریں کہ کوئی ایک چیز بھی ایسی نہ ہو جو ہمارے ذمہ باقی رہ جائے۔ اگر کسی کا کوئی حق ہمارے ذمہ باقی ہو تو ہم اسے ادا کریں یا اس حق والے سے مل کر معاف کروالیں، جاکر کہہ دیں کہ غلطی سے آپ کی یہ چیز میرے پاس رہ گئی تھی، آپ اسے واپس رکھ لیں، یاد رکھیے دنیا کی یہ شرمندگی اور ذلت آخرت کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور معاملات کی صفائی
صحابہ کی جماعت میں سب سے اونچے درجے پر حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں، ان کے بے شمار فضائل ہیں۔ جب ان کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو معیقیب دوسی رضی اللہ عنہ (جو ان کے گھر کا سودا سلف لاتے تھے) سے کہا کہ اب میرے دنیا سے جانے کا وقت ہو گیا ہے، میرے ذمے تمہارا کوئی حق باقی تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے سارا حق چکا دیا ہے، سوائے ایک درہم کے، اسے میں اللہ کے لیے چھوڑتا ہوں، حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مجھ سے وہ بھی لے لو، میں اپنے آخرت کے توشے کو قرض کے بوجھ سے بوجھل نہیں کرنا چاہتا، پھر آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ان کا قرض ادا کردیا جائے۔ پھر حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ تین کپڑوں میں۔ آپ نے کہا کہ دو چادریں میرے جسم پر ہیں بازار سے ایک اور چادر منگوا کر مجھے کفن دے دینا۔ حضرت عائشہؓ رونے لگیں اور کہا ابا جان! ہم تین نئی چادریں بازار سے منگوا سکتے ہیں، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نیا کپڑا زندوں کو زیب دیتا ہے، قبر کی مٹی اور کیڑے مکوڑوں کے لیے پرانا کپڑا ہی زیادہ بہتر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آخری خواہش
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، اسی وقت ایک ظالم انسان ابولولو فیروز مجوسی نے آپ رضی اللہ عنہ پر خنجر سے وار کیا اور چھ زخم لگائے۔ حضرت عمرؓ مصلے پر گر پڑے اور خون بہنا شروع ہو گیا۔ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا تاکہ وہ نماز مکمل کریں۔ نماز کے بعد آپ کو گھر لے جایا گیا۔ آپ کا پیٹ پھٹ چکا تھا، کوئی بھی چیز آپ کو کھلائی جاتی تو وہ باہر نکل جاتی تھی۔ لوگوں نے بھی اندازہ کرلیا تھا کہ اب حضرت عمرؓ جانبر نہ ہو سکیں گے۔ پھر آپ نے وصیت فرمائی کہ مجھے حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر کے ساتھ دفن کرنا؛ لیکن اس سے پہلے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ سے کہا: پہلے جاکر حضرت عائشہؓ سے اجازت طلب کرو کہ میری زندگی کی آخری خواہش ہے کہ میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جاؤں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حضرت عائشہؓ سے اجازت طلب کی اور کہا کہ وہ آپ کا حجرہ ہے، اگر آپ اجازت دیں تو حضرت عمرؓ کو اس جگہ دفن کیا جائے ورنہ مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کیا جائے۔ حضرت عائشہؓ (جو حضرت عمر پر حملے کی خبر سن کر رو رہی تھیں) نے فرمایا: یہ جگہ میں نے اپنی قبر کے لیے رکھی تھی؛ لیکن حضرت عمر کی شان ایسی ہے کہ ان کی بات ٹالی نہیں جاسکتی۔ اس لیے میں انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ حضرت عبداللہ نے آکر اجازت کی خبر دی تو حضرت عمرؓ نے بڑی باریک بات ارشاد فرمائی، کہا: بیٹا ممکن ہے کہ میرے اثر و رسوخ کی وجہ سے دباؤ میں آکر حضرت عائشہؓ نے اجازت دی ہو، اس لیے میرے انتقال کے بعد دوبارہ اجازت طلب کرکے مجھے وہاں دفنانا، ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں میری تدفین کرنا۔
اسے کہتے ہیں حسن معاشرت، اور ایسا ہونا چاہیے حقوق کی ادائیگی کا مزاج! مرتے دم تک کوشش ہو کہ کسی حقدار کا حق ضائع نہ ہو اورکسی کے اوپر کسی طرح کا ظلم نہ ہو۔ آپ سوچیے کہ معاملات کی صفائی کا کیسا اہتمام ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کی جو تربیت فرمائی تھی یہ اس کا اثر تھا کہ صحابہ صرف عبادات میں ممتاز نہیں تھے، بلکہ معاملات کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔
ہمارا حال
آج ہم اپنی زندگی پر غور کریں کہ معاملات کی صفائی کے سلسلے میں ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں، ہم لوگ معاملات کو تو دین کا حصہ ہی نہیں سمجھتے، اچھے خاصے دیندار اور عبادت گزار لوگ معاملات کی صفائی کا خیال نہیں کرتے، دوسروں سے مال لے لیا جاتا ہے؛ لیکن واپس کرنے کی فکر نہیں کی جاتی۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو والد کے انتقال کے بعد اپنی بہنوں اور اپنے کمزور بھائیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور قیامت کے دن اس کی بہت بڑی سزا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر اللہ کے لیے ہم نے اپنا حق چھوڑ دیا یا کسی حقدار کو زیادہ دے دیا تو اللہ ہمیں محروم نہیں کرے گا، بلکہ اور زیادہ عطا کرے گا۔
مشتبہ مال سے بچنے کی برکت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے والد کا جب انتقال ہوا تو ان کے ترکہ میں کچھ ایسا مال بھی تھا جو مشکوک تھا، حضرت حکیم الامت نے اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو خط لکھا کہ حضرت میرے والد صاحب کی وراثت کا جو مال مجھ کو مل رہا ہے اس میں سے کچھ مال مجھے مشکوک معلوم ہوتا ہے، اب اگر میں اس مال کو لے لوں تو مشکوک مال لینا ہوگا، اور اگر چھوڑ دوں تو اندیشہ ہے کہ میں فقر و فاقے کا شکار ہو جاؤں گا۔ حضرت حاجی صاحب نے جواب دیا کہ جو مشکوک مال ہے تم اسے چھوڑ دو، اگر تم اللہ کے لیے اس مال کو چھوڑ دو گے تو اللہ کبھی بھی تمہیں فقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہونے دے گا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کہتے ہیں کہ میں نے وہ مال چھوڑ دیا اور پھر واقعی اس مال کو چھوڑ دینے اور حضرت کی توجہ کی برکت سے اللہ نے مجھے بہت نوازا۔ آج آپ دیکھ لیجیے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویَؒ ایک ہزار کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے خاندان کے جن افراد میں وراثت تقسیم کی گئی تھی آج آپ کو ان میں سے کسی کا نام معلوم نہیں ہوگا لیکن مولانا اشرف علی تھانویؒ کا نام پوری دنیا میں پہنچا۔ ان کی کتابیں دنیا بھر میں عام ہیں اور آج تک ان سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
نیکی اور پرہیزگاری کا انعام
خلفائے راشدین کے بعد جب بنوامیہ کا دور آیا تو ایک بہت بوڑھے شخص سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے جو سب سے حیرت انگیز چیز دیکھی ہو وہ بتائیے، اس نے کہا کہ میں نے کئی بادشاہوں کا دور دیکھا ہے، اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دور بھی دیکھا ہے۔ جب بنوامیہ کے بادشاہ ہشام بن عبدالملک کا انتقال ہوا تو اس کی وراثت میں اتنا مال تھا کہ اس کے ایک ایک بیٹے کو ایک ایک لاکھ دینار ملے۔ دینار سونے کا ہوتا ہے، آپ تصور کیجیے کہ کتنی دولت ہوگی۔ جب خلیفہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا انتقال ہوا، تو انہوں نے اپنے ترکے میں بارہ دینار چھوڑے، جس میں سے کچھ دینار کفن دفن میں خرچ ہوئے، جب ان کے بچوں میں ان کا ترکہ تقسیم کیا گیا تو ہر ایک کے حصے میں ۱۹ درہم آئے۔ درہم چاندی کا ہوتا ہے، جس کی قیمت دینار کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ اب وہ بوڑھا کہتا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہشام ابن عبدالملک کے بیٹوں کو لوگ صدقہ دیتے تھے، اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ایک ایک بیٹے ایک ایک دن میں سو سو گھوڑے اللہ کے راستے میں صدقہ کرتے تھے۔ نیکی اور برائی کا انجام یہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو بہت کم مال ملا اللہ نے ان کو برکت سے نوازا اور جن لوگوں کو ایک ایک لاکھ دینار ملا وہ فقیر و محتاج ہو گئے۔ یہ دراصل معاملات کی صفائی اور دینداری و پرہیزگاری کا نتیجہ تھا۔ اللہ رب العزت ہم سب کو معاملات کی صفائی کی توفیق عطا فرمائے۔
و آخِرُ دَعْوانا أنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ العالَمِيْن
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
ہر ہفتہ خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نمبر پر اپنا نام اور پتہ ارسال کریں