مالی معاملات میں اختلاف سے بچنے کا طریقہ، معاملات پر تقریر و مضمون

خطبہ جمعہ برائے ۲ دسمبر ۲۰۲۲ء (پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کریں)

بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

مالی معاملات میں اختلاف سے بچنے کا طریقہ

نَحْمَدُهٗ وَ نُصَلِّيْ عَلٰى رَسُوْلِه الْكَرِيْم، أمّا بعد! فأعوذ باللّٰه من الشيطان الرجيم بسم اللّٰه الرحمن الرحيم يٰٓأيُّها الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ إِلىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ. صدق الله العظيم.

دنیا میں بہت سی مخلوقات ایسی ہیں کہ وہ اپنے باقی رہنے میں اپنی ہم جنس کی محتاج نہیں ہیں، جیسے درخت ہے، درخت کو اپنے ہی جیسے درخت کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلند و بالا پہاڑ اپنے باقی رہنے میں دوسرے پہاڑ کے محتاج نہیں ہیں، لیکن جاندار اور خاص کر انسان اپنی زندگی میں اپنی ہم جنس مخلوق اور انسان کے محتاج ہیں، ماں باپ کا ’بڑھاپا‘ بال بچوں کے بغیر گزارے نہیں گذرتا۔ بچے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا کے بغیر بچپن سے جوانی تک کا سفر طے نہیں کر سکتے۔ ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد ہر شخص کو ایک رفیق کی ضرورت پیش آتی ہے، جو شوہر و بیوی کی شکل میں مہیا ہوتا ہے۔ یہ ضرورتیں تو چھوٹے سے خاندان سے متعلق ہیں، اس سے باہر نکلیے تو ضرورتوں کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے۔ تاجر و گاہک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور آجر و مزدور کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

سماج کے دو یا اس سے زیادہ افراد کے درمیان باہمی احتیاج و ضرورت کی بناء پر جو مالی تعلق قائم ہوتا ہے، اس کو فقہ و قانون کی زبان میں معاملہ کہتے ہیں۔ معاملات میں بعض دفعہ ادھار کی بھی نوبت آتی ہے اور مہلت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں خاص کر باہمی نزاع کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ عام طور پر معاملات میں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں، وہ بڑی شدت اختیار کر جاتے ہیں؛ اس لیے کہ مال کی حرص اور مال کے سلسلہ میں بخل انسانی فطرت میں داخل ہے۔ ایسے اختلافات محبت کے رشتوں کو کڑواہٹوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ کینۂ و کدورت کی آگ سینوں کو سلگاکر رکھ دیتی ہے؛ یہاں تک کہ لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں، اور قتل و قتال تک نوبت آجاتی ہے۔ یہ اختلاف عام طور پر دو اسباب کی وجہ سے رونما ہوتا ہے: ایک: بددیانتی، دوسرے: معاملات میں ابہام۔

بددیانتی اور خیانت کے واقعات تو دن رات پیش آتے رہتے ہیں؛ اس لیے کہ بددیانتی آج کی دنیا میں جرم کے بجائے آرٹ بن چکا ہے، اور بعض لوگ ایسی حرکتوں کو ہوش مندی اور عقل مندی باور کرتے ہیں؛ لیکن بہر حال جو لوگ دین و شریعت سے جڑے ہوئے ہیں، نماز و روزہ کے پابند ہیں اور اسلامی وضع قطع رکھتے ہیں، وہ بڑی حد تک اس سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؛ لیکن معاملات میں ابہام اور صفائی و وضاحت کا نہ ہونا ایسی بیماری ہے، جس میں یہ طبقہ بھی گرفتار رہتا ہے۔ قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر: ۲۸۲ ہے، جو آیت ’’مداینت‘‘ کہلاتی ہے۔ اس میں قرض کا ایک اہم حکم بتایا گیا ہے اور خاص طور پر ایسے معاملہ کو لکھ لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدّاء بن خالد بن ہوذہؓ کے پاس خرید و فروخت کی ایک دستاویز تھی، جو رسول اللہ ﷺ نے تحریر کرائی تھی، اس میں خریدار کی حیثیت سے عدّاءؓ کا نام تھا اور فروخت کنندہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺکا۔ (سنن الترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء في كتابة الشروط، حدیث نمبر :۱۲۶۰) اس سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت نقد ہو تب بھی لکھ لینا بہتر ہے۔

خرید و فروخت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت نقد ادا کردی جائے اور خریدی جانے والی شئے ادھار رکھی جائے، اس کو شریعت کی اصطلاح میں سَلَم کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں ایسی خرید و فروخت کا عام رواج تھا، آپ ﷺ نے اس کی اجازت دی؛ لیکن فرمایا که پیمانہ متعین ہونا چاہیے، وزن متعین ہونا چاہیے اور مدت متعین ہونی چاہیے: ’’مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، وَ وَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلٰى أَجَلٍ معلومٍ‘‘ (صحیح البخاری، کتاب السَلَم ، باب السلم فی وزن معلوم، حدیث نمبر: ۲۲۴۰) فقہاء نے اس سلسلہ میں مزید تفصیل کی ہے کہ چوں کہ شریعت کا منشاء نزاع کو روکنا اور جھگڑے کا سدّ باب کرنا ہے؛ اس لیے ان تمام چیزوں کا متعین اور واضح ہونا ضروری ہے، جن کے بارے میں آئندہ اختلاف پیدا ہو سکتا ہے، جو شے ادھار ہے، وہ بھی متعین ہو، جیسے چاول، گیہوں، پھر اس کی قسم بھی متعین ہو۔ جیسے چاول، گیہوں۔ پھر اس کی قسم بھی متعین ہو، جیسے باسمتی چاول۔ کوالیٹی اور کیفیت میں بھی ابہام نہ ہو جیسے اعلٰی درجه، درمیانی درجہ وغیرہ۔ سامان کی ڈیلیوری کی جگہ بھی مقرر ہو، مثلاً یہ چیز فلاں شہر میں مہیا کی جائے گی، وغیرہ۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے قرض و ادھار کی تمام صورتوں کے بارے میں اصولی بات فرمائی ہے کہ ادائیگی کی مدت واضح اور متعین ہونی چاہیے۔ کوئی شخص کہے کہ کھیت کی کٹائی یا فلاں شخص کے دینے تک کے لیے ادھار ہے، تو اس کا اعتبار نہیں؛ بلکہ مدت یا ادائیگی کا وقت کسی ابہام کے بغیر مقرر ہونا چاہئے۔ (اعلاء السنن: ۱۳۸۱/۱۴، به حواله: مُصَنَّف ابن ابی شیبہ)

آج کل دار الافتاء، دار القضاء اور محکمۂ شرعیہ وغیرہ میں متعدد ایسے معاملات آتے رہتے ہیں، جن میں آپسی جھگڑے کی بنیاد معاملات کا واضح نہ ہونا ہے۔ اس وقت اس کی چند صورتوں کا ذکر مناسب محسوس ہوتا ہے:

♦بعض اوقات والد ایک کاروبار شروع کرتے ہیں، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں، بچے جیسے جیسے بڑے ہوئے، ان میں سے بعض والد کے ساتھ کاروبار میں لگ جاتے ہیں، بعض ملک یا بیرون ملک میں اچھی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے لڑکے تو کاروبار میں شامل ہوگئے تاکہ تجارت کو فروغ دیں اور اس کی وجہ سے وہ آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکے، چھوٹے بھائیوں نے تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہوگئے، اب والد کے انتقال کے بعد جب ترکہ کی تقسیم کا مسئلہ آیا تو جس بھائی نے کاروبار میں تعاون کیا تھا، وہ چاہتا ہے کہ اس کو اس کی محنت کا معاوضہ ملے، اور چھوٹے بھائیوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ترکہ برابر تقسیم کیا جائے، بعض دفعہ اس میں ان بھائیوں کے ساتھ بظاہر ناانصافی ہوتی ہے، جنہوں نے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے خود الگ سے کوئی ملازمت نہیں کی یا اپنی تعلیم کو قربان کیا، بعض دفعہ اس کے برعکس صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ جو بھائی کاروبار میں شریک تھا، وہ پورے کاروبار پر قابض ہو جاتا ہے، اور دوسرے بھائی بہنوں کو بےدخل کردیتا ہے، اگر والدین بچوں کو کاروبار میں شریک کرتے ہوئے وضاحت کردیں کہ تمہاری حیثیت پارٹنر کی ہوگی اور تم اس میں اتنے فیصد کے مالک ہوگے، یا تمہاری حیثیت ملازم کی ہوگی اور تم ماہانہ اتنی تنخواہ کے مستحق ہوگے، یا تم میرے معاون و مددگار ہو، الگ سے تمہارا کوئی حصہ نہیں ہوگا، تو بعد کو چل کر اس طرح کا اختلاف پیدا نہیں ہو گا۔

♦عملی تعاون ہی کی طرح بعض دفعہ مالی تعاون میں بھی یہ صورت پیش آتی ہے، جیسے والد کی تجارت میں ان کے مطالبہ پر یا بلامطالبہ بعض بچوں نے مختلف موقعوں پر پیسے دیے، یہ سرمایہ کاروبار کا حصہ بن گیا؛ لیکن یہ بات متعین نہیں ہوئی کہ سرمایہ لگانے والوں کا کاروبار میں خصوصی شیئر ہوگا، یا ان کی یہ رقم قرض ہے جو بعد میں ادا کی جائے گی، یا اپنے والد کا تعاون ہے؟ یہ عدم وضاحت پھر بعد میں بڑے جھگڑے کا سبب بنتی ہے، جن لڑکوں نے رقم دی تھی وہ زائد حصہ چاہتے ہیں، اور دوسرے بھائی پورے کاروبار کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں۔

♦ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بھائی نے کاروبار شروع کیا، سب لوگ مل کر رہ رہے تھے، مختلف بھائیوں نے حسب گنجائش موقعہ بہ موقعہ کا روبار میں رقم لگائی، بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ جس بھائی نے کاروبار شروع کیا تھا، وہ سجھتا ہے کہ یہ پورا کارو بار تنہا اس کی ملکیت ہے، اور دوسرے بھائی اپنے حصہ کے دعویدار ہوتے ہیں، یہ بات اس وقت زیادہ پیش آتی ہے، جب والد کی زندگی میں اس نوعیت کا کاروبار شروع ہوا ہو، کبھی کبھار وہ بھی دوکان پر بیٹھ جاتے ہیں، یا تجارت شروع کرنے والے بچے نے اپنے والد کے نام سے تجارت شروع کی ، اگر شروع ہی میں یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ کاروبار مشترک ہے، یا جس بھائی نے شروع کیا ہے، اس کا ہے اور جن دوسرے بھائیوں نے کچھ پیسے لگائے ہیں یا محنت کی ہے، وہ تعاون ہے یا قرض ہے یا شرکت ہے؟ اور اگر اسی کاروبار سے گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں تو یہ بطور شرکت کے ہے، یا جس کا کاروبار ہے اس کی طرف سے تبرع و احسان ہے؟ تو بعد میں اختلاف پیدا نہ ہو۔

♦اسی طرح کی صورت حال بعض دفعہ اراضی کی خریداری میں پیش آتی ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لڑکے بیرون ملک ملازمت کر رہے ہوتے ہیں، وہ زمین یا مکان کی خریداری کے لیے رقم بھیجتے ہیں، اب والد نے اس رقم سے اپنے نام مکان یا زمین خرید لی، یا اپنے کسی ایسے لڑکے کے نام خریدی جو ہندوستان میں ہے؛ حالاںکہ پیسے بھیجنے والے کا مقصد اس کے لیے جائداد خریدنا ہے اور والد کی بھی یہی نیت ہے، بھائیوں کو معلوم ہے؛ لیکن جب والد کا انتقال ہوا تو نیت بدل گئی اور اصل صاحب حق کا نقصان ہو گیا؛ اس لیے اول تو خود رقم بھیجنے والے لڑکے کو چاہیے کہ اپنے والد پر اس بات کو واضح کردے کہ اس کی نیت خود اپنے لیے زمین خریدنے کی ہے اور والد کو بھی چاہیے کہ اس کی نیت دریافت کرکے اس کے نام سے زمین خریدے، اور اگر اس میں کوئی قانونی دقت ہو تو اپنے نام سے خرید کر اس لڑکے کے نام ہبہ نامہ بنادے، یا اس کو پاور آف اٹارنی دے دے، یا کم سے کم اپنا یہ اقرارنامہ رجسٹرڈ کرادے که یہ زمین حقیقت میں میرے فلاں لڑکے کی ملکیت ہے، میں اس کا مالک نہیں ہوں اور میرے دوسرے ورثہ کا بھی اس سے حق متعلق نہیں ہے۔

♦اسی طرح کا اختلاف بعض اوقات مکان کی تعمیر میں بھی پیدا ہوتا ہے، جیسے والد نے مکان کی تعمیر شروع کی اور بعض لڑکوں نے اس میں پیسے دیے؛ لیکن ان کا پیسہ دینا کس حیثیت سے ہے؟ یہ واضح نہیں ہوتا، بعد میں پیسہ دینے والے لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس مکان میں اس کا خصوصی شیئر ہو اور دوسرے لڑکے پورے مکان کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں، یہی صورت حال اس وقت بھی پیش آتی ہے جب اتفاق و اتحاد کے ماحول میں کوئی بھائی مکان کی تعمیر شروع کرتا ہے، اب کئی بھائیوں میں سے ایک دو کچھ پیسے لگا دیتے ہیں، کوئی اپنا وقت دے دیتا ہے، اور یہ بات طے نہیں ہوتی کہ اس مالی اور عملی تعاون کی حیثیت کیا ہوگی؟ اگر یہ شروع میں طے پا جائے تو نہ دل کے آ بگینے ٹوٹیں گے نہ کینۂ و کدورت کی آگ سلگے گی۔

♦ایک قابل توجہ بات تقسیم میراث کی ہے، جیسے ہی مورِث کا انتقال ہوا، اس کے ترکہ سے تمام ورثہ کا حق متعلق ہو جاتا ہے، اور ترکہ میں مرنے والے کی تمام چیزیں شامل ہیں، مثلاً اگر ایک لڑکا مرنے والے کے ساتھ اس مکان میں مقیم تھا، اب والد کی وفات کے بعد تنہا اس مکان کو یا والد کی دوسری اشیاء کو استعمال کر رہا ہے تو اپنے شیئر سے زیادہ حصہ جو اس کے استعمال میں ہے، وہ اس کے حق میں گناہ اور حرام ہے، پھر تقسیم میں جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے، الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں اور اختلاف کے مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں؛ اس لیے شریعت کا مقرر کیا ہوا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے گذرنے کے بعد جلد سے جلد ایک دو دنوں کے اندر تمام ورثہ بیٹھ کر شریعت کے حکم کے مطابق اپنے حصے تقسیم کر لیں اور اس تقسیم میں ہر چیز کو شامل کریں؛ کیونکہ قرآن مجید میں ترکہ کے لیے ’’مَا تَرَکَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی مرنے والا جو بھی چھوڑ جائے؛ اس لیے گلاس اور پلیٹیں بھی ترکہ میں شامل ہیں، ہاں، اگر مرحوم کی بعض اشیاء کے استعمال کے بارے میں ورثہ کا اتفاق ہو جائے کہ یہ چیز فلاں کے استعمال میں رہے گی تو حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ دوسرے حقداروں کی طرف سے اس کے حق میں ہبہ ہے۔

یہ اور اس طرح کے معاملات میں جہاں وضاحت ضروری ہے، وہیں یہ بھی مناسب ہے کہ ان معاملات کو تحریر میں لے آیا جائے اور اس تحریر پر تمام متعلقہ لوگوں اور کچھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں؛ تاکہ آئندہ طے پانے والے امور کے سلسلہ میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ اگر معاملات کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے اور اسے تحریر میں لایا جائے تو زمین و جائداد کے پچاس فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں اور اختلاف کی نوبت ہی نہ آئے۔

وَ آخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحمدُ للهِ ربِّ العالمين

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

ہر ہفتہ خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے اپنا نام، پتہ اور وہاٹس ایپ نمبر ارسال کریں:

9834397200

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے