توحید خداوندی |توحید کے موضوع پر تقریر| ایمان افروز تقاریر

توحید کے موضوع پر تقریر

ماخوذ از: ایمان افروز تقاریر (PDF ڈاؤنلوڈ کریں)

توحید خداوندی

الحمد للّٰهِ و كَفىٰ وَ سَلَامٌ عَلىٰ عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفىٰ أمَّا بَعْدُ! فَأعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم، قُلْ هُوَ اللهُ أحَدٌ، اللهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ، و لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُواً أحَدٌ، و قَالَ فِيْ مَقَامٍ اٰخَرَ: إنَّ اللهَ لا يَغْفِرُ أنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَن يَّشَاءُ۔ صَدَقَ اللهُ العَظِيْمُ

ابھی میں طفل مکتب ہوں نہ واعظ ہوں نہ فرزانہ
صدائیں دل میں گونج رہی ہیں سنا دو حق کا پروانہ

برادران اسلام اور معزز سامعین کرام!

میں آپ جیسے عظیم المرتبت حضرات کے سامنے توحید کے عنوان پر چند منٹ لب کشائی کی جسارت کر رہا ہوں امید ہے کہ آپ حضرات بغور سماعت فرمائیں گے اور اس حقیر سراپا تقصیر کی ہمت افزائی فرمائیں گے۔

حق تعالی شانہ ہو جو تمام اشیائے ارض و سماء کا خالق اور ہمارا خالق ہے۔ اس وصف عالیہ کے ذریعے ہمارے مال محبوب اعلی محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے احکام کا نزول فرمایا ۔اس مقدس ہستی نے ہمیں ایک ایسی قوت عالی بخشی جس کو ہم عقل سلیم سے تعبیر کرتے ہیں۔

اگر ہم اس کو تعالی کو استعمال میں لائیں تو کائنات کے ہر ذرے سے وحدت خداوندی کی خوشبو آئے گی ذرۂ کائنات تو درکنار اگر ہم خود اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو وحدت ہی وحدت نظر آئے گی۔ اللہ نے ہم پر بے شمار رحمتوں کا نزول فرمایا یا۔ اس کے باوجود اگر ہم کسی معاصی کے مرتکب ہوتے ہیں پھر وہ ذات کریم جس کا فضل و کرم اس کے غضب پر غالب ہے۔ ہمیں معاف فرما دے گا۔ لیکن جب کوئی شرک جیسے بد ترین گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو خدائے پاک خود فرماتے ہیں: إنَّ اللهَ لا يَغْفِرُ أنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَن يَّشَاءُ۔ (پارہ ۵ رکوع ۴ آیت ۴۸)

ترجمہ: بے شک رب کائنات مشرک کی مغفرت نہیں فرمائیں گے اور اس کے علاوہ جس کی چاہیں مغفرت فرما دیں گے۔

اسی لیے رب کائنات نے اپنی مخلوق کو رشد و ہدایت اور صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا

تمام انبیاء علیہم السلام نے توحید کی تبلیغ فرمائی۔
تمام کی دعوت وحدت کی دعوت تھی۔
تمام کام مشن توحید کا مشن تھا۔
تمام کا درس ’’قُوْلُوْا لَا اِلٰهَ إلّا اللّٰهَ تُفْلِحُوْا‘‘ کا تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اسی مشن کو اختیار کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ’’یَا قَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَالَکُمْ مِنْ إلٰهٍ غَیْرُہٗ‘‘ کہہ کر پکارا۔
حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اسی طریق کو اختیار فرمایا۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی یہی سبق دیا۔
آخر میں ہمارے معلم اعلیٰ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی دعوت دی۔
تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین، تبع تابعین اور تمام ائمہ مجتہدین کا منشا اور مقصد ایک ہی تھا، وہ توحید کا بول بالا تھا۔
اور آج کے دور میں علمائے اہل سنت والجماعت کا بھی یہی مقصد ہے۔

عزیزان گرامی میں!

انبیاء علیہم السلام نے اسی دعوت کی خاطر تکالیف برداشت کیں۔ اسی توحید کی خاطر جلا وطن کیے گئے۔ اسی کی خاطر لوگوں کی گالیاں، بے عزتی، مصائب اور ظلم کو برداشت کیا۔ جب محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہِ صفا پر اعلان فرمایا کہ:

اے ریگستان عرب کے متوالو! اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں ایک لشکر جرار موجود ہے، جو تم پر حملہ کرنے والا ہے۔ کیا تم میری اس بات پر یقین کر لو گے؟ تمام نے با آواز بلند کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صداقت و امانت کے پیکر ہیں۔ آپ غلط بیانی اور جھوٹ کیسے بول سکتے ہیں۔

اس کے بعد محسن انسانیت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:

اے لوگو! ظلمت و ضلالت، جہالت و شقاوت، وحشت و بربریت کی وادی سے نکل کر شرافت و عزت، کرامت و نجات کے راستے کو اختیار کر لو۔

اور فرمایا کہ:

’’قُوْلُوْا لَا اِلٰهَ إلّا اللّٰهَ تُفْلِحُوْا‘‘ تم اس کلمۂ مقدسہ کو پڑھ لو، کامیاب و کامران ہو جاؤ گے۔

بس اتنا کہنا تھا کہ ظلمت کدۂ کفر میں ایک کہرام مچ گیا۔ تمام کفار مکہ حیرت زدہ تھے کہ آج محمد بن عبداللہ کو کیا ہوگیا؟ وہ اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کی مذمت کر رہا ہے۔

برادران ملت! اس کے بعد جو دوست تھا وہ دشمن ہو جاتا ہے۔ محبت کی جگہ نفرتوں اور عداوتوں کا جنم ہوتا ہے۔ کمبخت ابولہب کہتا ہے کہ اے محمد! کیا تو نے ہمیں اس لیے بلایا تھا کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑ کر نئے دین کی اتباع کریں؟ اتنا کہہ کر پتھر برساتا ہے۔ ماہِ رسالت ﷺ کے سرِ مبارک سے لہو جاری ہوجاتا ہے۔ یہی وہ توحید ہے جس کی خاطر محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی گلیوں میں پتھروں کی بارش کو برداشت کیا۔

صد افسوس!کہ آج کے مسلمان توحید و وحدت کی اہمیت و قیمت کو نہیں سمجھتے۔ اور شرک و کفر، الحاد و ارتداد کی ظلمت اور تاریکیوں کو اپنے قلوب میں اس انداز سے جگہ اور مقام دیتے ہیں کہ شیطان ملعون بھی دیکھ کر حیرت زدہ ہوتا ہے اور کہتا ہے:

ابلیس کہتا ہے اس کے کرتب دیکھ کر
بازی لے گیا مجھ سے مقدر تو دیکھیے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، اور کفر و شرک سے پوری زندگی حفاظت فرمائے۔ آمین

و اٰخر دعوانا أن الحمد للّٰهِ ربّ العالمین


نوٹ: اس تقریر کا کچھ حصہ حذف کیا گیا ہے۔ پوری تقریر کے لیے کتاب پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کریں۔ لنک اوپر ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے