عورتوں کے حقوق پر تقریر، اسلام میں عورتوں کے حقوق ماضی و حال کے آئینے میں

عورتوں کے حقوق پر تقریر

ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں

اسلام میں عورتوں کے حقوق ماضی و حال کے آئینے میں

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَ الصَّلاۃُ وَ السَّلامُ عَلیٰ رَسُوْلِهِ الْکَرِیْم، أَمَّا بَعْد!

عورتوں کے حقوق پر تقریر

بنتِ حوّا تیرے ماتھے کو رِدا دی ہم نے
تیری عظمت تیری توقیر بڑھادی ہم نے
تجھ کو اِک بوجھ سمجھتے تھے زمانے والے
دفن کرتے تھے زندہ تجھ کو گھرانے والے
لوگ بازار میں تجھ کو نیلام کیا کرتے تھے
اِک کھلونے کی طرح تجھ کو لیا کرتے تھے
نورِ اسلام نے آکر تجھے عزت بخشی
عظمتِ نسواں کی تعلیم زمانے کو دی

جنابِ صدر، حَکَم صاحبان اور سامعین بزم!

میری گفتگو کا محور ہے ’’اسلام میں عورتوں کے حقوق ماضی و حال کے آئینے میں‘‘

حضرات!

اسلام نے عورتوں کو کیا حق دیا ہے اس کو جاننے کے لیے آئیے تعصب کا چشمہ اتار کر، عدل و انصاف کی عینک لگاکر دیکھیں کہ عورتوں کے تعلق سے ماضی کی تفریط اور حال کے افراط کے درمیان اسلام کا عادلانہ موقف کیا ہے؟

اسلام سے پہلے یونانِ قدیم میں عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ سمجھا جاتا تھا، وہ غلاموں کی طرح بازاروں میں بیچی جاتی تھی، میراث میں اس کا کوئی حصہ نہیں تھا، نکاح و طلاق کا پورا معاملہ مردوں کے ہاتھ میں رہتا تھا، شوہر کے مال میں تصرف کا اس کو کوئی حق نہیں تھا، حصولِ طلاق اور خلع کا بھی اسے حق حاصل نہ تھا، یہودیت میں باپ اپنی لڑکیوں کو فروخت بھی کر سکتا تھا، فلسفیوں نے عورتوں کو گناہوں کا سرچشمہ قرار دیا تھا، عیسائیت میں عقیدہ یہ تھا کہ عورت جہنم کا دروازہ ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب ’’منو اسمرتی‘‘ میں لکھا تھا کہ عورتوں کا وجود صرف اس لیے ہے کہ وہ بچہ جنیں اور ان کی کفالت کریں، اسلام آنے سے قبل عرب میں بچیاں زندہ درگور کردی جاتی تھیں۔

ایسے نازک حالات میں رحمۃ للعالمین کی شکل میں امید کا ایک سورج نکلتا ہے جو عورتوں کے حقوق کی کرنیں اس طرح بکھیرتا ہے کہ ’’الدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَ خَیْرُ مَتَاعِھَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَةُ‘‘ دنیا کی تمام چیزوں میں سب سے خیر والی چیز نیک عورت ہے۔ قرآن کا اعلان ہوتا ہے کہ عورت اور مرد بحیثیت انسان برابر ہیں، ان میں کوئی تفاوت نہیں۔ ’’لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِيْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘ عورتوں کی محبوبیت کے لیے ایک طرف ارشادِ خداوندی ہوتا ہے کہ ’’زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ مِنَ النِّسَآءِ‘‘ تو دوسری طرف زبانِ رسالت یوں گویا ہوتی ہے ’’حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّساءُ‘‘

سکون و راحت کو عورت کی تخلیق کا مقصد بتایا جاتا ہے ’’وَ مِنْ اٰیَاتِه أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْھَا‘‘ عورتوں کے ساتھ اچھی طرح زندگی گذارنے کے لیے اللہ تعالیٰ فرمان جاری ہوتا ہے ’’وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ رسول اللہ ﷺ حسنِ معاشرت اختیار کرنے والے کو بہترین انسان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِه‘‘

عورتوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد کو دیتے ہوئے ارشاد ربانی ہوتا ہے ’’لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَة مِّنْ سَعَتِه‘‘ رسول اللہ ﷺ اسی مفہوم کی حجۃ الوداع کے موقع پر یوں واضح کرتے ہیں ’’حَقُّھُنَّ عَلَیْکُمْ أَنْ تُحْسِنُوْا إلَیْھِنَّ فِيْ کِسْوَتِھِنَّ وَ طَعَامِھِنَّ‘‘ ناگزیر مجبوری کی وجہ سے عورتوں کو خلع کا حق تفویض کرتے ہوئے کہا جاتا ہے ’’فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِه‘‘

حقوق نسواں کے علمبردارو!

اسلام نے جس طرح مردوں کو اظہار رائے کی حرّیت سے نوازا، اسی طرح عورت کو بھی ضمیر کی آزادی عطا کی، آپ ﷺ نے فرمایا: بیوہ یا مُطَلَّقَہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضامندی نہ لے لی جائے اور بالغ دوشیزاؤں کا نکاح بھی اس سے اجازت لیے بغیر نہ کیا جائے۔ سنِ رشد سے قبل بچپن میں ہی اگر ماں باپ نے اس کی خیرخواہی میں اس کا نکاح کردیا اور بلوغ کے بعد حالات مُساعِد نہ رہے تو اس کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے نکاح کو باقی رکھنے اور توڑنے کا اختیار دیا گیا۔

جہاں اسلام نے تعلیم کو مرد کے لیے فرض کیا، وہیں عورتوں کو بھی ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ میں شامل رکھا۔ جس طرح مرد اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتا ہے اسی طرح اسلام نے عورتوں کو بھی ان کے مال پر مکمل ملکیت کا حق دیا ’’لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ‘‘ جہاں مردوں کو وراثت کا حقدار قرار دیا وہیں میراث میں عورتوں کا بھی حق مقرر کیا گیا ’’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ‘‘ عورتوں پر اسلام کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے خانہ داری کے پرپیچ مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کی ذمہ داری مردوں کو دے کر عورتوں کو ان دشواریوں سے بچالیا، ارشاد ہوا ’’الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ‘‘

نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد

احکام الٰہی کے محافظو!

اسلام کا عورتوں پر یہ احسان ہے کہ اس نے ان کی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ و محترم بنادیا۔ گوہرِ عصمت کو ان کے تاجِ افتخار کا درخشاں موتی بنادیا۔ عِفَّت و نزاہت اور شرم و حیا کو ان کا زیور قرار دیا۔ ان کے حسن و جمال کو شمعِ انجمن بنانے کے بجائے فروغِ خانہ بناکر انہیں بوالہوسی اور بدنگاہی کے تیروں سے محفوظ کردیا۔

اسلام نے اس کی عِفَّت کی پورے نظام حیات میں اتنی رعایت رکھی کہ اس کا ہر طرح تحفظ ہوگیا۔ اس نے پردہ اور نظر ہی کی پابندیاں نہیں لگائیں بلکہ فکر و خیال کے چور دروازے بھی بند کردیے۔ اس نے عفت نظر ہی کی تعلیم نہیں دی بلکہ عصمت خیال پر بھی زور دیا۔ اسلام نے پردہ کو قید کی علامت نہیں بلکہ اس کو آزادی کی ضمانت بنادیا۔ اس نے آزادانہ اختلاط کے ہر مشتبہ اور غلط موقع کو ختم کردیا۔ اسلام نے عورتوں کو کوچۂ بازار میں ماری ماری پھرانے کے بجائے ان کو عزت ان کو عزت و وقار کے ساتھ گھر کی ملکہ بناکر بٹھایا۔

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خِرَد مند

لیکن آہ! یورپ کے عیاروں اور مغربی تہذیب کے غلاموں نے آزادیِ نسواں اور مساوات کی خوشنما تعبیروں کے ذریعے عورتوں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان کے کھوکھلے نعروں کے ذریعے معاشی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پر بھی لاد دیا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا عورتوں کی آزادی اور مُساوات کے معنیٰ یہی ہیں کہ یہ گھر کے علاوہ ہر جگہ نظر آئیں؟ کلچرل شو اور فیشن شو کی زینت ہوجائیں؟ فحش کتابوں اور اخباروں کا اشتہار بن جائیں؟ کیا عورتوں کے حقوق کا مطلب یہی ہے کہ عورت کو غیر شعوری طور پر تنا مجبور کردیا جائے کہ یہ عصمت فروشی اور آبرو باختگی کو فیشن سمجھنے لگیں؟ اور ان کے جنسِ گراں مایہ کی کوئی قیمت نہ رہ جائے؟ علامہ اقبال نے سچ کہا تھا کہ

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

میں اپنی بہنوں کو یہ دعوتِ فکر دے کر رخصت ہوتا ہوں کہ

اب بھی وقت ہے تو پہچان خودی کی کرلے
اپنے دامن میں سبھی موتی حیا کی بھرلے
اپنا معیار پھر تجھ کو بنانا ہوگا
مغربی طرز سے دامن کو بچانا ہوگا
ہاتھ میں گر تو اٹھالے گی نشانِ عظمت
پھر تِرے پاس چلی آئے گی ساری عزت

وَ ما عَلَیْنا إلَّا البَلاغ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے