حالات حاضرہ پر تقریر | عصر حاضر اور اہل ایمان | ایمان افروز تقاریر

حالات حاضرہ پر تقریر

ماخوذ از: ایمان افروز تقاریر

عصر حاضر اور اہلِ ایمان

مقتل کی طرف اب جاتے ہیں اے موت تیرے لب چوم کے ہم
لے جامِ شہادت پیتے ہیں ساقی کی ادا پہ جھوم کے ہم
ہم شمع یقیں کے پروانے شعلوں سے محبت کرتے ہیں
اے زیست ہماری راہوں سے ہٹ، ہم موت کی عزت کرتے ہیں

الحَمْدُ لِلّٰهِ لِوَلِیِّهٖ، و الصلاۃُ و السلامُ علیٰ نبیهٖ محمَّدٍ، و علیٰ اٰلهٖ و أصحابِهٖ أجمعین، أمَّا بعد! فأعوذُ باللّٰهِ من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰهِ الرحمٰن الرحیم، إن تنصُرُوْا اللّٰهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ، وَ قَالَ اللّٰهُ فيْ موْضِعٍ اٰخَرَ: وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ أَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ، صَدَقَ اللّٰهُ الْعَظِیْم۔

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
اب کہتے ہیں ہم سے یہ اہلِ چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

ملت اسلامیہ کے پاسبانو!

آج میں آپ حضرات کے سامنے ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے سیاسی ظلم و ستم اور دینِ اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کی ناپاک اور گھناؤنی سازش اور کوشش کے موضوع پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ بغور سماعت فرمائیں گے۔

وہ ہندوستان جس کی حرّیت کے باغ کو مسلمانوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا، وہ ہندوستان جس کی آزادی کی خاطر بحرِ ناآشنائے ساحل میں کود پڑے تھے۔ اور موجوں سے کھیلتے ہوئے مجھدھار تک جا پہنچے تھے۔ بے پناہ قربانیوں کے ذریعہ اس کو پروان چڑھایا تھا۔

آج اسی ہندستان میں مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی جاری ہیں۔ مسلمانوں کے قلوب سے اسلام کی محبت کو ختم کرنے کی نہایت ہی گھناؤنی اور ناپاک سازشیں ہورہی ہیں۔

اس میں شک و شبہ نہیں کہ دنیا میں حق و باطل کا تصادم روزِ اَزَلی سے جاری ہے۔ ظالم و جابر، طاقتور و کمزور و مظلوم کی کہانیاں بہت قدیم ہیں۔ خِرمنِ انسایت پر کئی بار بجلیاں گری ہیں۔ باغِ آدم میں کئی آندھیاں آئی ہیں۔ وحشت و بربریت نے بارہا انسانیت کا منھ نوچا ہے۔ اور حیوانیت کا ننگا ناچ کیا ہے۔

اور اس میں شک نہیں کہ:

ہم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ہم مظلوم و بے قصور کو فرقہ پرستوں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے۔ ہماری ماؤں بہنوں کی عزت و آبرو لوٹی جارہی ہے۔

برادرانِ ملت!
یوں تو ہندوستان میں کسی بھی دور میں مسلمانوں کا حامی کوئی نہیں تھا۔ لیکن جب سے فرقہ پرستوں نے ہندوستان میں جنم لیا۔ اس وقت سے مسلمانوں کی رہی سہی سکون و چین چھن گیا ہے؛ کیونکہ ان فرقہ پرستوں نے ہمہ وقت مذہبِ اسلام کو مٹانے کے لئے نہ جانے کیسی کیسی رچنا رچی ہیں۔

غور تو کریں!

کبھی وندے ماترم جیسی گندی و ناپاک چیز کے نافذ کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیند حرام ہوگئی تھی۔

آج بھی بہت سارے اسکولوں میں یہ گیت گائے جاتے ہیں۔ جس گیت میں سراسر کفر بھرا ہوا ہے۔
جس گیت کو ایک بار پڑھنے سے انسان خارج اسلام ہو جاتا ہے۔
جس گیت کو ایک بار پڑھنے سے مسلمان مسلمان نہیں رہتا۔

آج وہی گیت ہندوستان کے مدارس و مکاتب میں پڑھنے کے لئے بچوں کو مجبور کیا جارہا ہے۔ آج ہندوستان میں مدارس و مکاتب کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہندوستان کے مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ جتنے بھی فسادات ہو رہے ہیں ان کے پیشوا و لیڈر یہ مُلّا ہیں۔ اس لئے پہلے ان کو ختم کیا جائے۔ اور اس کی آسان صورت یہ نکالی گئی کہ اب مسلمانوں کے سبھی مدارس و مکاتب اور مساجد کو ختم کر دیا جائے۔ اسی وجہ سے ہماری عبادت گاہوں پر پابندی لگائی جارہی ہے، مختلف بے بنیاد بہانے بناکر ان میں دخل اندازی کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کی تعمیر و ترقی میں بے جا رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں؛ تاکہ مسلمان ان اداروں سے دستبردار ہوجائیں، اور باطل کو اپنی نظریات پھیلانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

لیکن شاید ان کو معلوم نہیں کہ مسلمانوں کی جب تک سانس چلتی رہے گی اس وقت تک دینِ اسلام پر اور مکاتب و مساجد پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے دیں گے۔

ہم تمہاری دھمکیوں سے خوف کھا سکتے نہیں
ظلم کے آگے ہم اپنا سر جھکا سکتے نہیں

اور

ہے یہی تاریخ اپنی، ہے یہی اپنا فلسفہ
ہم زمانے میں دبانے سے ابھرتے ہیں سَدا

عزیزانِ گرامی!

اگر وطن ہماری جان مانگے تو جان دیں گے۔
اگر وطن ہمارا مال مانگے تو مال دیں گے۔
اگر وطن ہماری اولاد مانگے تو اولاد دیں گے۔

لیکن

یہ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان نبیؐ کی جاہ و جلال دیں۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان آخرت کو چھوڑ کر دنیا کو تر جیح دیں۔

آپ حضرات کو وہ تاریخ یاد ہوگی کہ انگریزوں کی ظلم و زیادتی جب حد سے آگے بڑھی اور انہوں نے اسلامی قلعہ کو مسمار کرکے اس پر تثلیثی عقیدے کی بنیاد رکھنا چاہا تھا تو سب سے پہلے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب علیہ الرحمہ میدان جہاد میں بے جھجک کود پڑے اور ’’أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ‘‘ کے جذبۂ پیکراں سے سرشار ہوکر ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ اور انگریزوں کے خلاف محاذ جنگ قائم کیا۔ اور اس بات کا تہیہ کرلیا تھا کہ غلامی کی زنجیر کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہی دم لیں گے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو مصائب و مشکلات کے کن کن مراحل و دشوار گذار گھاٹیوں اور وادیوں سے گذرنا پڑا۔ وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ: ع

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
مجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

برادرانِ ملت!

وہ ٹیپو سلطان ہی کی ذات تھی جس نے یہ کہہ کر کہ گیدڑ کی سو برس کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ لوگوں کی رگِ مُردہ میں آزادی کی برقی لہر دوڑا دی تھی۔ اور خود بھی انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار رہے؛ یہاں تک کہ میسور کی دھرتی پر خون کا آخری قطرہ بھی آزادی کی خاطر بہاکر شہید ہو گئے۔

اگر یہ مسلم قائدین کا قافلہ غلام ہندوستان کے پُر پیچ اور بھیانک جنگل میں آزادی کی شاہِ راہ بنانے کی غرض سے سرگرم سفر نہ ہوتا تو یہ تنگ نظر احسان فراموش غدار جو ہم سے وفاداری کی سند مانگتے ہیں، ان غداروں سے میں کہتا ہوں: اگر

ہم ہیں غدار تو پابندِ وفا تم بھی نہیں
اپنی کثرت پہ نہ اِتراؤ خدا تم بھی نہیں

یہ فرقہ پرست اس ملک کو کبھی بھی آزاد نہیں کرا سکتے تھے۔

آپ حضرات مجھے بتا ئیں!

کیا مسلمانوں نے جنگِ آزادی اس لئے لڑی تھی کہ وہ صاحبِ اقتدار ہو جائیں؟ کیا مسلمانوں نے اپنا خون اس لئے بہایا تھا کہ حکومت کریں؟ کیا مسلمانوں نے اپنے جسم پر زخم اس لئے کھائے تھے کہ حاکم بنیں؟

نہیں ہرگرز نہیں!

بلکہ اسلام کو برقرار رکھنے کے لئے۔
دین کو برقرار رکھنے کے لیے۔
ایمان کو برقرار رکھنے کے لیے۔
توحید و انسانیت کو برقرار رکھنے کے لئے۔
ہندوستانیوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے۔
ہندوستان میں امن و صلح کو باقی رکھنے کے لئے۔

لیکن آج پھر حکومت فرقہ پرست انگریزوں کی طرح ہمارے دین پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔

یاد رکھیں!

اگر یہی حال رہا تو ان فرقہ پرستوں کو بھی انگریزوں کی طرح منھ کی کھانی پڑے گی اور اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑے گا۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ع

کوئی اگر صلح کے پھولوں کو پیروں سے کچل ڈالے
تو شاخِ گُل کی ہر پتی پہ قتلِ عام لکھ دینا

ملّتِ اسلامیہ کے غیور نو جوانو!

اپنی غفلت کی چادر چاک کر کے عقل و ہوش کی زرہ پہن لو۔
اپنے اندر انقلاب پیدا کرو۔
اپنی تقدیر کو سنوار لو۔
قوموں کی تقدیر خود بنائی جاتی ہے۔
’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ‘‘ یه ایک ٹھوس حقیقت ہے۔
شاعر کہتا ہے: ع

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ لیکن ہماری سب سے بڑی متاع اسلام ہمارے پاس موجود ہے۔ ابھی ہمارے سینوں میں ایمان و یقین کی مشعلیں روشن ہیں۔ جو لوگ اسلام پر مرنا اور جینا چاہتے ہیں، کفر کا سیلاب ان کے دلوں سے عشقِ رسول کی چنگاری نہیں بجھا سکتا۔ ’’الْـحَـقُّ يَـعْلُوْا وَ لَا یُعْلیٰ‘‘ یعنی حق ہمیشہ غالب و سربلند رہتا ہے۔ اس کو کوئی چیز مغلوب نہیں کر سکتی۔
کسی شاعر نے کہا ہے: ع

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبائیں گے

اسلام ہمارے لئے وہ ڈھال ہے جو کفر کے ہر تیر کو روک سکتی ہے۔
اسلام ہمارے ہاتھوں میں وہ تلوار ہے جو ہر تلوار کو کاٹ سکتی ہے۔
اسلام روشی کا وہ منارہ ہے جو ظلمت کی گھٹاؤں کو ختم کر سکتا ہے۔
اسلام وہ چشمۂ حیات ہے جس سے قیامت تک زندگی کے دھارے پھوٹتے رہیں گے۔
اسلام وہ دھار ہے جو ہمارے سفینے کو ساحلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔
شاعر کہتا ہے: ع

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

ملتِ اسلامیہ کے دھڑکتے دلو!

آج تمہاری عزت و آبرو کے امتحان کا وقت آچکا ہے۔
آج تاج محل کی پُرشکوہ عمارت تم سے فریاد کر رہی ہے۔
آج لال قلعہ کی دیواریں تمہیں آواز دے رہی ہیں۔
آج قطب مینار تمہارا مرثیہ پڑھ رہا ہے۔
آج بابری مسجد کی دلخراش شہادت تمہاری خودداری کی تارِ رُباب کو جھنجھوڑ رہی ہے۔
آج وہ مسلم خواتین جن کی عزت و آبرو کو پامال کیا گیا تھا آواز دے رہی ہیں۔

اے ملت اسلامیہ کے نوجوانو!
اے خالد بن ولید کے فرزندو!
اے محمد بن قاسم کے پیروکارو!
اے صلاح الدین ایوبی کے ہمنشینو!
اے محمود غزنوی کے مقتدیو!

تم بیدار ہو جاؤ، اپنے اندر انقلاب پیدا کرو۔ اپنی تقدیر کو سنوارو۔ اس لیے کہ آج دشمنِ اسلام نے تمہارے خلاف کمر کَس لی ہے۔
آج اغیاروں نے ہندوستان سے تمہیں ختم کرنے کی سازشیں شروع کر دی ہیں۔
آج مشرکین نے تمہارے خلاف خفیہ طور پر فوجیں تیار کر رکھیں ہیں۔

اے مسلمانو!
اگر اب بھی بیدار نہیں ہوئے، اور اپنے بچاؤ کے سامان مہیا نہیں کیا، تو یاد رکھیں:

بوسنیا کے مسلمانوں کی طرح ذلیل و خوار ہو گے۔
بوسنیا کے مسلمانوں کی طرح گاجر مولی کی طرح کاٹے جاؤ گے۔
آپ لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا۔

برادرانِ اسلام!

جب بھی وقت آئے تو مردِ مُجاہِد کی طرح یہ کہتے ہوئے میدانِ جہاد میں کود پڑیں کہ:

باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کیجیے؛ کیونکہ اتحاد و اتفاق ایسی قیمتی دولت ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کی قلت کے باوجود بھی دشمنوں کے بڑے بڑے جتھوں اور گروہوں کو شکست فاش دی جا سکتی ہے۔

اتحاد و اتفاق میں وہ قوت پوشیدہ اور طاقت خوابیدہ ہے، جس کا اندازہ اہلِ بصیرت ہی کر سکتے ہیں۔ اتحاد و اتفاق میں زبردست قوت اور فولادی طاقت ہے۔

معرکۂ بدر میں صحابہؓ کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی؛ لیکن ان کے پاس اتحاد و اتفاق کی ابدی دولت موجود تھی۔ ان کا خدائے واحد پر توکل کامل تھا، جس کے نتیجہ میں فتح و کامرانی، ظفر و کامیابی نے ان کا قدم چوما، اور باطل کو شکست فاش ہوئی۔

غزوۂ تبوک اور غزوۂ خندق اور دیگر غزوات کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں، جس میں قلت کے باوجود کثرت پر غلبہ حاصل ہوا۔

جس کا نقشہ قرآن نے بیان کیا: ’’كَمْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِإِذْنِ اللّٰهِ‘‘ لیکن آج مسلمانوں نے اس زبردست قوت اور فولادی طاقت کو پامال کردیا۔
آج اہلِ ایمان نے اس سر چشمہ کو ضائع اور برباد کر دیا۔
آج ملت اسلامیہ نے اس قوت پوشیدہ کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔

یاد رکھیں!
آج ہمارے اندر اختلافات، فرقہ بندی، تنازعات و تشاجرات اور نفرت آگئی، جس کی بنا پر دوسری قومیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اور ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔

عزیزانِ ملت!

کب تک ہم پامال ہوتے رہیں گے؟
کب تک بدنگاہی کو برداشت کریں گے؟
کب تک مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے؟

میں آپ سے پوچھتا ہوں!
کیا آپ کو سلفِ صالحین کے واقعات یاد نہیں؟
کیا آپ کو اسلامی فتوحات اور ان عظیم فاتحین کے کارنامے یاد نہیں؟
کیا آپ نے خالد بن ولید، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نضیر کے کارناموں کو فراموش کر دیا؟
کیا آپ نے محمد بن قاسم، زیاد بن ربیعہ کے کارناموں کو بھلا دیا؟

خدارا آپ اپنے اندر اتحاد و اتفاق کے لافانی جذبہ کو فروغ دیں۔ اور اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی کے سے تھام لیں۔

تو ان شاء اللہ کامیابی و کامرانی آپ سے ہمکنار ہوگی۔ اور غیرتِ ایمانی اور جذبۂ اسلامی آپ کے اندر پیدا ہو جائے گی، اور فلاح و فوز سے وابستگی ہو جائے گی۔

میں اس شعر کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ ع

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر مرنے والا بنائے۔ اور اتحاد و اتفاق کی فولادی قوت سے سرفراز فرمائے۔ آمین!

وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ


ضروری گذارش:

یہ تقریر ’’ایمان افروز تقاریر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ کچھ جگہوں پر تھوڑی بہت تبدیلی کی گئی ہے۔ آپ بھی موقع محل کے اعتبار سے تبدیلی کرسکتے ہیں۔ آپ یہ کتاب اور تقریر کی دیگر کتابیں پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔ (ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں)

مفید لنکس:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے