ترک قرآن کے نقصان پر تقریر
ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ الْإِنْسَانَ، وَ أَنْزَلَ لَهُ الْقُرْآنَ، وَ جَعَلَهٗ مَوْعِظَةً وَّ شِفَاءً وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِذَوِيْ الْإِيْمَانِ، أَمَّا بَعْدُ!
خدائے پاک نے قرآن کو خود ہی اتارا ہے
اس نے اپنے نُطقِ خاص سے اس کو سنوارا ہے
یہ دستورِ خداوندی ہدایت کا منارا ہے
کمی بیشی نہیں اس میں مکمل تیس پارا ہے
صدرِ عالی مقام، حَکَم صاحبان اور سامعینِ کرام!
میری تقریر کا مِحور علامہ اقبال کا یہ شعر ہے:
’’وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر‘‘
حضرات!
قرآن مجید کا نازل کرنے والا احکم الحاکمین، ذریعہ جبرئیلِ امین، صاحبِ قرآن رحمۃ للعالمین، مہینہ مقدس ترین، رات ہزار مہینوں سے بہترین، سرزمین محترم و بَلَدِ امین، تو اس قرآن کے معلم و متعلم اور اس سے وابستگی اختیار کرنے والے کیوں نہ ہوں عظیم ترین۔ ’’خَيْرُكُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَهٗ‘‘
مسلماں کے لئے قرآن ہے سوغاتِ لاثانی
یہی قانونِ یزدانی سراپا وصفِ رحمانی
عظمتِ قرآن کے علمبردارو!
علامہ سید سلیمان ندویؒ کے انداز میں سمجھیے کہ ہر پیغمبر نے اپنی امت کے سامنے حیرت انگیز معجزے پیش کیے ہیں۔
حضرت نوحؑ کی دعا نے عالَم کو غرقِ آب کر دیا۔
حضرت شعیبؑ کی صدا نے آتش فشاں پہاڑوں کے دہانوں سے آگ برسائی۔
عصائے موسٰی نے فرعون کو بحرِ احمر کا لقمہ بنادیا۔
دمِ عیسٰی نے جنم کے اندھوں کو بینا کردیا۔
لیکن رحمۃ للعالمین کے معجزۂ قرآن نے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بجائے ان کو نئی زندگی عطا کی، پتھر دلوں کو موم کردیا، عقل کے اندھوں کو بینا بنادیا، کفار و مشرکین کو کفر و شرک کی ہلاکت سے بچا لیا، انسانوں کی جبینیں اللہ کے سامنے خم کراکے ان کو دنیاوی قوت کے ہر آستانے سے بے نیاز کر دیا، باطل پرستی کے ہر طِلِسم کو توڑ دیا، بتوں کے ہیکل مسمار کردیے، ستارہ پرستی کا چراغ گل کر دیا، انسانی جانوں کی قربانی موقوف کرادی، دختر کُشی کی رسم کا خاتمہ کر دیا، مظلوم عورتوں کو اعلٰی مقام سے نوازا، غلاموں کو آزادی کا پروانہ دیا، سسکتی اور بلکتی انسانیت کے زخم پر مرہم رکھا، یہی قرآن آج بطور یاد دہانی ہم سے مخاطب ہے ’’وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ‘‘
آئیے تاریخ کے آئینے میں قرآن مجید کی اہمیت کو سمجھیں اور اس سے وابستگی اختیار کرنے کی ضرورت پر غور کریں، ذرا تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر بتائیں کہ نزولِ قرآن سے پہلے عربوں کی کیا بساط تھی، دیلِم کو کون جانتا تھا، سلجوق سے کون واقف تھا، غوری و خلجی کسی شمار میں تھے، کُرد و تغلق کس گنتی میں تھے، خوارزَم شاہی، اتابکی، مصری اور ہندوستانیوں کی کیا حیثیت تھی؟ دنیا کے تین بَرِّ اعظم یورپ، ایشیا اور افریقہ پر چھ سو سال حکومت کرنے والے عثمان خان اور ان کی اولاد کا کیا مقام تھا؟
مگر جب انہوں نے اپنی عقیدت کا سر قرآن کے آگے جھکایا تو دنیا کے شہنشاہوں نے ان کے آگے اپنی گردنیں جھکا دیں، عربوں کا تمدن کیا تھا؟ افریقہ کے وحشیوں کا رتبہ کیا تھا؟ بربر کی بربریت کی داستانوں سے کون آگاہ نہ تھا؟ ترک و تاتار کی درندگی کے واقعات سے کس کے کان آشنا نہ تھے؟
مگر دیکھیے جب قرآن نے ان کے سر پر سایہ ڈالا تو انہی کے ہاتھوں سے عظیم الشان سلطنتوں کی بنیادیں پڑیں، بڑے بڑے متمدن شہر آباد ہوئے، علوم و فنون کی درسگاہیں کھلیں، تہذیب و تمدن کے نقش و نگار نمودار ہوئے، فلسفۂ و عقل کی جلوہ آرائی ہوئی، علم وفن نے ترقی کی، بیسیوں نئے علوم اختراع ہوئے، پچھلے علوم نے رونقِ تازہ پائی، اور ان کی بَرّی و بحری تجارتوں نے دنیا کی منڈیوں پر قبضہ جما لیا۔
مختصر یہ کہ جن لوگوں نے بھی قرآن مجید سے وابستگی اختیار کی وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے چلے گئے اور جنہوں نے اس کتابِ ہدایت سے منھ موڑا وہ زوال و انحطاط کا شکار ہو گئے، جیسا کہ زبانِ رسالت گویا ہوئی: ’’إِنَّ اللّٰهَ يَرَفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَاماً وَ يَضَعُ بِهٖ آخَرِينَ‘‘ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
مگر آہ! کل جو قرآن مجید کی روشنی میں عقیدۂ راسخ کا درس دیتے تھے، آج وہ بدعقیدگی کا شکار ہیں۔ کل جس کی عبادتیں اللہ کی رحمتوں کو متوجہ کرلیا کرتی تھیں، آج وہ تعلق مع اللہ سے خالی ہیں۔ کل جن کے معاملات دوسروں کے لیے نمونہ تھے، آج ان سے معاملات کرتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں۔ کل جن کے اخلاق سے متأثر ہوکر لوگ کلمہ پڑھ لیا کرتے تھے، آج ان کی بداخلاقی اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کل جو حاکم تھے، آج وہ محکوم ہیں۔ کل جو سمندر میں گھوڑے ڈال دیا کرتے تھے، آج وہ پانی سے ڈر رہے ہیں۔ کل جو ہواؤں کا رخ موڑ دیا کرتے تھے، آج ہواؤں کے تھپیڑے انہیں پھیر رہے ہیں۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ایسے حالات میں قرآن ہم سے مخاطب ہے: اے مسلمانو! ربانی قوت کا سرمایہ اب بھی تمہارے پاس ہے اور اللہ کے خزانۂ رحمت کی کنجی اب بھی تمہارے ہاتھ میں ہے، ہمت کرو اور ادب سے اس کے اوراق کو کھولو، اس کے معنی کو سمجھو، اس کی باتوں پر یقین کرو، اس کے حکموں کو مانو اور عمل کرو پھر دیکھو کہ تم کہاں سے کہاں پہنچتے ہو۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
وَ مَا عَلَیْنَا إلّا البَلَاغ