تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

ولادت:

اسی خاندان او رعلم وفضل کے اسی گھرانے میں ۱۴؍ رمضان ۱۳۰۸؁ھ مطابق ۱۸۹۰؁ء کو قاضی محمدعرفان خاںصاحب ٹونک میں پیداہوئے اور اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ کے سایۂ عاطفت میں تربیت پائی۔ وہ دور ایک مبارک دور تھا۔ ہر طر ف علم وفضل کا دور دورہ تھا۔ گھر گھر درس وتدریس کاچرچاتھا ۔ آپ کاخاندان بھی چوںکہ علم وفضل کامرکز تھا اس لئے آپ نے آنکھیں کھولیں تو اسی علمی ماحول وعلمی فضامیں کھولیں۔ چونکہ گھراور خاندان میں ایک ایک فرد، فردِ کامل ویکتائے زمانہ تھا۔ اس لئے گھرکاماحول پوری طرح آپ کی زندگی کی تعمیر میں ممد ومعاون ثابت ہوا۔

تعلیم :

 خوش قسمتی سے مرحوم کوتعلیم حاصل کرنے کازمانہ بھی وہ نصیب ہوا جب کہ حکیم برکات احمدصاحب خیرآباد سے ، مولوی حیدرحسن خان صاحب لاہور سے او رمولانا سیف الرحمٰن صاحب کابلی، مولوی رشیداحمدصاحب گنگوہی کے پاس سے علوم حاصل کرکے ٹونک تشریف لے آئے تھے اور موصوفین نے اپنے اپنے طور پر درس دیناشروع کردیاتھا۔ ۱۳۱۸؁ھ مطابق ۱۹۰۰؁ء میں ٹونک میں مدرسہ خلیلیہ اور پھرمدرسہ ناصریہ کاقیام عمل میں آیا۔ مدرسہ ناصریہ میں مولاناسیف الرحمٰن صاحب مدرس اول او رمولوی حیدرحسن خاں صاحب مدرس دوم مقرر ہوئے۔ اس سلسلہ میں مولوی محمدسعیدصاحب عرف کلن بھیاجوقاضی صاحب مرحوم نے آپ ہی کے پاس مدرسہ ناصریہ ٹونک میں ابتدائی کتب شرح جامی تک پڑھیں۔ پھر ـآپ مدرسہ خلیلیہ میں منتقل ہوگئے۔ اس زمانہ میں مولاناخلیل الرحمٰن صاحب مفتی مدرسہ میں مدرس تھے۔ ہدایہ آپ نے مولوی نورالحق صاحب خستہؔ سے پڑھی۔ اس طرح تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر باقی تمام کتب منقولہ ومعقولہ ،صحاح ستہ ، توضیح تلویح مطول، کتب منطق وفلسفہ ،علوم ریاضیہ وفنون طبعیہ حضرت مولاناحکیم برکات احمد صاحبؒ سے حاصل کئے اور ذی الحجہ ۱۳۳۶؁ھ مطابق ۱۹۱۷؁ء  میں موصوف سے فاتحۃ الفراغ حاصل ہوئی۔ حکیم صاحب کی عطا کردہ اصل سند محفوظ ہے اور سندات علمیہ میں اس کی نقل بھی شامل ہے۔

حکیم صاحبؒ سے تعلق:

قاضی صاحب مرحوم حکیم برکات احمدصاحبؒ کے ارشدتلامذہ میں سے تھے اور حکیم صاحب بھی آپ سے کافی محبت فرمایاکرتے تھے جب علوم سے فراغت حاصل ہوئی تو ایک روز حکیم صاحب نے فرمایا :

قاضی جی! ۱؎ (حکیم صاحب آپ کواسی نام سے مخاطب فرمایاکرتے تھے) تم طب کی تکمیل کیوں نہیں کرلیتے۔ کل سے قلمدان لے آئو اور مطب میں بیٹھاکرو۔ آپ نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور مطب میں بیٹھنا شروع کردیا۔ درسی کتب پہلے نکل چکی تھیں۔ صرف مطب کاعملی کام باقی تھا۔ ا س لئے اس فن کی مہارت میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔

آپ نے کبھی کسی یونیورسٹی کاکوئی امتحان نہیں دیا بلکہ قدیم عمل کے مطابق درس نظامیہ کی تکمیل کی۔ برائے نام نہیں بلکہ ٹھوس اور پختہ طریقہ پر جملہ علوم حاصل کئے۔ صرف علوم منقولہ ہی نہیں بلکہ علوم معقولہ وفنون ریاضیہ میں بھی مہارت تامہ حاصل کی۔ فرمایا کرتے تھے ابتدائی دو رمیں جب کہ آپ کے والدصاحب حیات تھے اور آپ حکیم برکات احمد صاحبؒ کی خدمت میں حاضری دیاکرتے تھے اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں شرکت کی تحریک ہوئی۔ آپ کے ساتھیوں میں سے متعد د حضرات مولوی اور مولوی فاضل کے امتحانات میں شریک ہوئے لیکن آپ کے والدصاحب مرحوم نے آپ کوامتحان میں شرکت کی اجازت نہیں دی او رفرمایاکہ اس سے استعداد بگڑتی ہے۔ اسی طرح اس دور میں تعلیم کے سلسلہ میں لاہور جانے کی تجویزہوئی۔ ایک مرتبہ اسی غرض سے آپ دہلی تک چلے گئے۔ اسی سفرمیں آپ کی مولوی عبدالحق صاحب مصنفہ تفسیرحقانی سے بھی دہلی میں ملاقات ہوئی۔ لیکن دہلی میں طبیعت گھبرائی او رلاہور جانے کی بجائے آپ واپس ٹونک تشریف لے آئے۔

بھلا جس شخص کی قسمت میں مولاناحکیم برکات احمدصاحب جیسے فاضل اجل وعالم باعمل سے تلمذ کاشرف حاصل ہونے والا ہو اس کادل کسی دوسرے مقام پر کس طرح لگ سکتا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ حکیم صاحب موصوف کی خدمت میں حاضرہوگئے اور فارغ التحصیل ہوجانے کے بعدبھی حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہی کی خدمت میں رہے۔ جانبین سے خلوص ومحبت کایہ عالم تھا کہ شاگرد اپنے مقتدیٰ وپیشوا اور محسن استاد پرفدا ہے تو استاد بھی ایک شفیق باپ کی طرح اپنے سعادتمند وہونہار شاگردپرفخرکرتاہوانظرآتاہے۔ یہ تعلق ابدی تعلق تھا۔ قبلہ مرحوم نے حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں اور آپ کی وفات کے بعدبھی زندگی بھر اپنے آپ کو اس خاندان کاایک خادم اور وفاکیش خادم تصور فرمایا اور عملاً اسے ثابت کرکے بتایا۔

حکیم صاحبؒ کو آپ سے اور آپ کوحکیم صاحب سے اس قدر انس وتعلق تھا کہ آپ فرماتے تھے جس رات میں ’’کالی بیاض ‘‘ ( حکیم صاحب کاخاندانی مطب جو اسی نام سے اس خاندان میں معروف ہے) سرہانے رکھ کرسوجاتاہوں، ضرور حکیم صاحب کو خواب میں دیکھتاہوں ۔ نیزیہ کہ ہر مشکل موقع پر یا کسی الجھے ہوئے مریض کے سلسلہ میں ہمیشہ حکیم صاحبؒ  خواب میں رہنمائی فرماتے رہتے ہیں آپ کے اس روحانی ودلی تعلق کااندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ جب حکیم صاحب کاانتقال ہوگیا اور کچھ عرصہ بعد آپ کے فرزند رشید محمدمیاں(حکیم سیدمحمداحمدصاحب) بھی وفات فرماگئے ایک روز آپ نے محمد میاں کو خواب میں، دیکھافرماتے ہیں:  قاضی جی!  ہمارے کتب خانہ میں کتابوں پر پانی ٹپک رہا ہے ۔‘‘  آپ بیدار ہوگئے اور اس خواب کو ایک خیال تصورکرتے ہوئے اس پر کوئی دھیان نہیںدیا۔ اتفاق سے کچھ روزبعدہی کسی تقریب کے موقع پر آپ حکیم صاحب کے مکان پر حاضر ہوئے ۔آپ نے اپناخواب مجلس میں بیان فرمایا ۔کتب خانہ کھول کردیکھاگیا تو واقعتا کتابوں پر پانی ٹپکاتھا اور کتابوں کو نقصان پہنچ رہاتھا۔ اللہ اکبر!  یہ روحانیت وجاذبیت اور یہ فدائیت وفنائیت تھی جو جانبین سے اس تعلق میں مضمر تھی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے