ملازمت:
حکیم برکات احمدصاحبؒ کو ایک زمانہ سے اشتیاق تھا کہ طب امانت خانی جس کا ایک نسخہ چھبڑہ پرگنہ ٹونک میں بھی موجود تھا اس کی کسی طرح نقل کرائی جائے۔ آپ کی نظر انتخاب قاضی صاحب ہی پر پڑی اور ایک موقع پر آپ نے نواب ابراہیم علی خاں صاحب والیٔ ریاست ٹونک سے عرض کرکے اپنے شاگردرشید کوچھبڑہ کامفتی مقرر کرادیا۔ طرفہ یہ کہ شاگرد پریہ بات ظاہرنہیں فرمائی بلکہ جاتے وقت یہ فرمادیاکہ قاضی جی! تم چھبڑہ جارہے ہو ۔ وہاں ذرا امانت خانی کانسخہ نقل کرلینا۔ آپ نے فوراً تاڑلیا کہ یہ سب کارروائی اسی لئے کی گئی ہے ۔ ،آپ ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۹۲۲ء میں چھبڑہ تشریف لے گئے۔ دوسال مفتی کی حیثیت سے آپ کاوہاں قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ نے دن اور رات مصروف رہ کر امانت خانی کامعتدبہٖ حصہ نقل فرمالیا۔ جب آپ ٹونک تشریف لائے تو نقل کردہ جملہ اجزاء بھی ساتھ لائے اور حکیم صاحب کی خدمت میں پیش کئے۔ نقل شدہ حصہ کی ضخامت اور قاضی صاحب کی اس حیرت انگیز محنت کودیکھ کر حکیم صاحب باغ باغ ہوگئے اور آپ کوسینہ سے لگا لیا۔ اس کے بعدبھی تقریباً دوسال تک ٹونک رہتے ہوئے آپ چھبڑہ کے مفتی رہے اور حکیم صاحب نے آپ کوچھبڑہ نہیں جانے دیا۔
۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۶ء میں مولوی محمدحسن صاحب مفتی عدالت شریعت ٹونک کاانتقال ہوگیا۔ حکیم صاحب نے نواب صاحب سے عرض کرکے مرحوم کی جگہ قاضی صاحب کوٹونک ہی کا مفتی مقررکرادیا۔ اس طرح آپ کی ملازمت چھبڑہ سے ٹونک منتقل ہوگئی۔ آپ عرصہ تک افتاء کاکام انجام دیتے رہے۔
۲۳؍جمادی الاخریٰ ۱۳۶۰ھ م ۱۹؍جولائی ۱۹۴۱ء روز شنبہ کو نواب سعادت علی خاں صاحب نے آپ کو عدالت شریعت کاناظم مقررفرمادیا۔ آخرتک آپ ناظم رہے۔ ۳؍ شوال ۱۳۶۸ھ م ۹؍اگست ۱۹۴۸ء کو آپ کی پینشن ہوگئی اور قیام راجستھان ہوجانے کے بعدانضمام ریاست ہوجانے کی وجہ سے عدالت شریعت بندکردی گئی۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ریاست ٹونک میں جب ابتداء ً عدالت شریعت قائم ہوئی ہے تو سب سے پہلے آپ ہی کے جدامجدمولانامحمدصاحب مفتی مقررکیے گئے اور تاحیات مفوضہ خدمات انجام دیتے رہے ،ادھرقاضی صاحب نے عمربھرافتاء ونظامت کی خدمات انجام دیںاور جوں ہی آپ کی پینشن ہوئی عدالت شریعت کوبھی ختم کردیاگیا۔ اس طرح اس محکمہ کی ابتدا بھی اسی خاندان میں ہوئی اور اختتام بھی اسی خاندان کے ایک فرد پرہوا۔
قاضی صاحب مرحوم چوں کہ فطرتاً ذہین اور ذکی الطبع واقع ہوئے تھے اور کام کرنے کی بہتر صلاحیت کے مالک تھے اس لئے عدالت کی خدمات آپ کے لئے بڑی مفید ثابت ہوئیں۔ پھر درس وتدریس کاسلسلہ جاری ہونے کی وجہ سے مسائل کے استحضار میں مددملتی تھی۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد ہی آپ کوجزئیات مسائل پر اس قدر عبورہوگیا کہ آپ ضرب المثل بن گئے۔ جزئیات اس قدر مستحضر رہا کرتے تھے کہ کبھی آ پ کو استخراج مسائل میںدقت نہیں ہوتی۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ اس طرح حل فرمادیاکرتے تھے جیسے پہلے سے اس کے لئے تیار ہوں۔ علم فرائض میں آپ کوخصوصیت سے ملکہ تھا۔ عدالت شریعت میں فرائض وانقسام جائداد کے پیچیدہ مسائل ودعاوی اکثرآپ کے سپرد کئے جاتے اور آپ بڑی حسن وخوبی کے ساتھ انہیں حل فرمایاکرتے تھے۔
آپ کی زندگی کااکثرحصہ عدالت شریعت سے تعلق میں گذرا۔ اس طویل مد ت میں آپ نے اتقاء وپزہیزگاری کے ساتھ جس قد رپاک وصاف اور محتاط زندگی گزاری ہے اس کی مثال آپ ہی ہیں۔ زمانۂ افتاء میں اگرچہ رشوت سے ملوث ہونے کے بے شمار مواقع تھے لیکن ناظم ہوجانے کے بعداس سے محفوظ رہناآسان کام نہیں تھا۔ بحمداللہ آج دعویٰ کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ آپ ہمیشہ اس سے محفوظ رہے۔ گھرمیں بچہ بچہ کوہدایت تھی کہ آپ کی غیرموجودگی میں بھی اگرکوئی شخص معمولی سے معمولی چیز دینے آئے تو ہرگز اسے نہ رکھاجائے۔ چنانچہ اس پرسختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ ا س لئے کبھی کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ کسی نے آپ کی موجودگی میں یاغیرموجودگی میں ایسا خیال بھی کیاہو۔