تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

درس وتدریس:

آپ کی زندگی کاسب سے اہم کارنامہ اور عمربھرکاسرمایہ درحقیقت آپ کی وہ درسی خدمات ہیں جوآپ نے طالبِ علمی کے زمانے سے لے کر اپنی حیات کے آخری ایام تک انجام دیں۔ بچپن سے آپ کوپڑھانے کاشوق تھا۔ گھراور محلہ کے بچے آپ کے پاس جمع ہوجایاکرتے اور آپ انہیں پڑھایاکرتے تھے۔ ابھی آپ طالب علمی کے ثانوی دور میں تھے کہ آپ نے صرف ونحو کی ابتدائی کتب پڑھاناشروع کردیں۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور بالآخرعلوم عقلیہ ونقلیہ کے اعلیٰ اسبا ق آپ کے پاس ہونے لگے۔ کچھ عرصہ بعد درسی کتب آپ کو اس طرح حفظ ہوگئیں کہ آپ منطق وفلسفہ ، ہیئت وریاضی معانی وبلاغت، حدیث وفقہ اور اصول کے جملہ اسباق دن رات بلاتأمل پڑھایاکرتے اور کبھی آپ کوکوئی کتاب دیکھنے کی ضرورت پیش نہیںآتی۔ اسی طرح کبھی آپ نے کتاب سامنے رکھ کر نہیںپڑھایا۔ طالب علم دور سامنے کتاب رکھ کر پڑھ رہا ہے اور آپ بآسانی جملہ مطالب بیان فرمارہے ہیں۔ اور الجھے ہوئے مسائل حل فرمارہے ہیں ،درس وتدریس سے آپ کو دلی لگائوتھا۔

آپ کے انہماک کایہ حال تھا کہ نماز صبح سے لے کر رات کے دس اور گیارہ بجے تک آپ کواتناوقت نہیں ملتاتھا کہ آپ اطمینان سے بیٹھ کرصبح یاشام کاکھانا بھی کھالیں ،آپ کاہمیشہ کامعمول تھاکہ نمازتہجدسے فارغ ہوکر نمازصبح سے قبل جملہ اوراد و وظائف سے فارغ ہولیتے ،نمازصبح ادا فرماتے اور درس وتدریس یامطب کاسلسلہ شروع ہوجاتا۔ سات آٹھ بجے تک بمشکل فارغ ہوکرآپ عدالت شریعت تشریف لے جاتے۔ بارہ بجے واپس مکان تشریف لاتے اور کھاناتناول فرماتے۔ پھرتھوڑا آرام فرما کرنماز ظہرادا کرتے۔ کبھی درسی انہماک ہوتا تو کھانا بھی باہر منگوالیتے اور درس دیناشروع کر دیتے۔ کھانابھی کھارہے ہیں اور پڑھاتے بھی جارے ہیں۔ نماز ظہرکے بعدپھر اسباق کا سلسلہ شروع ہوجاتا جو عشاء تک جاری رہتا، اور اس درمیان میں صرف نمازوں کے لئے اٹھناپڑتا۔ شام کا کھانا بھی آپ اکثر پڑھاتے میں باہر تناول فرماتے۔ عشاء کی نماز کے بعد اکثرجلدسوجانے کے عادی تھے لیکن کبھی اسباق کی کثرت بعد عشاء بھی پڑھانے پرمجبور کردیاکرتی تھی۔ پھرآپ کی یہ مصروفیت اور یہ انہماک ہفتہ عشرہ یا مہینہ دومہینہ کانہیں تھا بلکہ آپ نے دائمی طورپر ہمیشہ پڑھانے میں ایسی مصروف زندگی گزاری اور کبھی آپ بددل یا تنگ دل نہیں ہوئے۔

آپ کی مصروفیت اور اسباق کی کثرت آپ میں مزید ولولہ پیداکرتی تھی۔آپ کے دل میں استعداد پیداکرنے کاایک جذبہ تھا، آپ میں ایک لگن تھی ایک چٹک تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگ بنیں اور کسی قابل ہوجائیں۔ پھراللہ نے آپ کے پڑھانے میں برکت بھی ایسی ہی دی تھی ۔ جس نے بھی کچھ آپ سے پڑھا اسے ضرور کچھ نہ کچھ حاصل ہوا اور وہ ضرور کسی قابل بنا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگردوں کا حلقہ بڑا وسیع ہے اور ایک جال ہے جو شہر اور بیرون شہر میں پھیلاہواہے۔ ملازمت کے سلسلہ میں آپ کاقیام چھبڑہ میں صرف دوسال رہا۔ وہاں کے ماحول کے لحاظ سے عربی وغیرہ کے طلباء وہاں نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی آپ نے اردو فارسی کے اسباق میں وہاں کے بچوں اور بڑوں کو گھیر لیا اور دو سال کی قلیل مدت میں اتنے لوگوں کوپڑھایاکہ آج تک چھبڑہ کے لوگ تعجب کیاکرتے تھے۔ وہاں کاہرشخص آپ کاشاگرد نظرآتاہے۔ جس کسی نے اس دور میں آپ سے وہاں کچھ پڑھ لیا وہ کسی قابل بن گیا اور اچھے اچھے عہدوں پرفائز ہوا۔

طلباء کے ساتھ ہمدردی وتعاون کایہ حال تھا کہ گھرمیں ایک ایک کتاب کے دو دو چار چار نسخے فاضل مہیارکھتے تھے۔ اور جس طالب علم کو جس کتاب کی ضرورت ہوتی بغیرکسی تامل اور بغیر کسی صلہ کے عنایت فرمادیاکرتے تھے۔ درسی کتب پر ہی موقوف نہ تھا، نادر ونایاب کتابیں تک آپ بآسانی لوگوں کودے دیاکرتے تھے۔ متعدد بار آپ کونقصانات برداشت کرناپڑے اور بعض نایاب کتابیں بھی ضائع ہوئیں لیکن آپ ا س سلسلہ میں اس قدر وسیع القلب واقع ہوئے تھے کہ آپ نے پھربھی کبھی کوئی کتاب نہیں روکی۔ آپ ہمیشہ فرمایاکرتے تھے جو شخص علم کے سلسلہ میں بخل کرتا ہے اس کی اولاد سے علم جاتارہتا ہے ۔ علوم کے سلسلہ میں بخل نہ کرنا تو زیادہ حیرت ناک بات نہیں، طبی سلسلہ میں بھی اسی فراخ دلی سے کام لیاکرتے تھے۔ آپ کے مطب میں معمولات کاکوئی نسخہ کبھی پوشیدہ نہیں رہا۔ آپ کبھی نسخہ بتانے میں تامل نہیں کیاکرتے تھے ۔ ہر کس وناکس نے جونسخہ طلب کیا ، آپ نے فوراً لکھوادیا۔ اس طرح آپ کے مطب میں کوئی نسخہ رموز واسرار میں نہیںتھا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے