تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مطب:

قاضی صاحب مرحوم جس طرح دیگرعلوم میں حکیم برکات احمدصاحبؒ کے شاگرد تھے اسی طرح فنون طبیہ میں بھی آپ کوحکیم صاحب ہی سے تلمذ کاشرف حاصل ہوا۔ طبی کتب سے فراغت کے بعدجب آپ نے عملی تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے حکیم صاحب کے مطب میں بیٹھناشروع کیا تو حکیم صاحب نے مشق شروع کرادی اور آپ کومطب کرایا، جس ڈھنگ سے مطب کرایا وہ بھی عجیب وغریب اور افادیت کے لحاظ سے مفید ترین طریقہ تھا۔ مثال کے طورپر سر کے امراض سے مطب شروع کیا گیا اور مرض سرسام کانسخہ تجویزہوا۔ اسی ایک نسخہ میں حذف واضافہ کرتے ہوئے سر سے لے کرپیرتک کے امراض اور ان کے علاج اس خوبی کے ساتھ بتائے گئے ہیں جنہیں ایک ماہرفن ہی بیان کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مطب میں حاضری کے وقت جومریض آتے ان کے امراض کی تشخیص کرائی جاتی تاکہ مکمل تربیت حاصل ہوجائے۔ اپنا خاندانی مطب جو ’’کالی بیاض‘‘ کے نام سے مشہو رہے اس کے نقل کرلینے کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ بھی نسخہ تجویزکرتے وقت حکیم صاحب کبھی کبھی فرمادیاکرتے  قاضی جی ! یہ نسخہ لکھ لو۔ آپ ایسے نسخہ ایک علیحدہ بیاض میں نقل فرمالیتے۔

  بحمداللہ کالی بیاض مذکورہ بالا طریق مطب اور نسخہ جات معمولہ کے یہ مجموعے اب تک محفوظ او رمعمول مطب ہیں۔ ان تمام تکمیلات کے بعد حکیم صاحب نے ۲۰؍رمضان المبارک ۱۳۴۵؁ھ مطابق ۱۹۲۷؁ء کو قاضی صاحب مرحوم کو سند طبابت عطافرمائی۔ یہ سند بھی محفوظ ہے۔

آپ حکیم صاحب کی حیات میں آخروقت تک ان کے مطب میں حاضر رہے اور تجربہ وتربیت حاصل فرماتے رہے۔ حکیم صاحب مرحوم کی وفات کے بعدبھی آپ نے علیحدہ مطب شروع نہیں کیا بلکہ حکیم سید ظہیرالدین صاحب کے مطب میں بیٹھنا شرو ع کردیا۔ حکیم صاحب موصوف عدالت شریعت میں ناظم تھے اور قاضی صاحب ایک مفتی کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ اس طرح آپ برسوں حکیم ظہیرالدین صاحب کے مطب میں بیٹھے۔ حکیم صاحب بھی آپ کواپنامخلص اور محبوب شاگردسمجھاکرتے تھے اور ایک حاکم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک شفیق استاد کی حیثیت سے آپ کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ قاضی صاحب نے بھی ہمیشہ اس تعلق کونبھایا اور خود مکمل طبیب ہی نہیں بلکہ طبیب گرہونے کے باوجود کبھی علیحدہ مطب کرنے کا ارادہ تک نہیں کیا۔ حکیم صاحب کی پینشن ہوجانے اور عدالت شریعت سے تعلق ختم ہوجانے کے بعدبھی آپ نے مطب میں حاضری کاسلسلہ منقطع نہیں فرمایا بلکہ روزانہ علی الصباح مطب میں حاضرہوتے رہے وہاں سے فارغ ہوکر آپ عدالت شریعت تشریف لے جایاکرتے تھے ۔ حکیم ظہیرالدین صاحب کابھی طریق مطب یہی رہا ہے کہ امراض کی تشخیص کرارہے ہیں۔ موقع بموقع ضروری ہدایت دے رہے ہیں۔ تجویز کے طریقے سکھارہے ہیں ۔ تشخیص مرض کے بعداکثرحکیم صاحب مجوزہ نسخہ کاحوالہ دے دیتے یاتیزی سے نسخہ کے اجزاء بتادیتے اور آپ نسخہ لکھ کر پیش کردیاکرتے تھے۔

قاضی صاحب مرحوم حکیم برکات احمدصاحب کی طرح حکیم ظہیرالدین صاحب کوبھی اپناشفق استاد سمجھتے اور بڑے خلوص اور عقیدت مندی کے ساتھ پیش آتے۔ حکیم صاحب بھی آپ کو ہمیشہ اچھی نگاہ سے دیکھتے اور آپ سے بڑی محبت فرمایاکرتے تھے ۔ قاضی صاحب اگرچہ شریعت میں مفتی تھے اور حکیم صاحب ناظم شریعت، لیکن جانبین کاتعلق کبھی اس نوعیت کانہیں رہا۔ قاضی صاحب اپنے ایک استاد کی حیثیت سے موصوف کی خدمت میں حاضررہتے اور حکیم صاحب بھی ہمیشہ اپنے ایک شاگرد رشید کی حیثیت سے آپ سے محبت فرمایاکرتے تھے۔ بلکہ جانبین میں اس سے کہیں زیادہ شدید تعلق تھا جس کے آثار دونوں میں نمایاں طورپرنظرآتے تھے۔

اس تعلق کااندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے کہ حکیم ظہیرالدین صاحب کاانتقال ہوجانے کے بعدجب قاضی صاحب مرحوم ناظم شریعت ہوگئے اور آپ اپنے مکان پرمستقل طور سے مطب فرمانے لگے تو ایک روز محلہ چھائونی کی رہنے والی ایک عورت خدمت میں مکان پرحاضرہوئی۔ آپ حسبِ معمول درس دے رہے تھے ، عورت آکلہ کی مریض تھی۔ مرض شدت اختیارکرچکاتھا۔ ایک گال میں سوراخ ہوگیاتھا اور دانت باہر سے نظرآتے تھے ۔ مریضہ نے عرض کیا کہ میں زمانۂ دراز سے اس مرض میں مبتلا ہوں اور حسبِ حیثیت اس کاعلاج بھی پوری طرح کراچکی ہوں۔ آج میں نے خواب میں دیکھاہے کہ حکیم ظہیرالدین صاحب مجھ سے فرمارہے ہیں کہ علاج کے لئے مولوی عرفان صاحب کے پاس کیوں نہیں جاتیں ۔ لہٰذا میں بڑی امیدیں لے کرخدمت میں حاضرہوئی ہوں ۔ حاضرین جلسہ نے تعجب کیااور خود قاضی صاحب بھی بڑے متاثرہوئے۔ حکیم صاحب مرحوم آکلہ کے سلسلہ میں حبّ پان خاص طور پر استعمال کرایاکرتے تھے ۔ آپ نے بھی وہی گولیاں تجویز کیں اور استعمال شروع کرادیا۔ دوہفتہ کے استعمال سے نمایاں فائدہ نظرآیا۔ عورت حاضرہوئی تو زخم کافی بھرچکاتھا۔ استعمال مزیدجاری رہا اورتھوڑی ہی مدت میں زخم بالکل مندمل ہوگیا۔ اندمال کے بعد بھی گال پر زخم کاگڑھانمایاں طورپرنظرآتاتھا۔ اس طرح عورت مذکورہ شفایات ہوگئی اور عمربھر دعائیں دیتی رہی۔

۱۲؍جولائی ۱۹۳۹؁ء کو حکیم ظہیرالدین صاحب کاانتقال ہوگیا تو دوسرے ہی روز شہر کے مریض جوق در جوق قاضی صاحب مرحوم کے مکان پر حاضرہوناشروع ہوگئے ۔ اور اس طرح آپ نے اپنے مکان پر مطب کرناشروع کردیا۔ شہر کے سب لوگ آپ سے اور آپ کے طبی تعلق وتجربہ سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے۔ اس لئے آپ کو کسی قسم کاطبی تعارف کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ نواب سعادت علی خاں بھی تعزیت کے سلسلہ میں حکیم ظہیرالدین صاحب کے مکان پرتشریف لائے تو قاضی صاحب سے فرمایا کہ اب آپ ان کی جگہ مطب کیاکریں گے۔ نیزنواب صاحب نے ریاست کے گزٹ ۱؎  میں بھی آپ کے طبی رجسٹریشن کاباقاعدہ اعلان کرادیا۔

یہ وہ دور تھا جب کہ اطباء امراض کی تشخیص کرکے صرف نسخہ لکھتے اورمریض کے حوالے کردیاکرتے تھے۔آپ نے بھی اسی طرح مطب کاسلسلہ جاری رکھا اور کامیاب طریقہ پر مطب فرماتے رہے آپ کے ہاتھ میں منجانب اللہ شفا تھی ۔ سیکڑوں ہندومسلمان آپ سے اور آپ کے فن سے استفادہ کررہے تھے آپ کی شخصیت چونکہ شہرکی مقبول ترین شخصیت تھی اس لئے کبھی کسی کوآپ کے پاس حاضرہونے میں تامل نہیں ہوتاتھا۔ آپ تک پہنچنے میں کسی سہارے یاوسیلے کی ضرورت نہیں تھی۔ عورتیں اور بچے تک اکثروبیشتر خود آجاتے اور آپ خوش دلی کے ساتھ انہیں دیکھتے اور نسخہ تجویزفرمایاکرتے تھے۔

پینشن ہوجانے کے بعدچوں کہ عدالت شریعت سے تعلق ختم ہوگیاتھا اس لئے آپ نے مطب کے ساتھ ساتھ ایک مختصر دواخانہ بھی قائم کرلیا۔ ۱؎  جس کاسلسلہ آخر عمر تک جاری رہا۔ اور مریض صحیح اور خالص ادویہ حاصل کرکے اس سے استفادہ کرتے رہے۔ دواخانہ کاقیام کسی نفع یافائدہ کی خاطر ہرگز نہیں تھا بلکہ عدالت سے سبکدوش ہوجانے کے بعد ایک مشغلہ تھاجو آپ نے اپنے لئے پیداکیا ۔ طبی اور علمی خدمات کے سلسلہ میں آپ کاعمل اپنے والدصاحب مرحوم کے اس شعر پرتھا۔

طب سے ہے مقصود علم وخدمت خلق خدا

نے تفاخر نے امیروں کا تقرب مدعا

آپ بہمہ وجود اس پرعامل تھے او راپنے طرز عمل سے عملاً ثابت کردکھایا کہ مخلوق کی اس طرح خدمت کی جاتی ہے۔

درس نظامیہ کے طلبا ء کے علاوہ جو طلباء طبی سلسلہ میں آپ سے تعلق رکھتے، درسی کتب کے علاوہ آپ انہیں مطب میں حاضر رکھ کر پوری تربیت دیتے اور کوشش فرماتے کہ یہ لوگ عملی کام میں زیادہ سے زیادہ ملکہ پیداکرسکیں۔ان سے تشخیص کراتے، امراض کی مختلف کیفیات کی طرف وقتاً فوقتاً عملی رہبری فرماتے، تجویز کے طریقے سکھاتے تاآنکہ وہ لوگ خود بخود تشخیص وتجویز کے اہل ہوجاتے۔

مشتے بنمونہ خروارے مولوی حکیم احمدحسن خاں صاحب مفتی انہی کے شاگردوں میں سے ایک لائق وفائق شاگرد ہیں جن پر والدصاحب مرحوم بھی اکثرفخرفرمایا کرتے تھے۔ موصوف نے علوم عربیہ کی تکمیل کے بعد، فنون طبیہ کی تکمیل بھی قاضی صاحب مرحوم سے کی۔ پھرآپ ہی کے مطب میں بیٹھ کرعملی کام میں بھی مہارت تامہ حاصل کی اور اب ایک طویل عرصہ سے رام گنج بازار جے پور میں ’’عرفانی دواخانہ‘‘ قائم کرکے ماشاء اللہ نہایت کامیاب مطب کررہے ہیں۔ قبلہ مرحوم اکثروبیشتر ہرسال جے پور تشریف لے جاتے اور اپنے ہونہار سعیدشاگردکی صلاحیت، عوام وخواص میں مقبولیت اور مطب کی کامیابی دیکھ کر بے پناہ مسرت محسوس فرمایاکرتے تھے اور مزیدپھلنے پھولنے اور ترقی کے لئے دعائیں فرماتے تھے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے