تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

دیگرمشاغل:

ملازمت اور طبی ودرسی مشاغل کے علاوہ دوسرے تمام دینی کاموں میں بھی آپ بڑی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔ مدارس ومساجد کے انتظام میں ہمیشہ آپ کی خدمت حاصل کی جاتی تھی۔ مدرسہ فرقانیہ ٹونک کے قیام میں آپ کی حیثیت بنیادی رکن کی تھی او ر آپ مدرسہ کے مؤسسین میں سے تھے۔ قیام مدرسہ سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک آپ نے اس کی خدمت کی۔نازک ترین مواقع پر بھی آپ نے ہمت نہ ہاری بلکہ مدرسہ کی بقاء وبہبود کے لئے ہرحال میں امکانی کوششیں اختیارکیں۔ اس سلسلہ میں اگر دامن پھیلاکرمانگنے کی ضرورت پڑی ہے تواس میں بھی آپ کوتامل نہیں ہوا ہے۔

زمانۂ نظامت میں چونکہ اوقاف کاتعلق بھی عدالت شریعت سے تھا اس لئے آپ تمام مساجدکی نگرانی فرماتے۔ سب کی ضروریات کاخیال رکھتے اور حتی الامکان سب کوسہولت پہنچانے کی کوشش فرماتے۔ آپ کی آبائی مسجد مکان کے قریب ہی مولوی محمدصاحب مفتی کی تعمیر کردہ مختصرسی مسجد ہے اس کو وسعت دینے اور اس میں حوض تعمیر کرانے کے سلسلہ میں آپ نے انتھک کوشش فرمائی۔ اہل خیرحضرات نے تعاون۱؎ کیا اور ۱۳۵۸؁ھ  مطابق ۱۹۳۹؁ء میں مسجد کاحوض ومدرسہ کی عمارت تعمیرہوکر نمازیوں کی سہولت کے اسباب پیداہوئے۔

امراض کے حملے :

طالب علمی کے زمانہ سے لے کرزندگی کے آخری لمحات تک آپ نے پورے انہماک کے ساتھ مصروف زندگی گذاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنابھی بیجا نہیں ہے کہ آپ پوری عمر دائم المریض رہے۔ابھی آپ کی عمرپندرہ سال کی تھی، سوداوی امراض نے آپ پر حملے شروع کردیئے۔ مرض کا اس قدرغلبہ تھا کہ جذام یاناصو رہوجانے کاخطرہ نظرآنے لگا۔حکیم برکات احمدصاحب نے مسہل دیا۔ مرض میں بڑا افاقہ نظرآیا۔ مگر کچھ شکایات جاری رہیں۔ اسی وقت سے بائیں پیرکی ایڑی میں ایک زخم پیداہوگیا جس نے ناصور کی شکل اختیار کرلی۔ اس طرح بچپن سے لے کرآخرعمرتک یہ ناصورقائم رہا۔ آپ کی صحت اسی میں تھی کہ مذکورہ زخم جاری رہے۔ جب کبھی اس میں رکاوٹ پیداہوتی تو دوسرے شدید قسم کے عوارض پیداہوجایاکرتے تھے۔ متعدد بار دیکھاگیا ہے کہ رکاوٹ کے وقت خود آپ کو اپنے ہاتھ سے مذکورہ زخم چاقو سے چیرناپڑا ہے تاکہ جاری ہوجائے۔ ناصور کی وجہ سے آپ کو چلنے پھرنے میں بڑا تکلف ہوتا تھا۔ مگر اسی حالت میں آپ نے تعلیم حاصل کی، خود پڑھا، دوسروں کوپڑھایا، ملازمت کی مدت اسی تکلیف میں گذاری۔ غرض بچپن ،جوانی ،کہولت، بڑھاپا سب زخم کی اسی تکلیف میں گذرے اور آپ برداشت کرتے رہے۔ زخم کاگہرائو دوانچ تک رہا ہے۔

شدت کایہ حال تھا کہ پائوں کی ہیئت تبدیل ہوگئی تھی اور آپ پوری طرح پائوں زمین پر جما نہیں سکتے تھے۔

 ۱۳۶۲؁ ھ مطابق ۱۹۴۳؁ء میں آپ مرض اسہال میں مبتلا ہوئے اور سخت مبتلا ہوئے۔ مرض کاسلسلہ تقریباً چار چھ ماہ تک جاری رہا۔ اس درمیان میں آپ کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی تھی اور صحت کی کوئی توقع باقی نہیں رہی تھی۔ کمزوری کایہ حال تھا کہ ناک پر روئی رکھ کردیکھا کرتے تھے کہ ابھی آپ زندہ ہیں یانہیں۔ ایک روز تو شہر میں انتقال کی خبرِ بد بھی مشہور ہوگئی۔ سرونج اور چھبڑہ تک یہ خبر پہنچ گئی اور وہاں مغفرت کی دعائیں کی گئیں۔ شافی حقیقی کی شان ہے کہ اس نے شفا عطافرمائی اور آہستہ آہستہ آپ نے اس مرض سے صحت حاصل کی۔ صحتیاب ہونے پر سرونج سے ایک مرثیہ موصول ہوا۔ جومولوی عبدالرحمٰن صاحب مفتی نے انتقال کی خبرملنے پرلکھاتھا۔آپ نے یہ مرثیہ ایک قلمی کتاب میں اسی نوٹ کے ساتھ نقل کرادیا۔ درمیان میں کبھی کسی سے اس مرض کاذکرآتا تو فوراًکتاب منگوا کر اپنامرثیہ سنواتے اور خود بھی سن کرمحظوظ ہواکرتے تھے۔ یہ مرثیہ قطعات ومراثی کے ساتھ آخر میں درج ہے۔

  ۱۳۷۳؁ھ مطابق نومبر ۱۹۵۳؁ء میں آپ پرفالج کاپہلاحملہ ہوا۔ آپ ایک مریض کے علاج کے سلسلے میں رام گنج منڈی تشریف لے گئے تھے ۔ واپسی میں مادھوپور کے اسٹیشن پر کیلے کھانے میں آئے۔ مادھوپور اور نوائی کے درمیان سیدھے پیراور سیدھے ہاتھ پراثرہوگیا اور شدیداثرہوا۔ گھر پہنچ کر ہر دواعضاء کی حرکت بالکل جاتی رہی۔ آپ نے حسب قاعدہ ایک ہفتہ کافاقہ لیا۔ ماء العسل استعمال فرمایا۔ فاقہ کے آخری ایام میں افاقہ کے آثار نظر آنے لگے۔ پھرحسب قاعدہ منضج ومسہل کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ اللہ نے فضل فرمایا۔ ہاتھ اور پیر دونوں کام کرنے لگے۔ لیکن اعضاء میں کمزوری پیداہوجانے کی وجہ سے آپ کو چلنے پھرنے میں تکلف ہوتاتھا۔ بایاں پیرزخم کی وجہ سے پہلے سے معذور تھا۔ دایاں پیر فالج کی وجہ سے مائووف ہوگیا۔

 ۱۳۸۰؁ھ مطابق جنوری ۱۹۶۰؁ء میں آپ پر فالج کادوسرا حملہ ہوا۔ اس مرتبہ زبان پر زیادہ اثر ہوا جس کی وجہ سے بات نہیں کی جاتی تھی اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بمشکل سمجھنے میں آتے تھے۔ علاج کے سلسلہ میں پھروہی تدبیرکی گئی ۔ منضج ہوا مسہل لیا۔ مرض میں کمی ہوگئی۔ لیکن زبان پر اثرات ضرور باقی رہے۔ جس کی وجہ سے آپ کوبات کرنے میں تکلف ہوتاتھا اور یہ کیفیت آخر عمر تک باقی رہی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے