تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

صدمات:

امراض کے ان گوناگوں اور پے درپے حملوں کے علاوہ زندگی میں صدمات بھی آپ کوبرداشت کرنے پڑے ہیںجس کی وجہ سے آپ بہت جلد بوڑھے ہوگئے۔ سب سے پہلے ۱۳۲۸؁ھ مطابق ۱۹۱۰؁ء میں جب کہ آپ کی عمر صرف ۲۰ سال کی تھی آپ نے مرض طاعون کی ہولناکیاں دیکھیں۔ آپ کا گھر بھی اس مرض کاگھرتھا۔ گھر کے تمام افراد مرض میں مبتلا تھے اور تنہا آپ سب کی تیمارداری میں لگے ہوئے تھے ۔ چنانچہ ایک ماہ کے اندر چند روز کے وقفہ سے آپ کے والدصاحب ،والدہ صاحبہ، نانی، بہن ، بھائی اور دیگر عزیزوں کا انتقال ہوگیا۔ گھرکے اکثر افراد ایک ایک کرکے چندروز میں ختم ہوگئے۔ یہ آپ ہی کا دل گردہ تھا کہ آپ نے یہ صدمات برداشت کئے ۔ بھلاوہ گھرجو آدمیوں سے بھرا پڑاہو، ہفتہ عشرہ میں اس کی یہ حالت ہوجائے کہ اس میں تالا لگانا پڑے، کون برداشت کرسکتا ہے ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ابھی ایک میت کودفن کرکے آئے ہیں کہ دوسرے مریض کی حالت خطرناک نظرآتی ہے۔ اس کابھی انتقال ہوجاتا ہے کہ تیسرا مریض چلتا نظرآتاہے۔ پھرکوئی باپ ہے تو کوئی ماں، کوئی بھائی ہے تو کوئی بہن، اللہ اکبر!  یہ جوانمردی کہ آپ نے نہایت استقلال وپامردی کے ساتھ اس نازک موقع پر استقامت دکھائی اور تمام صدمات بڑی ہمت کے ساتھ برداشت کئے۔ آخرعمرمیں آپ کواولاد کے صدمات برداشت کرناپڑے۔ ۱۹۵۰؁ء میں آپ کی بڑی صاحبزادی آمنہ بیگم کا انتقال ہوا۔ ۱۹۵۵؁ء میں آپ کی دوسری دختر عزیزہ بیگم کا بھی انتقال ہوگیا۔ اول الذکرنے ایک پسر اور ثانی الذکر نے دو پسر وتین دختران یادگار چھوڑے جوموصوف کی تسکین کے سہاراتھے۔ آپ نے بڑی مردانگی کے ساتھ اولاد کے یہ صدمات بھی برداشت کئے۔

مرض الموت:

امراض کے ان حملوں اور صدمات کے اس تسلسل نے آپ کو قبل از وقت بوڑھا بنادیا۔آپ معذور نظرآنے لگے۔ نظرچلے جانے کی وجہ سے نفسیاتی طورپر آپ بڑا اثر محسوس ہوتاتھا۔ اس لئے آنکھ کے آپریشن کاارادہ کیا۔ بیس سال قبل ۱۳۶۱؁ھ مطابق ۱۹۴۲؁ء میں ایک آنکھ پر عمل قدح کیاجاچکاتھا اور وہ اس وقت سے بیکار تھی۔ ۵؍نومبر ۱۹۶۱؁ء کوجے پور میں دوسری آنکھ کاآپریشن ہوا۔ اس میں بھی خاطرخواہ روشنی پیدانہ ہوسکی۔ کمزور پہلے سے تھے آپریشن کے بعدمزیدکمزوری کے آثارنظرآنے لگے۔ خود بھی فرمایاکرتے تھے کہ اب تو کمزوری غالب ہوتی  نظرآتی ہے۔ وفات سے قبل کوئی ایسا مرض پیدانہیں ہوا جو واقعتا مرض الموت کہلایا جاسکے۔ انتقال سے دس روز قبل دست ضرور آگئے تھے اور کچھ پیچش کی شکایت تھی۔ دو تین روز میں طبیعت ٹھیک ہوگئی۔ لیکن کمزوری کے اثرات بدستور باقی تھے اور پہلے سے زائد تھے۔

سانحۂ ارتحال :

قاضی صاحب مرحوم جس طرح کے بلندپایہ، صحابی صفت انسان تھے۔ آپ کی موت بھی ایسے ہی شاندار طریقہ پر واقع ہوئی۔آپ کی وفات کا سانحہ، قابل عبرت اور سبق آموز ہے۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ آپ موت کے لئے تیار ہوگئے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کے مدارج طے فرمارہے ہیں۔

وفات سے دوروز قبل ۴؍اپریل ۱۹۶۲؁ء کو نمازظہرسے فارغ ہوکرآپ نے آہ کے ساتھ دو ایک سانس لئے۔ میری والدہ محترمہ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا،کچھ نہیں۔ اس کے بعدسے غیرمعمولی کمزور نظرآنے لگی۔ بعدمغرب حسب معمول کھاناتناول فرمایا۔ امرود کابڑا شوق تھا ایک یا دو امرود کھائے۔ عشاء کی نمازسے فارغ ہوتے ہوتے کمزوری میں کافی اضافہ ہوچکاتھا۔ جواہرمہرہ دن میں دیاجاچکاتھا ،معجون طلائی کی ایک خوراک استعمال کرائی گئی۔ آپ آرام فرمانے لیٹ گئے۔ میں خدمت میں برابر حاضرتھا۔ میں بھی برابرپلنگ پر سوگیا۔ صبح چار بجے خود آواز دے کرمجھے اٹھایا اور فرمایاکہ نماز فجر اداکرنا ہے ۔ میں نے بیدار ہوکردیکھاتو کمزوری خطرناک شکل اختیارکرچکی تھی ۔چنانچہ آپ کونماز کے کپڑے پہنائے گئے اور برابر چوکی پرنماز کے لئے بٹھایاگیا۔ بمشکل آپ نے تیمم کیا اور صبح کی سنتیں ادا کرنا شروع کردیں ضعف زیادہ ہونے کی وجہ سے میں نے سینہ کاسہارا دیا او ر آپ نے شعور کے ساتھ صبح کی سنتیں ادا فرمائیں۔ پھرفرضوں کی نیت باندھی۔ ایک رکعت ادافرماچکے تھے کہ ضعف کاغلبہ پوری طرح ہوگیااور ایک غفلت سے نمودار ہونے لگے۔ تھوڑی دیرانتظار کے بعدآپ کوپلنگ پرلٹایاگیا تو مجھ سے فرمایا صبح کی نماز ادا کرکے جلدی آجائو۔ جماعت ہورہی تھی نماز پڑھ کرحاضرہو اتو آواز دے کرسینہ سے لگایا اور متاثرہونے لگے۔ پھربچوں کوبلایااور سینہ سے لگایا۔ اسی رقت کے عالم میں ہمیشہ کے لئے غشی طاری ہوگئی۔ یہ واقعہ ۵؍اپریل ۱۹۶۲؁ء روز پنچشنبہ صبح سات بجے کاہے۔

غشی میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہاتھا۔ مولوی احمدحسن صاحب مفتی کو اسی روز جے پور سے بلوالیاگیا۔ اس وقت تک صرف اس قد رشعور باقی تھا کہ آواز دینے پرپانی یادوا کے لئے منہ کھول دیاکرتے تھے ۔ رات میں سانس پر کافی تیزی ہوگئی ۔ دو رات اور ایک دن اسی تنفس کے عالم میں گذرے اور ۷؍اپریل ۱۹۶۲؁ء مطابق یکم ذیقعدہ ۱۳۸۱؁ھ روز شنبہ کو ٹھیک دس بجے صبح آپ نے اس دارفانی سے رحلت فرمائی۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

جانکنی شرو ع ہونے پرہی سانس کی رفتار میں کافی اضافہ ہوچکاتھا اور اس حالت پر ۳۶ گھنٹے گذرچکے تھے۔ موت سے چندلمحے پہلے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ حافظ حاجی سید سعیدالدین احمدصاحب  پیش امام مسجد علی گڑھ سرہانے بیٹھے تلاوت فرمارہے تھے ۔ میں اور آپ کے شاگرد رشید حکیم احمدحسن خاں مفتی بھی کمرہ میں حاضر تھے۔ حافظ صاحب نے سورۂ یوسف کی تلاوت شروع کردی۔ جب موصوف اس آیت پرپہنچے  انت ولییٖ فی الدنیاوالاٰخرہ توفنی مسلماً وألحقنی بالصٰلحینo قاری کی زبان سے ان الفاظ کانکلنا تھا کہ فوراً آپ کی روح نے جسم خاکی سے آزادہوکر پروازاختیار کی۔ایک زور کی آواز ہوئی اور دیکھاگیا تو روح پرواز کرچکی تھی چنانچہ سیدھا لٹادیاگیا اور چادراوڑھادی گئی۔

انتقال کے وقت عقدانامل جاری تھا۔غشی کے بعدپہلے روز ایسا محسوس ہوتاتھا کہ آپ ہر نماز کے وقت نماز کے لئے اٹھنے کی کوشش فرمارہے ہیں۔ مگرضعف وغشی کی بناء پرمعذور تھے۔ چنانچہ کل گیارہ نمازیں آپ کی قضاہوئیں۔ آپ کاانتقال شنبہ کوصبح ہوا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جمعہ کا دن ان تمام اوراد ووظائف کے ختم ہونے کادن تھا جو آپ ہمیشہ سے پڑھاکرتے اور معذورہوجانے کے بعدسے سناکرتے تھے۔ یہ دور چوں کہ ماہانہ چلاکرتاتھا اس لئے ۳۰؍شوال کوتمام وظائف ختم ہوئے اور یکم ذی قعدہ کوآپ کاانتقال ہوگیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے