تجہیز وتکفین:
جوں ہی آپ کے انتقال کی خبر پھیلی شہرمیں ایک کہرام مچ گیا ۔ بیماری کی خبر ہی سے لوگوں میں ایک عجیب قسم کی بے چینی نظرآرہی تھی۔وفات کی خبر عام ہوتے ہی لوگوں پرایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ ہرخاص وعام، امیروغریب، عورت ومرد غمگین نظر آتاتھا۔ نما زظہرمیں شرکت کااعلان کیاگیا۔ غسل میں نے دیا۔مولوی عبدالحفیظ صاحب مفتی ۱؎ اور مولوی احمدحسن خاں صاحب مفتی نے بھی غسل میں شرکت فرمائی ۔ ٹھیک ایک بجے غسل سے فراغت ہوکر جنازہ تیار تھا کہ نواب صاحب ٹونک تشریف لے آئے۔ چہرہ ملاحظہ فرمایا۔ رنج وملال کااظہارکیا اور اجازت لے کرواپس تشریف لے گئے۔ جنازہ جامع مسجد پہنچا ۔ نمازظہرسے فارغ ہوکر جامع مسجد کے میدان میں نماز جنازہ اداکی گئی۔ نماز جنازہ کے لئے امامت کاشرف بھی مجھے ہی حاصل ہوا۔ لوگوں کے اصرارپروہیں چہرہ دکھایاگیا۔ گورستان موتی باغ کی طرف جنازہ روانہ ہوا ہے تو اژدحام کایہ حال تھا کہ سڑک پرچلنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ لوگوں کی کثرت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ جامع مسجد سے لے کرگورستان تک مجھے چاروں گوشوں پر کاندھا دینے کاموقع نہ مل سکا۔ گورستان موتی باغ میں اپنے جدامجدمولانا محمدصاحب مرحوم کے احاطہ میں ظہرعصر کے درمیان دفن کیاگیا۔ قرآن خوانی وفاتحہ خوانی کاسلسلہ شروع ہوگیا اور تین روز تک جاری رہا۔
تاثرات :
انتقال کی خبرملتے ہی شہرکے مدارس میں تعطیل کردی گئی تھی۔ دوسرے روز صبح دارالعلوم خلیلیہ میں اور تیسرے روز مدرسہ فرقانیہ میں قرآن خوانی اور تعزیتی جلسے ہوئے۔ چوں کہ آپ کے تلامذہ اور تعارف والوں کاحلقہ بہت وسیع تھا اس لئے جہاں جہاں انتقال کی اطلاع پہنچی مدارس میں قرآن خوانی ہوئی۔ دعائیں کی گئیں اور ایصال ثواب کیاگیا۔ جنوبی افریقہ تک سے جوتعزیتی خطوط وصول ہوئے ہیں ان سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہاں بھی آپ کے شاگردوں نے اسی پرعمل کیا۔
پاکستان کے اخبارات میں جب آپ کے انتقال کی خبر شائع ہوئی تو قلق وتاسف کی ایک لہرپھیل گئی۔ بچہ بچہ جوٹھیک سے کچھ بھی تعلق رکھتاتھا یاآپ سے واقف تھا اس صدمہ سے متاثرنظرآتاتھا۔ ہرطرف زبانوں پرآپ کے چرچے تھے اور یہی تاثرتھا کہ آپ کی ذات پرٹونک سے علم وفضل کاخاتمہ ہوگیا۔
اہالیان شہرکے تاثرات بھی اسی قسم کے تھے۔ دوسرے علماء کابھی انتقال ہوا ہے لیکن آپ کی ہردلعزیزاورمقبول ترین شخصیت کے سانحۂ وفات پر ایک عام تاسف کی جولہراس موقع پردیکھی گئی ،شاذ ونادر ہی دوسرے مواقع پر یہ کیفیت نظرآئی ہے۔ ہر شخص پریاس وقنوطیت کی کیفیت طاری نظرآتی تھی اور ایسامحسوس ہوتاتھاکہ آج علم وفضل کاگہوارہ ٹونک سے جاتانظرآرہاہے۔