تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

اخبارا ت کے مضامین وتعزیتی خطوط:

سب سے پہلے روزنامہ الجمعیۃ دہلی مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۶۲؁ء میں آپ کے انتقال کی خبر شائع ہوئی۔ اسی میں دارالعلوم خلیلیہ ٹونک کے تعزیتی جلسہ کی مختصر روئداد بھی شائع کی گئی تھی۔ اس کے بعدروزنامہ دعوت دہلی کے سہ روزہ ایڈیشن مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۶۲؁ء میں اس خبر کی اشاعت ہوئی۔ ۱۵؍روزہ ترجمان دہلی مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۶۲؁ء میں بھی یہ خبر شائع ہوئی۔  مذکورہ اخبارات کے ذریعہ ملک کے گوشہ گوشتہ تک آپ کے انتقال کی خبر عام ہوگئی۔ تعزیتی خطوط کاسلسلہ جاری ہوگیا۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ علماء واہل عصر کی نظر میں کیامقام رکھتے تھے۔ خطوط کاذخیرہ محفوظ ہے۔ میں اگر چہ علیحدہ علیحدہ شکریہ کے خطوط نہیں لکھ سکا لیکن ان تمام حضرات کا تہہِ دل سے مشکور ہوںجنہوں نے حاضرانہ وغائبانہ تحریری وتقریری طورپر اس سانحۂ عظیم کے موقع پر میری ہمت افزائی فرمائی اور صبروطمانیت کی تلقین کی۔

ذی الحجہ ۱۳۸۱؁ھ مطابق ۱۹۶۲؁ء کے اواخر میں کریمی اسلامی بڑی تقویم ممبئی ۱۳۸۲؁ھ مطابق ۱۹۶۲؁ء شائع ہوئی تو مولاناحکیم مشتاق احمدخاںصاحب ٹونک مولف تقویم کاایک مختصرمگر نہایت جامع مضمون بھی صفحہ ۲۸ پر شائع ہوا۔ مولف تقویم قاضی صاحب مرحوم کے پھوپی زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن کے ساتھی بھی تھے اور ہمیشہ یکجہتی ،صدق دلی اور خلوص ومحبت کے ساتھ دونوںکی زندگی گذری ہے۔ مذکورہ مضمون کا ایک ایک لفظ اس تعلق کی نشاندہی کرتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف حقیقت میں مرحوم کے سچے رفیق تھے۔

روزنامہ ’’جنگ‘‘کراچی پاکستان مورخہ یکم جولائی ۱۹۶۲؁ء میں ’’ریاست ٹونک کا ایک جیدعالم’‘کے نام سے ایک طویل مضمون شائع ہوا جو پورے پاکستان کے لئے آپ کی خبر انتقال وآپ کے حالات معلوم ہونے کاذریعہ بنا۔ یہ مضمون میرے حقیقی چچامولانا حکیم خلیل الرحمٰن خاں صاحب صوفی نے شائع کیا۔ جو ایک طویل عرصہ سے ٹونک سے باہر قیام پذیر ہیں۔ مذکورہ مضمون میں بھی قاضی صاحب مرحوم پر تفصیلی تبصرہ کیاگیاہے۔

قطعات ومراثی:

تعزیتی خطوط کے ساتھ ساتھ آپ کے احباب وعقیدت مند حضرات نے آپ کے سانحۂ وفات پرنظمیں لکھیں ، مرثیے کہے اور قطعات ومادہ ہائے تاریخ مرتب کئے۔ ذیل میں یہ قطعات ومراثی تحریرکیے جارہے ہیں  :

بصرؔٹونکی

          مرقدمبارک پر کتبہ لگانے کے لئے حضرت بصرؔ نے یہ قطعہ مرتب کیا جس کے ہرمصرعہ میں تاریخ کی رعایت رکھی گئی ہے اور بڑی کاوش سے یہ قطعہ ترتیب دیاگیا ہے۔ کیوں نہیں، آخربصرؔصاحب ماشاء اللہ اپنے والدحافظ عبیداللہ صاحب بصیرمرحوم کے صحیح جانشین ہیں۔ جو تاریخ گوئی کے سلسلہ میں یکتا، قابلیت کے حامل او رہندوستان کے گنے چنے افراد میں سے تھے۔ قاضی صاحب مرحوم کے مزار کی لوح پر یہی قطعہ کندہ ہے۔ میں اس سلسلہ میں بصرؔصاحب کاتہہ دل سے مشکورہوں۔

قطعہ

قاضیِ شہر، فقیہِ قرآن

محسنِ خلق محمد عرفان

۱۹۶۲ء

۱۳۸۱ھ

عالم با عمل وخیر مرام

بے بدل شمع، ضیائے ایمان

۱۹۶۲ء

۱۳۸۱ھ

بے ریا، مہرِ فقہ بدرحدیث

عمدۃ الملک وچراغ یونان

۱۳۸۱ھ

۱۹۶۲ء

اے خدا تو ہے رحیم و ستار

۱۹۶۲ء

بخش دے جرم و قصور عرفان

۱۹۶۲ء

’’فکرپرملال بصرؔٹونکی ‘‘

۱۳۸۱ھ     

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے