تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

بسملؔ سعیدی

محترم عیسی میاں صاحب، بسملؔ سعیدی ٹونکی نے دہلی سے ذیل کی نظم ارسال فرمائی تھی جس میں موصوف نے مرحوم کی زندگی اور آپ کی خصوصیات کی صحیح ترجمانی کی ہے اور بہتر انداز میں کی ہے ۔ مرحوم کا بسملؔ صاحب سے بڑا تعلق تھا اور خاندانی تعلق تھا۔ قیام ٹونک کے زمانہ میں اکثر وبیشتر بسملؔ صاحب کوتکلیف دیتے اور دن رات نشستیں رہتیں۔ بسملؔ صاحب نے یہ نظم کہہ کر حق رفاقت ادا کیا ہے جس کے لئے میں بھی موصوف کامشکور ہوں۔

نظم

سنتے ہیں تاریخ دہراتی ہے جب اپنے ورق

حال بن کر سامنے آتا ہے عہد ماسبق

یعنی بزم دوش ہی فردا کی اک محفل بھی ہے

جس کو ہم ماضی سمجھتے ہیں وہ مستقبل بھی ہے

ختم ہوتی ہے یہاں ہر چیز ہونے کو شروع

آج ڈوبا ہے جو سورج کل وہ ہوگا پھر طلوع

ہر طرح کے واقعہ تاریخ کے دفتر میں ہیں

رنج وراحت عیش وغم سب وقت کے چکرمیں ہیں

ہونے والا رونما ہو چاہے کوئی انقلاب

شکل جو ہونے کو ہوتی ہے برافگندہ نقاب

صاف آثار و علامت اس کے ہوتے ہیں عیاں

جس طرح سورج سے پہلے صبح صادق کا سماں

زشت جب ہوتا ہو واضح ماند ہوجاتا ہے خوب

رات سے پہلے دھندلکا جس طرح قبل از غروب

ان شواہد ان قرائن کے اگر پیش نظر

ڈالتے ہیں اک نظر ہم کفر اور اسلام پر

اس طرح محسوس ہوتے ہیں یہ کعبہ اور کنشت

جیسے ہر اک ان میں دوش خوب ہو فردائے زشت

آج کعبہ ہے وہی پہلے جو اک بت خانہ تھا

اور بت خانہ سے پہلے جو خدا خانہ رہا

اب کچھ آثار وقرائن ہیں پھر ایسے آشکار

کر رہا ہے پھر وہ بت خانہ کی صورت اختیار

پھر ہے کچھ رد وبدل اوراق میں تاریخ کے

ہے چراغ کفر روشن طاق میں تاریخ کے

ہو رہا ہے نور پھر تبدیل جیسے نار میں

دانۂ تسبیح پھر ہیں رشتۂ زنّار میں

پھر اٹھے لات و ہبل کہہ کر کسی سے المدد

جو گرے تھے منہ کے بل کہہ کر ہو اللہ احد

پھر افق پر وقت کے اک ذرۂ بے آب وتاب

کہہ رہا ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب

ذکر کیا تہلیل کا خاموش ہے صحنِ حرم

قہقہوں کی گونج سے معمور ہے بیت الصنم

الحفیظ والامان  تبدیل ہیئت کاسمان

بتکدے کی شکل میں تحویل کعبہ الاماں

جیسے اک طوفان باد ادراک سفینہ کے خلاف

تھا سرار لرزشِ پیہم میں کعبہ کا غلاف

زلزلوں سے سینۂ ارض وسما ہوتا تھا شق

جیسے رحمت ہو سپر انداز پیش قہر حق

خوف جب حد سے بڑھا یاد خدا آنے لگی

ہر صدائے خوف اک اک سے جدا آنے لگی

جب مزاروں پر ادا ہوتی تھیں رسمیں کفر کی

ان مزاروں سے اب آواز اذان آنے لگی

اور کڑکتی بجلیاں جب بے امان ہونے لگیں

کلیر واجمیر میں قوالیاں ہونے لگیں

سر بسجدہ تھے ملک لرزش میں تھا عرشِ خدا

کفر سے اسلام نے جس وقت آمنا کہا

مدتوں سے ہو رہا تھا حق میں باطل کاشمول

رفتہ رفتہ کر رہا تھا کفر مسلم میں حلول

ایک دن ہونا ہی تھا اس قوم کا انجام کفر

روز و شب تھے کفران کے ان کی صبح وشام کفر

ان کا غم بھی کفر تھا ان کی خوشی بھی کفر تھی

زندگی بھی کفران کی، موت ان کی کفر تھی

یہ فراہم کر چکے تھے کفر کے اسباب سب

ہو چکے تھے ان پہ بند اسلام کے ابواب سب

ترکِ قرآن، ترکِ صوم وترکِ حج ترکِ صلوٰۃ

ترکِ کل اجزاء دین ان کا تھا معمولِ حیات

آج مقصد بھی کوئی دنیا میں کعبے کا نہ تھا

کیا رہا جو بے ضرورت ہو کے دنیا میں رہا

ہوچکا تھا عالم اسلام میں قحط الرجال

آج ہوں دنیا میں شاید ہی مسلمان خال خال

رہ گیا تھا ایک کعبے کا نگہباں ٹونک میں

مردِ حق اک پاسبانِ دین وایمان ٹونک میں

حق پناہ و حق پژوہ وحق پسند وحق پذیر

حق بیان و حق لسان وحق مزاج وحق ضمیر

زندگی اس کی سراسر حق کا اک پیغام تھی

ہر نفس تھا دین اس کا ہر نظر اسلام تھی

درد جس کا دین تھا اور جس کا درمان دین تھا

جس کی حسرت دین تھی اور جس کا ارمان دین تھا

مولوی عرفان خان قاضیِ حق مفتیِ دین

ان کے غم میں آنکھ نم ہے آج دل اندوہگیں

آہ وہ مجموعۂِ خوبی وخیرِ مستقل

ضبط خو اور حلم خصلت گرم خون اور نرم دل

عالمِ ادیان وابدان عابد ذات وصفات

دین ودنیا کے لئے تھی چشمۂِ فیض ان کی ذات

وہ فقیہ ومجتہد وہ صاحب فہم وذکا

منصب افتاء کی زینت مسند آرائی قضا

منع واستدلال ان کے روز کے معمول میں

تھے سند معقول میں اور مستند منقول میں

رہروانِ راہ دین کے حق میں تھے بے خوف وبیم

ان کا ہر نقش قدم خضر صراط مستقیم

متبع ایسے کہ راہ حق پہ چلتے سر کے بل

متقی ایسے کہ تقویٰ ان کا اک ضرب المثل

تھا اگر ابلیس ناکامی پہ اپنی منفعل

تھے فرشتے ان سے اپنی پیشگوئی پر خجل

فطرۃً خیر وخلوص وطبعاً ایثار عمیم

پیکر مہر ومروت مظہر خلق عظیم

رحمتیں ہوں ان کی روح پاک پر اور قبر پر

رحمتوں کے پھول برسیں خلد سے اس خاک پر

ہوں خلف ان کے بدل نعم البدل اسلام میں

وہ مٹا دیں آگیا ہے جو خلل اسلام میں

پھر افق سے ٹونک کے ہو آفتاب دین طلوع

دور ہو اسلام کا یارب وہاں سے پھر شروع

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے