تاریخ عرفانی، تاریخ ٹونک کا درخشندہ اور زریں باب

مولوی عبدالرحمٰن مفتی رسا ؔ

          اس موقع پر مولوی عبدالرحمٰن صاحب مفتی متخلص بہ رساؔ کامندرجہ ذیل مرثیہ نقل کرنا بے محل نہ ہوگا جو موصوف نے ۱۹۴۳؁ء مطابق ۱۳۶۳؁ھ میں قاضی صاحب کی غلط خبر وفات شائع ہونے پرکہاتھا۔بعدمیں اس خبر کی تردید ہوگئی لیکن یہ مرثیہ قاضی صاحب کے پاس محفوظ رہا ۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مفتی مرحوم عرصہ تک عدالت شریعت ٹونک میں قاضی صاحب کے رفیق رہے اور تقسیم ہند کے بعدبھاولپور پاکستان منتقل ہوگئے۔ مرثیہ کہتے وقت مولوی صاحب موصوف نواب سعادت علی خاں صاحب کی  نظر عنایت سے سرونج میں مقیم ومقید تھے۔ وہیں آپ کوقاضی صاحب مرحوم کے انتقال کی خبر بد ملی۔ آپ نے اسی حالت میں اپنے تاثرات کااظہارفرمایاہے۔ 

رساؔ

مصیبت کی خبر اور آہ وہ بھی کس مصیبت میں

قیامت جس سے برپا ہو مری مردہ طبیعت میں

کہاں ہوں کس جگہ ہوں آہ زندہ ہوں کہ مردہ ہوں

معطل نبض ہستی ہے مگر سکتہ کی صورت میں

میں کھویا جا رہا ہوں مجھ کو لینا، تھامنا، چلنا

ادب اور ہوش رخصت ہو رہے ہیں جوش وحشت میں

یہ کوئی موت ہے، آندھی ہے ، بجلی ہے معاذ اللہ

نظر آتا نہیں ہے فرق جس کو نور وظلمت میں

کسی جاہل کو یا ظالم کو اون کی موت آجاتی

وہ زندہ اور رہتے کیا نہ تھا یہ تیری قدرت میں

خس وخاشاک دنیا میں پھلے پھولے قیامت ہے

جو ہو پھولوں کا گلدستہ نہاں ہو آہ تربت میں

وہ عالم با عمل تھے صاحب تقویٰ طہارت تھے

انہی کے دم سے باقی تھی جو رونق تھی شریعت میں

مصفی آئینہ تھے آہ اخلاق جلیلہ کے

مظاہر حق کو دیکھا ہم نے ہے عرفان کی صورت میں

وہ خدمت خلق کی کرتے تھے دل سے خوش بھی رہتے تھے

یہی باعث تھا اس کا جو شغف تھا خاص حکمت میں

وہ اہل دل تھے، دل کی آنکھیں ان کی خوب روشن تھیں

وہ اندھوں کے لئے تھے راہبر راہ طریقت میں

ببانگ دہل حق گوئی یہ ان کا خاص مسلک تھا

خدا کے خوف سے روتے تھے خلوت او رجلوت میں

مجسم صدق تھے ، صدیق تھے ، عارف تھے عرفان تھے

نبات اور انگبین تھیں جتنی باتیں تھیں محبت میں

کہاں تک خوبیاں بتلائوں ان کی مختصر یہ ہے

نمونہ تھے غرض حسنِ عمل اور حسنِ سیرت میں

تصور میں بظاہر مطمئن تھا ان سے ملنے پر

یہ کیا معلوم تھا ملنا نہیں ہے آہ قسمت میں

ابھی ہنستے ہوئے گذرے ہیں میرے سامنے سے وہ

پکڑتا رہ گیا دامن میں ان کا دست حسرت میں

بقاء حق کی وہ دل میں تڑپ اور شوق رکھتے تھے

صدائے ارجعی سنتے ہی جاپہنچے وہ جنت میں

وہ جس سینہ میں اک دنیا سماجانے کی وسعت تھی

گذر، ایک سانس کی مشکل ہو، ہوں میں غرق حیرت میں

احباء اور اعزہ میں صف ماتم بچھی ہے اب

تڑپتے اور آنسوئوں میں بہاتے سوز وفرقت میں

جواہر ریزے جتنے تھے نظر بد کھاگئی ان کو

خزف ریزے پڑے ہیں اب تو سب گنج سعادت میں

کرم سے یا الٰہی مولوی عرفان کی مرقدپر

ہو رحمت سایۂ افگن اور وہ آغوش رحمت میں

رساؔ جانا ہے تم کو بھی وہاں عزم سفر کر لو

پڑے سوتے رہو گے آہ کب تک خواب غفلت میں

حافظ مبارک علی صاحب دل ؔایوبی

چہرے افسردہ ہیں نظریں ہیں اداس

مضطرب ہیں دل پریشاں ہیں دماغ

ہیں مسلط ہر طرف تاریکیاں

ہو گیا گل علم وعرفان کا چراغ

مولوی جلال الدین صاحب

از بس کہ قاضی تھا بفرمان قضا

پہنچا چمکنے چرخ پر برجیس سا

العلم علمان پہ رکھتا تھا یقین

وہ عالم ادیان وابدان چل بسا

تھی ذات جس کی نور پاش علم وفضل

وہ آفتاب حکمت وعرفان چھپا

۱۳۸۱ھ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے